9 مئی کے بعد حالات وہ ہیں جو آئین میں انتخابات کے التواء کیلئے درج ہیں؟: چیف جسٹس

June 07, 2023

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال—فائل فوٹو

چیف جسٹس پاکستان نے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں اور پنجاب انتخابات نظرِ ثانی کیس کی سماعت کے دوران سوال اٹھایا ہے کہ 9 مئی کے بعد کیا حالات وہ ہیں جو آئین میں انتخابات کے التواء کیلئے درج ہیں؟

سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں اور پنجاب انتخابات نظرِ ثانی کیس کی سپریم کورٹ میں ایک ساتھ سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل نے پنجاب انتخابات نظرِ ثانی کیس کا فیصلہ سنانے کی استدعا کر دی۔

درخواستوں پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔

بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ ریویو ایکٹ پر نوٹس کے بعد انتخابات کا کیس نئے قانون کے تحت بینچ سنے گا، اٹارنی جنرل کو نوٹس کر دیتے ہیں، ریویو ایکٹ کا معاملہ کسی اسٹیج پر تو دیکھنا ہی ہے۔

حکومت کی اچھی قانون سازیوں کو سراہتے ہیں: چیف جسٹس

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ جو انصاف کا کام ہم کر رہے ہیں یہ مولا کریم کا کام ہے، ہمارے کام میں دخل دینا تو حق میں مداخلت کرنا ہے، حکومت تو دروازوں پر احتجاج کر رہی تھی، کیا احتجاج کا مطلب انصاف کے معاملے میں رکاوٹ ڈالنا تھا؟ اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ حکومت اور حکومتی اداروں نے قانون کے مطابق چلنے کا فیصلہ کیا ہے، آج حکومت کی سوچ ریاضی کی بنیاد پر نہیں، قانون اور حقائق پر ہے، حکومت کی اچھی قانون سازیوں کو ہم سراہتے ہیں، ریویو ایکٹ میں آرٹیکل 184 تھری سے متعلق اچھی ترامیم ہیں، صرف ایک غلطی انہوں نے یہ کی کہ آرٹیکل 184 تھری پر نظر ِثانی کو اپیل قرار دے دیا۔

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر سے کہا کہ آپ بھی ریویو ایکٹ پر اپنا نقطۂ نظر بتا دیں۔

سپریم کورٹ ریویو ایکٹ آئین کیخلاف ہے: وکیل PTI

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ آئین کے خلاف ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں بھی یہی معاملہ اٹھایا گیا تھا، سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکمِ امتناع دے رکھا ہے، یہ حکمِ امتناع ریویو ایکٹ پر بھی لاگو ہوتا ہے، سپریم کورٹ پنجاب انتخابات نظرِثانی کیس کو سن سکتی ہے، سپریم کورٹ ریویو ایکٹ حکمِ امتناع کی وجہ سے اس عدالت پر ابھی لاگو نہیں ہوتا، عدالت انتخابات نظرِثانی کا فیصلہ ریویو ایکٹ کے فیصلے تک روک سکتی ہے، انتخابات نظرِ ثانی کیس میں دلائل تقریباً ہو چکے، کیس مکمل کر لینا چاہیے۔

’’کیسے ریویو ایکٹ پنجاب انتخابات نظرِ ثانی کیس میں لاگو نہیں ہوتا؟‘‘

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر ریویو ایکٹ لاگو ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن کے وکیل کو لارجر بینچ میں دوبارہ سے دلائل دینا ہوں گے، اگر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ نافذ ہو چکا ہے تو عدالت کیسے پنجاب انتخابات کیس سنے؟ بتائیں کیسے ہم پر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ پنجاب انتخابات نظرِ ثانی کیس میں لاگو نہیں ہوتا؟

’’9 مئی کے بعد حالات وہ ہیں جو آئین میں انتخابات کے التواء کیلئے درج ہیں؟‘‘

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سب چاہتے ہیں کہ پنجاب انتخابات نظرِثانی کیس کا فیصلہ ہو، الیکشن کمیشن کے وکیل نے یہ دلیل دی کہ ان کے پاس وسیع تر اختیارات ہیں، اپیل کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں، پنجاب انتخابات نظرِثانی کیس نیا نہیں، اس پر پہلے بحث ہو چکی ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل نظرِثانی کا دائرہ کار بڑھانے پر تھے، انتخابات نظرِ ثانی کیس لارجر بینچ میں جاتا ہے تو الیکشن کمیشن کے وکیل دلائل وہیں سے شروع کر سکتے ہیں، انتخابات کا معاملہ قومی مسئلہ ہے، 14 مئی کے فیصلے پر عمل درآمد ممکن نہیں مگر یہ فیصلہ تاریخ بن چکا، عدالتی فیصلہ تاریخ میں رہے گا کہ 90 روز میں انتخابات لازمی ہیں، دیکھنا تو یہ تھا کہ کیا انتخابات کے لیے 90 روز بڑھائے جا سکتے ہیں، 9 مئی کے واقعات کے بعد حالات وہ ہیں جو آئین میں انتخابات میں التواء کے لیے درج ہیں؟ ہر چیز تشدد اور زور زبردستی سے نہیں ہو سکتی۔

پنجاب انتخابات نظرِثانی کیس کا فیصلہ سنایا جائے: وکیل PTI

اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے پنجاب انتخابات نظرِثانی کیس کا فیصلہ سنانے کی استدعا کر دی اور کہا کہ جو بھی حالات یا دلائل ہوں، عدالت پنجاب انتخابات نظرِثانی کیس کا فیصلہ جلد کرے، 15 مئی کی رات مجھے لگا کہ آئین کا انتقال ہو گیا، 15 مئی کو انتخابات کی معینہ مدت اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی توہین ہوئی، ہر دن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آئین کا قتل ہو چکا، وزیرِاعظم، چیف جسٹس سمیت سب نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھا رکھا ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل جو بھی دلائل دیں اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہو گی، جب ریویو ایکٹ پاس ہوا تو سینیٹ میں کہا کہ کیسے آئین سے متصادم قانون بنا رہے ہیں؟ سینیٹ سے 5 منٹ میں یہ ریویو ایکٹ پاس ہوا، اس پر بحث بھی نہیں ہوئی، آرٹیکل 184 تھری میں ترامیم اچھی ضرور ہیں مگر یہ آئینی ترمیم سے ہی ممکن ہے، عدلیہ کی آزادی سے متعلق قوانین آئینی ترمیم سے ہی بنائے جا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے خیال میں حکومت نے آرٹیکل 184 تھری میں اپیل کا حق دیا جو خلافِ آئین ہے؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جو نکات مرکزی کیس میں نہیں اٹھائے گئے وہ نظرِثانی میں نہیں لائے جا سکتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس قانون میں آرٹیکل 184 تھری سے متعلق اچھی ترامیم ہیں، صرف ایک غلطی انہوں نے یہ کی کہ آرٹیکل 184 تھری پر نظرِثانی کو اپیل قرار دے دیا، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کہ کیوں حکومت نے غلطی کی؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کے خلاف درخواست گزار ذاتی حیثیت میں ہیں، اگر علی ظفر کو کیس میں فریق بننا ہے تو درخواست ڈال دیں۔

حکومت کی اچھی قانون سازیوں کو سراہتے ہیں: چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کوئی ایسا راستہ بتائیں کہ وقت کی بچت ہو، اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ حکومت اور حکومتی اداروں نے قانون کے مطابق چلنے کا فیصلہ کیا ہے، آج حکومت کی سوچ ریاضی کی بنیاد پر نہیں قانون اور حقائق پر ہے، حکومت کی اچھی قانون سازیوں کو ہم سراہتے ہیں، حکومت تو دروازوں پر احتجاج کر رہی تھی، کیا احتجاج کا مطلب انصاف کے معاملے میں رکاوٹ ڈالنا تھا؟ یہ جو انصاف کا کام ہم کر رہے ہیں یہ مولا کریم کا کام ہے، ہمارے کام میں دخل دینا تو حق میں مداخلت کرنا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کے خلاف درخواستیں آئیں، درخواست گزاروں کے مطابق نظرِ ثانی کے دائرہ کار کو بڑھانے کا ایکٹ غیر قانونی ہے، درخواست گزاروں کے مطابق نظرِثانی کا دائرہ اختیار بڑھانے کے لیے آئینی ترمیم لازم ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر لارجر بینچ نے پہلے ہی حکمِ امتناع دے رکھا ہے، پنجاب انتخابات کیس بھی ریویو ایکٹ کیس کے ساتھ مقررکیا جائے گا، دونوں کیسز ایک ساتھ سماعت کے لیے منگل کو مقرر کیے جائیں، ممکن ہے کہ منگل سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کریں۔

’’کوشش کریں گے الیکشن کمیشن کی نظرِ ثانی درخواست پر جلد از جلد فیصلہ کریں‘‘

چیف جسٹس نے کہا کہ کوشش کریں گے کہ الیکشن کمیشن کی نظرِ ثانی درخواست پر جلد از جلد فیصلہ کریں، 9 مئی کے واقعات کے بعد الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر کو انتخابات کی تاریخ پر بھی واضح جواب نہیں دیا۔

2 درخواست گزاروں نے علی ظفر کے دلائل اپنا لیے

اس موقع پر درخواست گزار زمان خان وردگ اور غلام محی الدین نے علی ظفر کے دلائل اپنا لیے ۔

فریقین کو نوٹس جاری

عدالتِ عظمیٰ نے ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ کے خلاف کیس میں فریقین اٹارنی جنرل، صدر، وفاقی حکومت، وزارتِ پارلیمانی امور کو نوٹس جاری کر دیے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے 14 مئی کو انتخابات کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرِ ثانی اور ایکٹ کے خلاف درخواستوں کو یکجا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ 3 رکنی بینچ منگل سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے گا۔

اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ آف پاکستان نے کیس کی سماعت 13 جون تک ملتوی کر دی۔