تقویٰ اور پرہیز گاری

June 09, 2023

مولانا حافظ عبد الرحمن سلفی

تقویٰ اہل ایمان کا زاد راہ، مومنوں کا شعار اور اخروی نجات کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسانیت کی ہدایت و رہنمائی کے لئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائےکرام ؑمبعوث فرمائے اور ہر نبی نے اپنی قوم ‘ علاقے اور بستی کے لوگوں کومحض اللہ سے ڈرایا اور اسی سے وابستہ رہنے کی تلقین کی۔ تمام انبیاء ؑکی دعوت کا محور و مرکز ذات باری تعالیٰ کا تعارف اور اس کے غیض و غضب سے بچنے اور رحمت و شفقت کی امید رکھنے کا درس ہے۔ دراصل تقویٰ ہی انسان کو رب سے ملاتا ہے اور تقویٰ ہی مومن کے اندر حسن عقیدہ وعمل اورحسن اخلاق جیسے اوصاف پیدا کرتاہے۔

یہ خشیت الٰہی کا جذبہ ہی ہے جو مومن بندے کو ہر طرح کے فسق و فجور اور فتنہ فساد سے بچائے رکھتاہے۔ ایک متقی پرہیز گار مومن بندہ جہاں اپنے رب کا پسندیدہ ہو جاتا ہے، وہیں معاشرتی سطح پر بھی وہ ایک انتہائی پاکیزہ کردار کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس کی ذات سے جہاں رب تعالیٰ کی نافرمانیاں سرزد نہیں ہوتیں ،وہیں اس کی ذات سے افراد معاشرہ کو بھی کوئی ضرر نہیں پہنچتا، بلکہ اس کی مثال پورے معاشرے کے لئے شجر سایہ دار کی ہو جاتی ہے۔ جس سے ہر کس و ناکس فیض حاصل کر سکتا ہے۔

قرآن مجید و احادیث مبارکہ میں متعدد مقامات پر تقویٰ کی رغبت دلائی گئی ہے اور متقین کے لئے آخرت میں بڑے عظیم درجات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ جیسا کہ سورۂ آل عمران میں ارشاد ہے: ۔ آپ ﷺکہہ دیجئے کیا میں تمہیں اس (یعنی دنیا کی زیب و زینت) سے بہت ہی بہتر چیز بتائوں ‘ تقویٰ والوں کے لئے ان کے رب کے پاس جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور پاکیزہ بیویاں اور اللہ کی رضا مندی ہے اور سب بندے اللہ کی نگاہ میں ہیں۔

ایک مقام پر اہل تقویٰ کی پذیرائی اس طرح بیان کی گئی۔(ترجمہ) ہاں البتہ جو شخص اپنا اقرار پورا کرے اور تقویٰ اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ بھی ایسے متقیوں کو دوست رکھتا ہے (سورۂ آل عمران)

مالک کائنات نے ایک جگہ تقویٰ کی نصیحت اس انداز میں کی۔ ترجمہ! اور واقعی ہم نے ان لوگوں کو جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور تمہیں بھی یہی حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور (اگر) تم کفر کرو تواللہ کا کچھ نقصان نہیں ہوگا، کیونکہ اللہ ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اللہ بہت بے پروا اور تعریف کیا گیا ہے۔(سورۃ النساء )

تقویٰ دراصل اہل ایمان کی دلی کیفیات کے اظہار کا ذریعہ ہے کہ وہ اپنے ہر عمل کو اخلاص نیت اور سنت کے مطابق محض رضائے الٰہی کے حصول کے جذبہ کے تحت کرتا ہے کہ بس کسی طرح اس کا رب اللہ اس سے راضی ہو جائے اور میں کوئی ایسا کام نہ کروں جس سے اللہ کی ناراضی کا خدشہ ہو، لہٰذا جب ایک بندئہ مومن کے دل میں یہ احساس جاگزیں ہوجائے کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے اور وہ جزا و سزا پر قادر ہے تو پھر وہ اپنے عقائد و اعمال اخلاق وغیرہ کو اللہ کی مرضی کے تابع کر دیتاہے اور اس کا ہر نیک عمل عبادت بن جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ کو تقویٰ پسند ہے۔

چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: اور اللہ کو تمہاری قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے اور نہ ان کے خون بلکہ اسے تو تمہارے دلوں کی پرہیز گاری پہنچتی ہے۔ (سورۃ الحج) یعنی ہم جو قربانیاں کرتے ہیں ان کا گوشت پوست اللہ کو نہیں پہنچتا، بلکہ وہ سب کچھ تو ہم خود کھا جاتے ہیں یا استعمال کر لیتے ہیں تو آخر اللہ کو کیا ضرور ت تھی کہ وہ ہم سے جانور یا مال و متاع کی قربانی کرائے۔ آگے ارشاد فرمایا کہ اللہ کو ان سب چیزوں کی حاجت نہیں، بلکہ وہ تو تمہارے دلوں کی آزمائش کرنا چاہتا ہے کہ کون اپنے رب کی رضا پر راضی ہے اور اس کے احکام پر دل کی گہرائیوں کے ساتھ بجا آوری کے عملی مظاہرے کرتا ہے اور اللہ کو یہی مطلوب ہے کہ اس کے بندے اس کا ڈر اور خوف اپنے دلوں میں بسالیں اور ہر عمل خالصتاً اسی کی رضا کے حصول کے لئے کریں۔

سرورِ کائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا ارشاد عالی ہے: اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کی طرف نہیں دیکھتا ،بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔ (مشکوٰۃ)

یعنی اللہ تمہارے اخلاص کو دیکھتا ہے کہ یہ بندہ جو عمل کر رہا ہے وہ لوجہ اللہ کر رہا ہے یا اس میں نام و نمود یا ریا کاری شامل ہے ۔کوئی عمل خواہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو ،اگر خالصتاً اخلاص پر مبنی ہے تو وہ اللہ کے دربار میں منظور و مقبول ٹھہرتا ہے اور اس سے اللہ راضی ہو جاتاہے۔ اس کے برعکس کوئی عمل خوہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، لیکن اخلاص سے خالی ہو تو پھر وہ عمل اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں، بلکہ اللہ کے غیض و غضب کا ذریعہ بن جائے گا۔

تقویٰ اور پرہیز گاری تمام گناہوں کے چھوڑنے، منہیات سے باز رہنے اور حرام اور شک و شبہ والی چیزوں سے بچنے سے حاصل ہوتا ہے، اسی لئے رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے: حلال ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور اس حلال و حرام کے بیچ میں بعض شبہ والی چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے (کہ آیا وہ حلال ہے یا حرام ہے) جو شک اور شبہ والی چیزوں سے بچا، اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا اور جو ان شبہ والی چیزوں میں پڑ گیا تو اس کی مثال اس چرواہے جیسی ہے جو شاہی چراگاہ کے پاس اپنے جانوروں کو چرائے‘ قریب ہے کہ اس میں کوئی گھس جائے ،خبردار ہر ایک بادشاہ کی ایک مخصوص چراگاہ ہے جس میں دوسرے کے جانوروں کے گھسنے کی اجازت نہیں ہے۔ سن لو! اللہ تعالی ٰکی چراگاہ یعنی زمین میں اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔خبردار جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جب وہ درست رہا تو سارا جسم درست رہا اور جب وہ خراب ہو گیا تو سارا جسم خراب ہوا۔مسلمانو ! وہ دل ہے۔(بخاری شریف)یعنی دل میں تقویٰ اور ڈر ہونا چاہیے اگر بندہ اللہ کے خوف سے حرام اور شک والی چیزوں کو چھوڑ دے تو وہ نیک شمار ہوگا۔

اگر کوئی بندہ اللہ سے بے خوف ہو کر حرام اور شبہ والی چیزوں کو استعمال کرے تو وہ اچھا شمار نہیں کیا جائے گا، اصل تقویٰ و پرہیز گاری یہی ہے کہ شک والی چیزوں کو بھی چھوڑ دیا جائے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: شک و شبہ والی چیزوں کو چھوڑ کر وہ کام کرو جس میں شک و شبہ نہ ہو، آپ ﷺ نے فرمایا: بندہ اس وقت تک پرہیز گاری کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا، جب تک ناجائز سے بچنے کے لئے بعض مباح چیزوں سے بھی نہ بچے۔

ایک اور حدیث مبارکہ ہے جس میں آپﷺ نے فرمایا: دین میں سب سے افضل چیز یہی پرہیز گاری ہے۔ (طبرانی، ترغیب)اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ انتہائی توجہ کے لائق ہے جس میں تقویٰ و پرہیزگاری کا عظیم درس موجود ہے۔ اگر ہم فی الواقع اس حدیث مبارکہ پر عمل پیرا ہو جائیں تو ہماری دنیا و آخرت سنور سکتی ہے۔ نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: وہ بندہ سب سے برا ہے جس نے اپنے آپ کو سب سے اچھا سمجھا اور لوگوں پر تکبر و گھمنڈ کیا اور اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین ہستی کو بھلا بیٹھا اور اس کی بلند وبالا بزرگی کی کوئی قدر نہ کی اور وہ بندہ بھی بہت برا ہے جس نے جبر و قہر کیا اور لوگوں پر ظلم و ستم کیا اور اللہ تعالیٰ کے جبر و قہر کو بھول گیا جو سب سے زیادہ زبردست اور غالب تر عزت والا ہے اور وہ بندہ سب سے برا ہے جودین کے کاموںکو بھول گیا اور دنیا کے فضول کاموں میں مشغول اورمصروف ہو گیا اور قبروں میں مرنے اور سڑنے کو بھول گیا یعنی نہ موت کا سامان نہ مرنے کے بعد کے عالم کا خیال۔

وہ بندہ برا بندہ ہے جس نے لوگوں میں فساد برپا کیا اور حد سے بڑھ گیا اور اپنی ابتدائی حالت کو بھول گیا کہ کس چیزسے پیدا کیاگیا اور وہ کیسا کمزور و عاجز تھا اور اپنے انجام کو بھی بھلا دیا کہ مرنے کے بعد مٹی میں جانا ہے اور مجھ کو کیڑے مکوڑے کھا جائیں گے یعنی جو اپنی ابتدا اور انتہا کو بھول گیا ہو وہ برا بندہ ہے۔ وہ بندہ برا بندہ ہے جو دنیا کو دین سے حاصل کرتا ہے یعنی دین کا کام کر کے دنیا طلب کرتا ہے وہ بندہ برا بندہ ہے جس نے شبہات میں پڑ کر دین کو خراب کر دیا، وہ بندہ برا ہے کہ طمع و حرص اسے دنیا داروں کے پاس کھینچ لائی ہے یعنی دنیا کی حرص اسے دربدر پھراتی رہتی ہے، وہ بندہ برا بندہ ہے کہ ا س کی خواہش نفسانی گمراہ کرتی پھرتی اور دین حق سے برگشتہ کر دیتی ہے، وہ بندہ برا بندہ ہے جسے دنیا کی رغبت ذلیل و رسوا کرتی ہے (ترمذی، مشکوٰۃ)حدیث مبارکہ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو خوب واضح ہو جاتاہے کہ تقویٰ کے حصول اور بلندی درجات کے اسباب کیا ہیں اور ایک بندہ مومن کو کس انداز میں اپنی زندگی کے روز و شب گزارنے چاہئیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ جیسی عظیم نعمت عطا فرمائے، تاکہ ہم دنیا و آخرت کی کامیابیاں حاصل کر سکیں۔( آمین یاربّ العالمین)