شمس الرحمٰن فاروقی کے ایک طویل افسانے کا اچھوتا موضوع ’’قبض زماں‘‘

October 01, 2023

’’قبض زماں‘‘نام ہے شمس الرحمٰن فاروقی کے ایک طویل افسانے کا ۔ اس کا مطلب ہے،زمانے کا سکڑنا۔ کیا زمانہ ربر کی طرح سکڑ یا پھیل سکتا ہے۔؟

علامہ اقبالؒ نے زمانے کے متعلق کہا۔ وقت کیا ہے؟

زمانے کی ایک رو نہیں جس کا کوئی نام

یہ سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات

قرآن میں بھی قبض زماں کا ایک واقعہ سورئہ کہف میں ہے۔ چند نیک نوجوان بادشاہ کے مظالم سے ڈر کر ایک غار میں چھپ گئے اور وہاں تین سو سال تک سوتے رہے ،پھربیدار ہوئے۔ ہندو مائی تھالوجی میں بھی ایک ایسی داستان ملتی ہے۔ وقت کے سکڑنے کی ایک گرو اور اس کا چیلا ایک لمبے سفر پر تھے۔ چلتے چلتے انہیں بھوک لگی۔ گرو نے کہا،بیٹا،وہ دیکھتے ہو سامنے ایک گائوں ہے۔ وہاں جائو اور کھانا مانگ کے لے آئو۔۔۔ چیلا چلا اور اس گائوں تک پہنچ گیا۔ ایک دروازے پر دستک دی، ایک خوبصورت لڑکی باہرآئی۔۔۔ چیلا اپنا سوال بھول گیا،لڑکی پر عاشق ہو گیا۔ لڑکی کے ماں باپ سے شادی کی درخواست کی جو انہوں نے قبول کرلی۔۔۔ چیلا اسی گائوں میں بس گیا کئی سال گزر گئے دو بچے بھی پیدا ہو گئے۔

ایک دن گائوں میں بارش ہوئی، سیلاب آگیا۔ ہر طرف پانی چڑھ گیا ۔چیلے نے ایک ہاتھ سے بیوی اور دوسرے ہاتھ سے بچوں کو تھاما اور انہیں بلندی کی طرف لے کر چلا۔ ایک زور دار لہر آئی۔ بیوی کا ہاتھ چھوٹا، پھر بچوں کا،چیلا بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ جب ہوش میں آیا تو دیکھا،دھوپ پھیلی ہوئی ہے اور وہ گرو کے قدموں میں لیٹا ہے۔گروجی پوچھ رہے ہیں،بیٹا روٹی لے کر نہیں آئے۔؟

پوری دنیا کے لوگ وقت کے متعلق سوچتے رہتے ہیں۔ قرآن میں ایک سورۃ کا نام ہی وقت (عصر) ہے۔ قرۃ العین حیدر نے دریا کو وقت کا سیال کہا ہے۔ اب اس کہانی کو مختصراً بیان کرتے ہیں۔

میرا نام گل محمد ہے۔ میں ہندوستان کے بادشاہ ابراہیم لودھی کے ایک رئیس کا ملازم تھا۔ اور سپہ گری میرا پیشہ تھا، میرے گائوں کا نام ننگل خورد تھا جو دہلی کے نواح میں واقع تھا، جب نوکری کرتے کئی برس گزر گئے، میری بیٹی بڑی ہو گئی تو ایک جگہ اس کی شادی طے کردی۔اس دوران میرے پاس ساڑھے تین سو تنکے (روپے) جمع ہو گئے میں نے اپنے گائوں جانے کا قصد کیا،چھٹی لی اور گھوڑے پر سوار ہو کر گھر کی طرف چل پڑا۔

راستے میں مجھے تین ڈاکوئوں نے قابو کرکے لوٹ لیااورمجھے باندھ کر راستے پر چھوڑ گئے۔ میں ڈرتا تھاکہ کوئی شیر یا بھیڑیانہ آجائے، اتنے میں ایک رئیس اپنے ہاتھی پر سوار ادھر سے گزرے ،ان کے ساتھ کئی نوکر چاکر بھی تھے،انہوں نے میری رسیاں کھولیں۔ اپنے ساتھ لے گئےاور ایک قریبی سرائے میں چھوڑ دیا۔ دوسرے دن جب میرے ہوش و حواس بحال ہوئے تو میں اپنے ایک دوست کی تلاش میں نکلا،جب وہ مل گیا تو اسے اپنی بپتا سنائی۔ اس نے کئی تجاویز پیش کیں۔ ایک تجویز جو مجھے پسند آئی وہ یہ تھی۔

جمنا کے کنارے ایک رئیس عورت بڑے شاہانہ طریقے سے رہتی تھی اس کا نام امیر جان تھا،وہ بڑی مخیر اور غم خوار تھی اس کے پاس جاکر مدد مانگیں۔ یہ طے کرکے ہم امیر جان کی حویلی جمنا پہنچ گئے۔ حویلی بہت شاندار تھی۔ اس کی حفاظت پر سیکڑوں پہلوان عورتیں مامور تھیں ،ہم نے پیغام بھیجا۔ امیر جان نے بلوایا حال پوچھا۔ حال سن کر انہوں نے مجھے ساڑھے تین سو تنکے (ادھار ) اور پچاس بطور انعام دیئے ۔ میں اپنے گائوں پہنچا بیٹی کی شادی کی، خدا نے دن پھیر دیئے، تین سال میں میرے پاس ساڑھے تین سو تنکے جمع ہو گئے۔

میں قرض واپس کرنے کے ارادے سے گائوں سے گھوڑے پر بیٹھ کر امیر جان کی حویلی پہنچا۔ حویلی ویران پڑی تھی۔ معلوم ہوا ،امیر جان کشی میں بیٹھ کر دریا کی سیر کر رہی تھی کہ کشتی ڈوب گئی،امیر جان مر گئی۔ اور قریبی قبرستان میں دفن کردی گئی۔ قبر زیادہ دور نہ تھی۔ میں ایصال ثواب کے ارادے سے قبرستان کی طرف چل پڑا۔ قبر پر پہنچ کر دیکھا،قبر کھلی پڑی ہے اندر جھانک کے دیکھا تو روشنی نظر آئی۔ میں قبر کے اندر اُتر گیا۔ وہاں تو باقاعدہ سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔

میں اندر داخل ہو گیا اندر لہلہاتا ہوا چمن نظرآیا۔ میری طبیعت خوش ہو گئی ،میں کچھ دیر چمن کی سیر کرتا رہا کہ ایسا چمن میں نے کب دیکھا تھا۔ مجھےامیر جان کا محل نظر آگیا میں محل کے اندر داخل ہو گیا۔ امیر جان کو مسند نشین پایا،وہ مجھے دیکھ کر برہم ہو گئی کہ عورتوں کے مکان میں مردوں کا کیا کام ،میں وہاں کیوں آیا۔۔؟ اس نے اپنی کنیزوں اور محافظ عورتوں کو حکم دیا کہ مجھے باہر نکال دیں، تھوڑی دیر کے بعد میں قبر سے باہر آگیا۔ باہر نکلا تو قبرستان کا نقشہ بدلا ہوا پایا گھوڑا غائب تھا جو دوچار لوگ ملے تو ان کے لباس اور زبان مختلف پائی،جوں جوں میں آگے چلتا گیا۔

نئی نئی عمارات نئے نئے راستے اور سڑکیں نظر آنے لگیں، لوگوں کے لباس بھی مختلف تھے زبان بھی، شہر میں نئے نئے طرز کی سواریاں چل ہی تھیں۔ مجھے پتہ لگ گیا بادشاہ وقت کا نام احمد شاہ ہے وہ شہنشاہ بابر کے خلف سے ہیں۔ ابراہیم لودھی اور بابر کو مرے دو ڈھائی سو برس گزر چکے ہیں۔ شکر ہے میرا سرمایہ میری کمر کے ساتھ ایک ہیمانی میں بندھا ہوا محفوظ تھا لیکن لوگ اس کے سکے کو قبول نہیں کر رہے تھے۔ ایک مسجد نظر آئی اس میں داخل ہو کر وضو کیا۔ اور سجدے میں جاکر بہت رویا۔

عجیب طرح کی حیرت اور پریشانی ہو رہی تھی۔ حیرانی اس بات کی تھی کہ کس طرح زمانہ بدل گیا تھا۔ سکندر لودھی کی جگہ اب احمد شاہ بادشاہ تھا۔ لوگوں کا تمدن بدل چکا تھا ۔زبان بدل گئی تھی۔ اسی فکر میں غلطاں ایک دن میں بازار میں چلا جا رہا تھا کہ ناگہاں،ایک راہگیر سے ٹکرا گیا میں نے بڑی معذرت کی۔ غور سے دیکھا تو وہ شخص انتہائی عمدہ اور نفیس لباس میں ملبوس تھا ،بڑا خوش شکل اور خوش اخلاق تھا،اس کا نام میر محمد علی تھا ۔ شہر کے سب لوگ اس کی بے حد تعظیم کرتے تھے۔ اس نے میرا حال سن کر مجھے ایک نوکری دلوادی اور رہنے کے لئے ایک مکان۔

اپنے احباب میں شامل کرلیا اور دہلی کی علمی اور ادبی مجلسوں میں ساتھ لے جانے لگا۔ دہلی میں اس وقت علم و عرفان کے بہت چراغ جل رہے تھے۔ ایک سے ایک یگانہ روزگار شخصیت وہاں رہتی تھی۔ میں نے دہلی کی مجلسوں سے بڑا لطف اٹھایا۔۔ لیکن میں محسوس کررہا تھا کہ میں اپنے آپ میں نہیں ہوں۔ کوئی خلش میرے دل کو کھائے جاتی تھی۔ میری کیفیت سرسامی رہتی تھی۔ لگتا تھا کہ بخار چڑھنے والا ہے۔ میں نے اپنے گائوں ننگل خورد، کا پتہ کروایا پتہ چلا کہ، ننگل خورد تو کب کا سیلاب برد ہو گیا، وہاں کے رہنے والے ڈوب کر مرگئے، اب وہاں ایک ویران جنگل ہے۔ یہ سن کر میرا دل بیٹھ گیا۔ اس زمانے کی بڑی بڑی شخصیتوں میں سے کچھ سے شناسائی ہو گئی تھی۔ ایک مشہور شاعر مرزا عبدالقادر بیدل تھے۔ دوسرے عبدالحئی تاباں ۔

ایک دن میر محمد علی نے کہا، رامپور کے اطراف میں کہیں لڑائی چھڑ گئی ہے، میں نواب کی فوجوں کے ساتھ لڑنے جا رہا ہوں ،تم بھی میرے ساتھ چلو۔ میں ان کے ساتھ ہو لیا۔ جنگ کے سارے ہتھیار نئی طرز کے تھے، جو میں نے زندگی میں کبھی نہ دیکھے تھے۔ بڑے زوروں کی لڑائی ہوئی۔ ہم سب مارے گئے۔ کوئی زندہ نہ بچا۔۔

’’تو کیا تم مردہ ہو۔یہ تو میں نہیں جانتا،افسردہ سی آواز ڈوبتی جا رہی تھی۔

فاروقی صاحب نے قبض زماں کا یہ واقعہ حضرت عبدالعزیز محدت دہلوی کے ملفوظات میں لکھا پایا۔ ایک سپاہی ایک دفعہ ایک قبر میں داخل ہو گیا۔ وہاں ایک اور ہی دنیا آباد تھی۔ ڈھائی گھنٹے کے بعد قبر سے باہر نکلا تو دنیا بدل گئی تھی۔ نہ وہ طرز زندگی نہ و ہ لوگ،نئی نئی عمارتیں بن گئی تھیں۔ سپاہی نے کچھ عرصہ اس نئی دنیا میں بسر کیا پھر ایک لڑائی میں لڑتا ہوا مارا گیا۔

اب ہم سائنس کی دنیا کی طرف آتے ہیں سائنسدانوں کے خیال میں کائنات مسلسل پھیلتی جارہی ہے۔ جس طرح کائنات پھیلتی جا رہی ہے،اسی طرح ایک دن سکڑنا شروع ہو جائے گی۔ ہماری زمین سکڑتے سکڑتے ایک فٹ بال کے برابر رہ جائے گی ۔ جدید فزکس پڑھنے والے زماں و مکان کے سکڑنے اور پھیلنے پر ذرا تعجب نہیں کرتے۔انسانی تجسس کے سامنے اسرار کائنات کھلتے جا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایک دن وہ راز بھی کھل جائیں جن پر آج پردہ پڑا ہے۔

فاروقی صاحب ، اپنے ناولوں اور افسانوں میں زبان بھی وہی استعمال کرتے ہیں جو اس زمانے میں بولی جاتی تھی۔ غالب کا ایک ایک لفظ گنجینہ معنی کا طلسم ہوتا ہے۔ شمس فاروقی کے فقرے بھی کسی گنجینہ معنی سے کم نہیں ہوتے۔پرانی تہذیب کو زندہ کرنے کی جو قدرت ان میں ہے وہ اور کسی میں نظر نہیں آتی،انہوں نے تاریخ اور تمدن کو عام قاری تک پہنچا کر بڑا احسان کیا ہے۔ ہماری پرانی تہذیب اسی لئے مٹ گئی کہ اس میں نئی زندگی کے تقاضے پورے کرنے کی صلاحیت نہ تھی۔

بہت سے قارئین کے لئے ہو سکتا ہے، شمس فاروقی سے اتفاق کرنا مشکل ہو، ویسے بھی زمان و مکان کے تصورات آسان نہیں ہیں۔ قرآن میں ایک اور واقعہ بھی مذکور ہے۔ وہ ہے حضرت سلیمان کا حضرت سلیمان نے ملکہ سباکا تخت طلب کیا تو ایک جن اسے پلک جھپکنے سے پہلے اٹھا لایا۔ اس سے بھی زمین و مکان کے سکڑائو (قبض) کے امکان پر روشنی پڑتی ہے۔

مسلمانوں میں خواجہ خضر کا تصور عام ہے کہ وہ ہمیشہ سے زندہ ہیں ۔انہیں موت نہیں آتی۔ غالب نے کیا دعا مانگی۔ دعا قبول ہو یارب۔ عمرخضر دراز لگتا ہے۔ حضرت خضر کو زمانے پر تصرف حاصل ہے ۔ قرآن میں سوبار تلقین کی گئی ہے اے لوگو! عقل سے کام لو عقل سے کام لو۔۔۔ آپ خود سوچئے، کیا زمانے کا پھیلائو اور سکڑائو ممکن ہے۔ عقل کے استعمال سے اس کی مزید توضیح اور تشریح ممکن ہے۔ روشنی کی رفتار معلوم کی گئی جو تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ ہے۔ سورج اور زمین کا فاصلہ نوکروڑ میل ہے اور آٹھ منٹ میں طے ہوتا ہے۔ یہ سب اسرار ازل سےہیں مگر کوئی جو پائے اسرار ازل ہو تو اس پر کھل جاتے ہیں۔ اسرار ازل سمجھنے کے شوق سے بہتر اور کون سا شوق ہو سکتاہے۔ اے خدا ہم سب کو یہ شوق عطا فرما۔