• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسنجر، بھٹو اور نیوکلیئر ڈپلومیسی

روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
سرد جنگ کی تاریخ کا سب سے بڑا انسانی زندگیوں کا قاتل امریکہ کاخارجہ امور کا سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر 100 سال کی زندگی گزار کے گزشتہ روز اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ عالمی میڈیا اسے تین سے چار ملین انسانوں کی زندگیوں کا قاتل قراردیتا ہے جس نے 1969 سے لے کر 1976 کے عرصے میں امریکہ ،روس سرد جنگ میں اپنی ڈپلومیسی کی وہ کارستانیاں یا کلاکاریاں کرکے دکھائیں کہ اسے سفارتکاری کی تاریخ کا بڑا گُرو کہا جاتا ہے جسے نوبل پرائز بھی دیا گیا اور جنگی مجرم بھی قرار دیا گیا گو کہ اس پر جنگی مجرم کے طور پر کبھی مقدمہ نہیں چلایا گیا لیکن مورخ اسے کسی دوسرے زاویئے سے دیکھنے کیلئے تیار نہیں۔ 1969-73 کے درمیان صرف کمبوڈیا میں امریکہ نے 5 لاکھ ٹن بم داغے اور ڈیڑھ لاکھ انسانوں کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ کسنجر ہی تھا جو صدر نکسن کو ایسی خونخوار بمباری کیلئے تیار کرتا تھا، دوسرا اس کا سب سے بدنام زمانہ جرم چلی میں جمہوری طور پرمنتخب بائیں بازو کے لیڈر آلندے کا تختہ الٹنا تھا جس میں کسنجر نے ڈکٹیٹر آگسٹوپنوشے کو اقتدار میں بٹھایا تھا، اسی طرح بنگلہ دیش کے قیام کے دوران بنگالیوں کی نسل کشی کو آخر تک لے جانے میں ہنری کسنجر نے بھرپور کردار ادا کیا، اس نسل کشی کے عمل کو نکسن اورکسنجر نے فل سپورٹ دی۔ اسی زمانے کی ایسٹ تیمور اور قبرص یا سائپرس بھی اوپر بیان کردہ تینوں مثالوں سے کم نہیں، امریکی اخبار نے 1976 میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کو پھر سے من و عن شائع کیا ہے جس میں کسنجر کی بھٹو سے ایٹم بم بنانے کے مسئلے پر باتیں ہوتی رہیں۔ یہ نیویارک ٹائمز میں Kissinger meets Pakistani leader on nuclear issue کے عنوان سے سپیشل اشاعت کے طور پر شائع ہوا۔ میں یہاں اس طویل آرٹیکل کی چند اہم باتوں کا خلاصہ آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں، آپ کو یاد ہوگا یا آپ نے پڑھا ہوگا کہ ہنری کسنجر پاکستان کے ایٹمی ری پراسسینگ پلانٹ کے لگائے جانے کے نہ صرف خلاف تھا بلکہ بھٹو کا دشمن بھی ہو گیا تھا۔ بھٹو اس پر کسی سمجھوتے کیلئےتیار نہیں تھا، امریکہ کا موقف تھا کہ پاکستان کا اس پلانٹ کو لگانے اور پھر ایٹم بم تیار کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے جب کہ امریکہ سمجھتا بھی تھا کہ پاکستان کو اس ایٹم بم کی ریس میں انڈیا کی برابری کرکے دکھانی ہے، ہنری کسنجر نے بھٹو سے کہا کہ اگر پاکستان اس پلانٹ کی پلاننگ سے باز نہ آیا تو پاکستان کو امریکی امداد میں ملنے والے A-7 Corsair Jet Fighter نہیں دیئے جائیں گے ، اس کے علاوہ پاکستان کو امریکی اقتصادی امداد پر بھی پابندی لگا دی جائے گیجب کہ کسنجر نے واشنگٹن کے ایک سینیٹر ابراھم ریبپکوف کو ایک خط میں تسلیم کیا تھا کہ انڈیا نے ایٹم بم کے دھماکے کیلئے تمام امریکی میٹریل استعمال کیا ہے، ایک رات بھٹو کی جانب سے کسنجر کو دیئے گئے عشایئے میں دونوں رہنما ایٹم بم کی تیاری پر ایک دوسرے پر یہ طنزیہ جفت بازی کرتے رہے جو دراصل بھٹو، کسنجر دشمنی میں بدل رہی تھی جس کے بعد لاہور آکر بھٹو نے کہایہ کلچرل سنٹر ہمارا ری پروسیسنگ سنٹر ہے۔ عشایئے کے دوران بھٹو کی اس بات پر کچھ اعلیٰ پاکستانی حکام اور امریکی سفارت کار ہنسے کہ بھٹو کو الفاظ سے خوب کھیلنا آتا ہے لیکن اس واقعے نے امریکیوں کے دلوں پر مہر ثبت کردی کہ بھٹو اب اس پروگرام پر کسی سمجھوتے کیلئے تیار نہیں ہے جس پر کسنجر نے کہا تھا کہ حکومتیں اپنے فیصلوں کا ازسر نو جائزہ لیتی رہتی ہیں جس پر مہمانوں نے کسنجر کے جواب کی تعریف میں خوب تالیاں بجائیں، یہ ڈنر روایتی پنجابی ماحول میں پیش کیا گیا، اس وقت تک پاکستان کے پاس کینیڈین معاونت سے بنایا گیا کراچی میں صرف ایک ایٹمی ری ایکٹر تھا،اب بھٹو نے فرانس کے ساتھ بھی ایٹمی ری پراسیسنگ پلانٹ بنانے کا باضابطہ معاہدہ کر ڈالا، کسنجر نے اس کے بعد ایران جاکر رضا پہلوی کے ساتھ نئی تجویز پھینکی کہ پاکستان ری پروسیسنگ پلانٹ بنائے لیکن اس کا استعمال ملٹی نیشنل بنایا جائے، پاکستان تو ایسی کسی تجویز پر آمادہ نہ ہوا لیکن ایران نے کسنجر کے ساتھ ایران کیلئے ملٹی نیشنل طریقہ کار پر ری پروسیسنگ پلانٹ اس شرط پر لگانے پر آمادگی ظاہر کی کہ امریکہ اسے یورینیم مہیا کرے گا لیکن یہ سب ہوائی باتیں تھیں،کسنجر کا اصل حدف تو بھٹو کو اس سے روکنا تھا لیکن آخر میں کہا جاتا ہے کہ کسنجر نے بھٹو کو نشان عبرت بنانے کی بھی دھمکی دی لیکن کچھ نہ بن پایا تو پاکستان کو اسلحے کی ترسیل میں کمی کردی اور اسلحے کی فروخت صرف اینٹی ٹینک میزائل تک محدود کردی لیکن پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام پر کسنجر کا کوئی دبائو لئے بغیر آگے بڑھتا رہا۔
یورپ سے سے مزید