تحریر:ڈاکٹر نعمان برلاس۔نیوکاسل وہ شيخ صاحب کے گھر کے وسیع وعریض برآمدے میں بیٹھا یہ اندازہ کر رہا تھا کہ ان کو شاید اردو بھی ٹھیک سے پڑھنی نہیں آتی۔ یہ شک اس وقت یقین میں بدل گیا جب انھوں نے ملازم سے اسی کی پیش کردہ خرچے کی رسید سے متعلق پوچھ گچھ شروع کی، وہ صرف خرچے کی رقم خود پڑھ رہے تھے جب کہ اس کی اردو اور کچھ انگلش میں لکھی تفصیل جاننے کیلئے ملازم ہی کو بار بار تکلیف دے رہے تھے، ہمارے ہاں ڈگری حاصل کرنا آسان ہے مگر اس کے بعد مناسب روزگار کا حصول خاصا دشوار،یہ بات ڈاکٹرز پر بھی صادق آتی ہے بلکہ ان کیلئےدو ہی ممکنہ صورتیں ہوتی ہیں یا تو آگے پڑھیں یا اپنا کلینک بنائیں اور ان دونوں کاموں کیلئے وقت اور پیسہ درکار ہیں ، آج کی بات چھوڑیئے 30 سے35سال پہلے بھی ایسے ہی حالات تھے اس صورت حال میں لاہور اندرون شہر میں واقع بہت سی فری ڈسپنسریاں نہ صرف غریبوں کیلئے بلکہ نوجوان ڈاکٹرزکیلئے بھی غنیمت تھیں، حاجت مندوں کیلئےمفت علاج اور نوجوان ڈاکٹرز کیلئےتجربہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا خرچہ چلانے کا ایک آسان ذریعہ، دو سے تین گھنٹے کی اس نوکری کا سب سے بڑا فائدہ پڑھائی کیلئے وقت کی فراہمی ، شیخ صاحب ایسی ہی ایک ڈسپنسری کے کرتا دھرتا تھے، ان کے ہاں یہ حاضری ڈسپنسری کے امور پر بات چیت کیلئے ہی تھی۔ موصوف کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ کئی سال قبل وہ لاہور موچی گیٹ کی مسجد کے باہر ٹھیلے پر نماز کی ٹوپیاں ، بنیانیں اور اسی طرح کا سامان بیچا کرتے تھے، ماہ رمضان کے آغاز سے پہلے سحر و افطار کے کیلنڈر دیکھ کر حیرانی کی انتہا نہ رہی جب یہ معلوم ہوا کہ وہ تو دراصل شیخ گروپ آف انڈسٹریز کے چیئر مین تھے اور کم ازکم پانچ فیکٹریوں کے مالک، اس سے معلوم یہ ہوا کہ روپے پیسے اور رزق کی فراوانی کیلئے تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ بشمول ڈاکٹرز کئی بار اس زعم میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ انھوں نے بہت محنت کی اسی لئے اتنے کامیاب ہوئے، دوسرے شعبوں کے ساتھ ساتھ کاروباری حضرات کو بھی اکثر یہ غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ انھوں نے ٹھیک وقت پر ٹھیک فیصلے کئے اسی لئے کامیابی نے ان کے قدم چومے، اگرچہ درست سمت میں محنت کامیابی کی کنجی ہے مگر سب کچھ کر کے بھی مسلمان کی نظر اپنے رب کی ہی طرف رہتی ہے، ’’مالی دا کم پانی دینا تے بھر بھر مشکاں پاوے، مالک دا کم پھل پُھل لانا تے لاوے یا نہ لاوے‘‘ تو معلوم یہ ہوا کہ یہ رزق اور مال و دولت خدائی تقسیم ہے، اس کے حصول کیلئے محنت تگ و دو ضروری ہے مگر ضمانت نہیں ، یہ نعمت اگر حا صل ہو جائے تو اللہ کا احسان ماننا چاہئے، اصل آزمائش دولت اور رزق کا حصول نہیں بلکہ بعد ازاں اس کا صحيح مد میں خرچ ہے اور مسلمان کیلئے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ دولت اور رزق اللہ کا دیا ہوا ہے، ایک مرید اپنے مرشد کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ سفر کے اختتام پر مرید نے ڈرائیور کو اس کی اجرت سے کچھ زائد دے کر یہ محسوس کیا کہ اس نے خوب نیکی کمائی اور پیر صاحب کو اس کی بابت بتانے لگا، وہ بولے تم نے کم دیا کچھ اور دو جب اس نے حیرانی سے پیر صاحب کی طرف دیکھا تو وہ بولے تم نے کون سا خود اپنی جیب سے دینا ہے بلکہ تم نے بھی تو ’’دتے وچوں دیناہے ‘‘ یعنی دیئےہوئے میں سے دینا ہے۔ اللہ رب العزت کے دیئے میں سے دینا باز گشت کی طرح ہے اور یہ ضرب کھا کر واپس دینے والے کی طرف لوٹ آتاہے،اگرچہ دیتے ہوئے دل میں یہی وسوسہ رہتا ہے کہ مال کم ہو جائے گا جب کہ حقیقتاً اس میں اضافہ ہو جاتا ہے، منتخب آیت میں یہی بتایا گیا ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ اسی بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا ذکر ایمانیات کے ساتھ ہی قرآن کے آغاز میں ہی کر دیا گیا ہے۔ پیر صاحب نے دراصل اسی آیت میں دی گئی ہدایت اپنے مرید کو پہنچائی، ہمارا مذہب جہاں ہمیں خیرات اور صدقات کی ترغیب دیتا ہے وہاں ہمیں اس میں بھی میانہ روی کی تلقین کرتا ہے، لہٰذا رزق کی مختلف شکلیں جیسے مال و دولت ، علم کواپنی محنت نہیں بلکہ من جانب اللہ سمجھتے ہوئے ضرورت مندوں پر خرچ کرتے رہنا چاہئے تاکہ آیت میں بیان کردہ ہدایت پر عمل کیا جا سکے۔ ترجمہ( سورہ بقرہ آیت 1-3) اس کتاب ( کے اللہ کی کتاب ہونے ) میں کوئی شک نہیں، پرہیز گاروں کو راہ دکھانے والی ہے۔ جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے (مال) میں سے خرچ کرتے ہیں۔