زندگی ختم کرنے کیلئے معاونت پر موت سے قبل کی دیکھ بھال خراب نہیں ہوگی

March 02, 2024

لندن (پی اے) دارالعوا م کی ہیلتھ اور سوشل کیئر سے متعلق سیلیکٹ کمیٹی کے رکن پارلیمنٹ نے کہا ہے کہ زندگی ختم کرنےکیلئے معاونت پرموت سے قبل کی دیکھ بھال کی صورت حال خراب نہیں ہوگی. انھوں نے کہا کہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ اس سے زیادہ بہتر سپورٹ حاصل ہوگی اور اس کیلئے پہلے سے زیادہ رقم خرچ کی جائے گی لیکن کراس پارٹی نے اس کیلئے انگلینڈ کے قانون میں تبدیلی کے امکانات کو رد نہیں کیا اور کہا کہ وہ یہ بات صرف اس لئے بتانا چاہتے ہیں کہ اس پر بحث کی جاسکے۔ اس حوالے سے کمپین چلانے والے ڈیم Esther Rantzen کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اپنی زندگی ختم کرنے کا طریقہ منتخب کرنے کا حق ہونا چاہئے۔ ارکان پارلیمنٹ کے گروپ کا کہنا ہے کہ انگلینڈ میں محتاج خانوں کو اضافی رقم فراہم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان میں دیکھ بھال کی سہولتیں بہت ناقص ہیں، فی الوقت محتاج خانوں کو این یچ ایس سے اپنی فنڈنگ کا صرف ایک تہائی حصہ ملتا ہے۔ کمیٹی نے امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت ان ممالک کا جائزہ لیا جہاں قریب المرگ افراد کو مرضی سے موت کو گلے لگانے کی اجازت ہے، 1961 میں انگلینڈ اور ویلز میں خودکشی سے متعلق ایکٹ کے تحت کسی کو خودکشی پر اکسانے یا خودکشی میں معاونت کرنے کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا تھا جبکہ اسکاٹ لینڈاور شمالی آئرلینڈ میں مرتے ہوئے لوگوں کو موت کو گلے لگانے کیلئے طبی مدد طلب کرنے سے روک دیا گیا تھا، یہ مسئلہ 83 سالہ براڈکاسٹر Dame Esther Rantzen کے اس اعلان کے بعد ابھر کر سامنے آیا ہے کہ وہ نیوزی لینڈ میں مرنے میں مدد دینے والے کلینک میں داخل ہو رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری فیملیزکو بیماری کے دوران ہمارے کرب کا احساس ستاتا رہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ کینسر کے چوتھے مرحلے کی مریضہ ہیں اور اب اپنی زندگی ختم کرنا چاہتی ہیں اور وہ اپنی فیملی کے بغیر ایسا کریں گے کیونکہ ان کی فیملی ان کی موت کو سازش کا نتیجہ قرار دے سکتے ہیں۔ Dame Esther کا کہنا ہے کہ وہ انگلینڈ میں ہی طبی مدد کے ذریعے مرنا چاہتی تھیں لیکن شاید میں اپنی زندگی میں ایسا ہوتے ہوئے نہ دیکھ سکوں لیکن امید کی جاتی ہے کہ دوسروں کو یہ موقع مل جائے گا۔ مرنے کیلئے طبی امداد فراہم کرنے کلینک Dignitas کا کہنا ہے کہ گزشتہ 8 سال کے دوران 250 سے زیادہ افراد اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے اس کیلنک میں آچکے ہیں۔ کمیٹی نے ڈاکٹروں کے طریقہ کار کے بارے میں مسائل اور کنفیوژن کوبھی اجاگر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بات واضح نہیں ہے کہ وہ موت کو گلے لگانے کیلئے بیرون ملک جانے والوں طبی شواہد فراہم کرسکتے ہیں یا نہیں؟۔ جنرل میڈیکل کونسل کی جانب سے جاری کردہ گائیڈنس میں کہا گیا ہے کہ ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ کے تحت مریضوں کے ریکارڈ تک رسائی کی فراہمی کی اجازت ہے لیکن برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن ڈاکٹروں کو معاونت کے ساتھ خودکشی کے خواہاں افراد کو میڈیکل رپورٹ فراہم کرنے سے منع کرتی ہے۔ سیلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ وہ اس رپورٹ کو ایک مستقل دستاویز بنانا چاہتے ہیں، جو مستقبل میں قانون کے حوالے سے بحث میں شواہد فراہم کرسکے لیکن ان کا کہنا ہے کہ طبی معاونت کے ساتھ خودکشی ایک بہت ہی پیچیدہ مسئلہ ہے، جس کاکمیٹی نے جائزہ لیا ہے۔ برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن اور رائل نرسنگ کالج نے اس مسئلے پر غیر جانبدار رہنے کا اعلان کیا ہے جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے قانون میں کوئی تبدیلی پارلیمنٹ کا کام ہے۔ موت نہیں علاج معالجہ اور دیکھ بھال تحریک کے ڈاکٹر گورڈن مک ڈونلڈ کا کہنا ہے کہ انھیں یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ کمیٹی نے معاونت کے ساتھ موت کے خلاف کوئی تجویز پیش نہیں کرسکی۔