اقبال کے شاہین لندن اردو مرکز میں

April 21, 2024

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
یوں تو اردو کے شیدائی دنیا بھر میں اس زبان سے عقیدت کا اظہار کرتے رہتے ہیں مگر محفل وہاں جمتی ہے جب اردو ادب کی عظیم شخصیات پر مضامین پڑھے جائیں، ان کے ساتھ زیان کی یکجہتی ظاہر کی جائے، ان کے دن منائے جائیں، ان کی شخصیت وفن پر مقالے پڑھے جائیں، مکالمے کئے جائیں۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اقبال کا دن ہو یا غالب کا، فیض کا ہو یا جالب کا اور ان بہت سی نامور شخصیات کے دن نہ منائے جائیں۔ 21اپریل 1938کو اقبال کا یوم وفات ہے، ان کی پیدائش سے لے کر ان کی وفات تک کے دن برصغیر میں خوب منائے جاتے ہیں۔ بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی اقبال کے چاہنے والے موجود ہیں وہ اسی سرزمین کو اقبال کے تصور کی عقیدت سے بقۂ نور بنا دیتے ہیں۔ انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کےلئے ان کی تعمیر ملت و پاکستان کے تمام زاویئے مدنظر رکھے جاتے ہیں جیسے ان کا پاکستان کا تصور پیش کرنا، انہیں شاعر مشرق کہنا، مفکر پاکستان کہنا، حکیم الامت، معروف شاعر کہنا، مصنف کہنا، قانون دان کہنا اور پاکستان کا خواب دیکھنے والا کہنا وغیرہ وغیرہ یہ سب شامل ہے اور اقبال کی عقیدت و احترام کا حصہ ہے کہ ان کی عقیدت میں کمی و کوتاہی ممکن ہی نہیں۔ علامہ اقبال کے حوالے سے تقریبات کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ لندن و دوسرے یورپ و امریکہ تک میں اس کی پذیرائی نہ ہو۔ تو ایسی ہی علامہ کی تقاریب کو توقیر لندن میں بھی بخشی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں لندن کے پاکستان ہائی کمیشن میں اردو مرکز کے تعاون سے ایک شاندار تقریب کا انعقاد ہوا۔ اس تقریب کی فکر ہر سال ڈاکٹر جاوید شیخ کرتے ہیں جو لندن اردو مرکز کے روح رواں ہیں۔ لندن اردو مرکز کی بنیاد افتخار عارف نے رکھی تھی پھر اس کی باقاعدہ تعمیر ڈاکٹر جاوید شیخ نے کی۔ ڈاکٹر جاوید شیخ برطانیہ کی ایک معتبر شخصیت ہیں، جن کی طبیعت کا دھیما پن اور اس پر ادب و آداب کی خصوصیت نے ان کی ہستی کو انفرادیت بخشی ہے۔ ڈاکٹر جاوید شیخ نے برطانیہ بھر میں اردو اور ادبی شخصیات کی جس قدر خدمت کی ہے اور ابھی تک یہ سلسلہ کم و بیش 40سال سے جاری ہے اس لئے ہم انہیں بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ہم سب اپنے اپنے طورپر اردو اور ادبی شخصیات سے لے کر نامور شعراء کرام و دیگر قومی ہیروز کو خراج تحسین بخشتے رہتے ہیں، اس لئے ہم سب اقبال و دیگر شخصیات کے دن بھی یاد رکھنے سے علاوہ فکر بھی رکھتے ہیں کہ یہ سب جاری رہے اور ہم یوں جان لیجئے کہ دیار غیر میں اپنی روایات برقرار رکھیں۔ اپنی روایات برقرار رکھنے میں پاکستان ہائی کمیشن اہم کردار ادا کرتا ہے جہاں کمیونٹی جمع ہوتی ہے۔ لندن اردو مرکز کی اقبال کی تقریب میں زیادہ تر علامہ اقبال کے افکار کو ابھارا گیا۔ ان کی پاکستان کے تصور کی فکر کو بیان کیا گیا۔ جب اقبال کے خودی کے پیغام پر مقررین بات کرتے ہیں تو اس کا مفہوم احساس نفس سے جوڑ کر فلسفے کی طرف لے جاتے ہیں کہ یہ اپنی ہی ذات کا تعین ہے۔ اقبال کے فلسفے کی جب بات ہو تو اس کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں سوال و جواب ہیں کہ انسان کیا ہے اور کائنات کی اصل حقیقت کیا ہے۔ اقبال کے مطابق ’’خودی‘‘ زندگی کا آغاز، درمیان اور انجام سبھی کچھ فرد و ملت کی ترقی و تنزلی، خودی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے۔ اقبال کے نزدیک لا الہ الا اللہ کا اصل راز خودی ہے اور خودی توحید کی محافظ ہے۔
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ
خودی کے اس کلام کو پڑھنے والا جھوم جاتا ہے اگرچہ وہ اس کے فلسفے کو سمجھے یا نہ سمجھے۔ حیات و کائنات کے اسرار و رموز جانے یا نہ جانے۔ پاکستان کے منانے والے دن کی طرح ہمارے راہبران کے دن بھی اسی جذبہ و جوش سے منائے جاتے ہیں کیونکہ ملی جذبہ شامل ہوتا ہے اس لئے۔ ہائی کمیشن میں ہوئے اقبال کے دن میں لوگوں کی خاصی تعداد تھی، اقبال کے شاہین تقاریر میں بڑھ چڑھ اقبال کی خصوصیات پر بولتے رہے۔ دوسرے حصے میں مشاعرہ ہوا جو کسی بھی ملی تقریب کا حصہ ہوا کرتا ہے جس میں دردانہ انصاری نے اقبال کا کلام ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا کلام سنا کر خوب داد وصول کی۔ نظامت جو کسی بھی مشاعرے کی ریت ہوا کرتی ہے، جس کے لئے اچھے لب و لہجے اور ادائیگی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ذمہ داری سہل فراز نے نبھائی۔ اپنے اس کلام کے ساتھ جو خاصا متاثر کن تھا۔
تحریک نسواں میں اکثر ایک سے ایک مرد ملا
جس کی نیلی آنکھیں نکلیں اندر سے وہ زرد ملا
عالم فاضل، زاہد، عابد سب کا لہجہ سرد ملا
تم بھی عاشق بن جاؤ گی جب بھی ہم سا فرد ملا
مشاعرے میں مردوں کے علاوہ خواتین نے بھی متاثر کن کلام سنایا جس میں نجمہ عثمان، رخسانہ رخشی اور عروج آصف شامل تھیں۔ عروج نوجوان نسل کی نمائندہ ہیں بلکہ انہیں نظم کی ملکہ کہا جائے۔ مردوں میں ہمیشہ کی طرح سخن کے بام عروج پر یشب تمنا رہے۔ پھر شہباز خواجہ بھی متاثر کن کلام سناتے رہے۔ یوں اقبال کے تمام شاہین ہائی کمشنر فیصل چوہدری اور ڈاکٹر جاوید شیخ کا شکریہ کرتے گھر کو ہوئے۔