آئیں تلخیاں کم کریں۔۔۔۔

May 23, 2024

فکر فردا … راجہ اکبرداد خان
اگر ارادے درست ہوں اور کسی مقصد پر پہنچنے کے لیے کوششیں بھی بھرپور انداز میں کی جارہی ہوں تو کامابیاں سمیٹی جاسکتی ہیں۔ پاکستان چند برسوں سے جن مشکلات میں پھنسا ہوا ہے، ان کا حل بھی گفت و شنید کے ذریعہ ہی تلاش کیا جاسکتا ہے اور یہ ایک ایسا بیانیہ ہے جس پر سیاسی اشرافیہ ذرائع ابلاغ اور ملک میں موجود دیگر مقتدر حلقے متفق ہیں۔ جب ایک نقطہ پر اتفاق ہے تو کامیابی کیوں نہیں مل رہی۔ گہری تلخیوں کی ابتدا2014کے انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے ہوئی، جس کے بعد عمران خان کا طویل انتخابی دھرنا اور احتجاج تاریخ کا حصہ ہے۔ 2018کے انتخابات کو بھی اپوزیشن دھاندلی زدہ قرار دیتی رہی۔ تاہم وہ ابتدا کے ڈھائی برس کے دوران حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی طرف نہ بڑھ سکی کیونکہ اس دوران مقتدرہ حکومت کی پیٹھ پہ کھڑی تھی، پھر ایک وقت آیا کہ حکومت کے خلاف تحریک زور پکڑ گئی۔ عمران خان حکومت گھر بھیج دی گئی۔ 14اور18کے انتخابات کے اردگرد جو تلخیاں پیدا ہوئیں۔ قومی قیادت نے ان میں کمی لانے کے لیے کچھ بھی نہ کیا۔ بلکہ فتح پا جانے والی جماعتوں نے یہ تاثر دینے کی کوششیں کیں کہ ’’ہم آگئے ہیں اور جائیں گے نہیں‘‘۔2024کے انتخابات میں جس طرح من پسند جماعتوں کو جتوایا گیا۔ اس سے وہ جماعتیں تو جیت گئیں مگر اس الیکشن نے پاکستان کی اکائی اور مرکزیت کو مزید نقصان پہنچاکر اس مقام پر لا کھڑا کردیا ہے جہاں سے واپس متحرک پاکستان کا سفر اگر ناممکن نہیں ہے تو مشکل ضرور ہے۔ ایک مضبوط قوم نے اور متحرک پاکستان کے خواب کی تکمیل کے لیے جماعتی قائدین پہ بے پناہ ذمہ داریاں ڈال رکھی ہیں۔ قومی اسمبلی میں 13مئی کو کی جانے والی مسلم لیگ ن کے وزیر دفاع پاکستان خواجہ محمد آصف کی تو ہر موقع محل کے خلاف اور اچھی اخلاقیات سے بہت دور تھی۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان (مرحوم) پاکستان کے صدر رہے ان کی قیادت میں پاکستان نے اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن کے حملہ میں اپنے آپ کو نقصان سے محفوظ رکھا، ان کے پوتے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان ایم این اے کی قومی اسمبلی میں موجودگی کے دوران مرحوم کی میت کو قبر سے نکال کر لٹکانے والی بات کرنا خواجہ صاحب کی اچھی کارکردگی نہ تھی۔ ایسی تقاریر سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کے بجائے کئی گنا اونچا کردیتی ہیں۔ بظاہر خواجہ آصف حکومتی امور میں شہبازشریف کے بعد دوسرے نمبر پر تسلیم کیے جاتے ہیں یا پھر یہ ہے کہ ’’گڈ کاپ بیڈ کاپ‘‘ کھیلا جارہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو بیانات کے ذریعہ عوام سے دھوکہ بازی بند کردیں۔ اگر پی ٹی آئی قیادت کے بغیر اتحادی جماعتیں ملک چلا سکتی ہیں تو انہیں کب کا اقتدار ٹرانسفر ہوچکا ہے۔ ماسوائے ایک صوبہ کے تمام سیٹ اپ اتحادی قائدین سنبھال چکے ہیں۔ ان حالات میں بھی آج حکومت کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے، تو واضح ہے کہ حکومت کو ملک اہل طریقہ سے چلانے کے لیے عوامی نوعیت کے کئی اہم اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ عوامی اعتماد کے حصول کی خاطر کئی درجن گرفتار لوگوں کو رہا کرنا ہوگا۔ جن لوگوں پر سنگین الزامات ہیں، ان کے لیے تبدیل کرنا مستحسن قدم ہوگا۔ بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے اگر عدلیہ کی طرف سے دی گئی سہو لتیں معاملات کو دو قدم آگے بڑھاتی ہیں تو سیاہی خشک ہونے سے قبل ہی نئے کیسز میں تفتیش شروع ہوجاتی ہے۔ یقین ہے کہ اقتدار میں بیٹھی شخصیات کو آنکھ مچولی کھیل میں کوئی دلچسپی نہیں۔ انہیں صرف ان ہی پالیسیوں میں دلچسپی ہے جو ایک سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم پاکستان ڈائیلاگ ڈلیور کرسکیں۔ ان کوششوں میں اگر عمران خان سے ایک بامقصد ڈائیلاگ کمی ضرورت کو تسلیم کیا جارہا ہے تو اسے جلد شروع کرنے میں پاکستان کا بھلا ہے۔ میں اپنی رائے دہرا رہا ہوں کہ بانی پی ٹی آئی کو ایک ’’عدالتی انتظام‘‘ کے تحت رہا کیا جائے۔ اس طرح وہ اپنی جماعت کو بھی منیج کرسکیں گے، کیونکہ جماعت کا کسی متحد شکل میں موجود رہنا جمہوریت اور ملک کے لیے ضروری ہے۔ تقریباً ایک سال سے پی ٹی آئی قائد کا اپنی جماعت کے لوگوں اور ہمدردگان سے کوئی رابطہ نہیں۔ یہ رابطہ ان کی صحت اور Well Being کے لیے بھی ضروری ہے اور وہ مصالحت کے ایسے حکومتی رویے کو سامنے رکھتے ہوئے حکومتی روابط کا زیادہ بہتر جواب دیں گے، جو پاکستان کے لیے اچھی خبر ہوگی۔