سیاسی پناہ گزینوں کے خلاف نیا قانون

June 15, 2024

روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
پاکستان کی وزارت داخلہ نے ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے جس کے تحت بیرون ممالک جا کر سیاسی پناہ کے لئے اپلائی کرنے والوں کو پاکستانی پاسپورٹ جاری نہیں کیا جائے گا۔ یہ اقدام ملکی دفاع اور سلامتی کے تناظر میں لیا گیا ہے ۔ اس اقدام کی تفصیل بیان کرتے ہوئے وزارت داخلہ نے یہ بھی کہا ہے کہ چونکہ بیرون ممالک جاکر سیاسی پناہ کے لئے درخواست دینے والوں میں اکثریت یہ موقف اختیار کرتی ہےکہ پاکستان میں ان کی جان محفوظ نہیں ہے اور انہیں ڈر ہے کہ انہیں حکومت پاکستان جان سے مار دے گی۔ مجھے یہ ساری خبر جان کر بہت ہنسی بھی آئی کہ یہ اتنی بڑی تنخواہیں لینے والے وزرا اور مفت سرکاری مراعات سے بھری زندگی گزارنے والے اعلیٰ افسران نہ تو قانون بناتے وقت کسی حالات سے آگہی رکھتے ہیں نہ ہی ان ممالک کے سیاسی پناہ کے پروسیجر کو سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جیسے ہی لوگ پاکستان سے باہر خصوصی طور پر یورپ اور کینیڈا وغیرہ جاکر سیاسی پناہ کے لئے اپلائی کرتے ہیں اور ان کے بقول پاکستان کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اس وقت انہیں سیاسی پناہ بھی مل جاتی ہےاور اس ملک کا پاسپورٹ بھی جاری ہو جاتا ہے اور یہ لوگ ایک کی بجائے دو ممالک کی شہریت انجوائے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اس پروسیجر میں داخل ہونے والوں کی نسلیں برباد ہو جاتی ہیں اس سٹیٹس تک پہنچتے پہنچتے ۔ اور جب کوئی شخص سیاسی پناہ کے لئے اپلائی کرتا ہے تو اس کے تمام سفری کاغذات و پاسپورٹ وغیرہ ان کی وزارت داخلہ اور ہوم آفس اپنے قبضے میں لے لیتا ہے اور سیاسی پناہ کے درخواست دہندگان ویسے ہی ہر طرح کی سفر کی سہولت سے محروم کر دیئے جاتے ہیں۔ انہیں اس غیریقینی کی صورتحال میں کتنے برس رہنا پڑتا ہے اسکا شاید حکومت پاکستان کے ان پالیسی سازوں کو علم نہیں۔ اگر وہ اس سٹیٹس کی قانونی جنگ میں رہتے ہیں تو انہیں دس دس سال لگ جاتے ہیں اور بہت سوں کو اس سیاسی پناہ کی درخواست سے دستبردار ہوکر شادی وغیرہ کے پروسیجر میں داخل ہونا پڑتا ہے اور ان کا اگر کوئی صحیح جگہ پر شادی کا ٹانکہ لگ جائے تو سیاسی پناہ تو ویسے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ ایسے میں انہیں پھر پاکستانی پاسپورٹ سے کیونکر محروم رکھا جا سکتا ہے یا پھر وہ لوگ جو ان یورپی ممالک میں پہنچنے کے لئے غیرقانونی طور پر اپنا سفرشروع کردیتے ہیں تو انہیں بھی پھر 20سال تک رہ کے اس بات کا حق ملتا ہے کہ وہ اپنی قیام کی قانونی حیثیت بنانے کا مطالبہ کر سکیں یا دوسرے لفظوں میں اپلائی کر سکیں۔ وہ تو بے چارےبیرون ممالک میں اپنی سٹیلمنٹ کے چکر میں اپنی جوانیاں برباد کر چکے ہوتے ہیں۔ اگر ایسے میں وہ ان ممالک کی حکومتوں کو یہ بتائیں گے کہ انہیں ملک چھوڑنے کےبعد پاکستانی پاسپورٹ کے حصول سے بھی دستبردار کر دیا گیا ہے ۔ اب ان کے پاس ویسے ہی واپسی کے راستے مفقود کر دیئے گئے ہیں تو ان کے سیاسی پناہ کے کیس میں نہ صرف جان پڑ جائے گی بلکہ شاید بہت جلد ان کے حق میں فیصلہ ہو جائے۔ اس لحاظ سے یہ پابندی دراصل حکومت پاکستان کا ان سیاسی پناہ مانگنے والوں کے عین حق میں ہوگا اور وہ جو لوگ پاکستان میں بے روزگاری چھوڑ کے ان ترقی یافتہ ممالک میں قیام کے لئے پہنچے اور جب وہ اس قابل ہونگے کہ اپنے وطن عزیز میں زرمبادلہ بھیج سکیں تو اس پاسپورٹ کی محرومی انہیں اس بات سے روکے گی اور وہ آہستہ آہستہ مکمل طور پر پاکستان سے Disconnect ہو جائیں گے اس لحاظ سے یہ اقدام دراصل حکومت پاکستان نے ان پناہ گزینی کے متلاشی لوگوں کے خلاف کم اور پاکستان کے خلاف زیادہ کیا ہے۔ اگر حکومت پاکستان کوبیرون ممالک پاکستانی پسند نہیں ہیں تو انہیں تمام دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کے پاسپورٹ جاری کرنے کی پابندی عائد کرنی چاہئے فقط سیاسی پناہ کے درخواست دہندگان ہی کیوں اور پھر سیاسی پناہ کے متلاشی تو مجموعی طور پر تارکین وطن کی تعداد میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اس لئے حکومت پاکستان کو اپنے اس کمزور اور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ضابطے پر ازسر نو جائزہ لیکر شرمندگی سے بچنا چاہئے۔