گھونسلہ جلانے والے

May 29, 2024

سعدی شیرازی بھی کیا نادر روزگار ہستی تھے۔ بعد از وفات تربتِ ما در زمیں مجو / در سینہ ہائے مردمِ عارف مزارِ ما۔ آپ سے تو درویش کا کیف و کم پوشیدہ نہیں۔ فارسی کجا، بندہ تو مادری زبان پنجابی ڈھنگ سے نہیں جانتا۔ اردو کی تحصیل میں پچاس برس گزرے۔ اگلے روز سید شاہد بخاری (روز نامہ جنگ کا اداریہ لکھتے ہیں) نے ایک اردو ترکیب کا تلفظ درست کیا تو احساس تشکر سے آنکھ بھر آئی کہ ابھی شفیق اساتذہ موجود ہیں اور سیکھنے کا منطقہ بے کراں ہے۔ انگریزی ادب میں کاغذی سند ضرور پائی لیکن فرنگی زبان کی کیفیات سے نابلد رہا۔ مرحوم ابا جی بڑھاپے کی تنہائی میں اس مٹی کے مادھو کو زبان پہلوی کے لعل و گہر سجھاتے تھے۔ بس اسی سعادت کے طفیل سعدی کا ترجمہ کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ ’مرنے کے بعد میری قبر زمیں پر مت ڈھونڈنا، میرا مزار مردان عارف کے سینوں میں ملے گا‘۔ درویش عارف نہیں، محض سالک ہے۔ یہ شعر مرحوم حیدر تقی کی نسبت سے یاد آیا۔ انہوں نے کئی بار فرمایا کہ ایک کالم اتوار کو بھی لکھ دیا کرو۔ شب شنبہ کی بے اعتدالی کے بعد اتوار کی صبح لکھنا گراں گزرتا تھا۔ اب ارادہ ہے کہ بھائی حیدر کے احترام میں ایک کالم اتوار کو بھی سہی اور قرار داد مقاصد کا موضوع اسی میں نمٹائیں گے۔ معمول کے دنوں میں امروز و فردا کی سوزن کاری کریں گے۔

وطن عزیز اجنبی موسموں سے گزر رہا ہے۔ یوکرائن اور غزہ کی لڑائیوں نے اہل مغرب کی ہمارے ملک میں رہی سہی دلچسپی پر بھی پانی پھیر دیا۔ خدشہ ہے کہ نومبر آتے آتے امریکا، بھارت، یورپی یونین، برطانیہ، برازیل اور جنوبی افریقہ میں انتخابات کے نتائج قفقاز روس کے ولادیمیر پوٹن اور مملکت چین کے ژی صاحب کے ارادوں سے آمیختہ ہو کر عالمی منظر ہی بدل ڈالیں گے۔ ادھر عمر ایوب صاحب ہمیں دسمبر 1971 کی چنوتی دے رہے ہیں۔ بھول جاتے ہیں کہ ایوب خان نے 1962 میں وزیر قانون جسٹس منیر کو علیحدگی کی تجویز دے کر مشرقی پاکستان بھیجا تھا۔ جسٹس منیر From Jinnah to Zia کے صفحہ 93 پر لکھتے ہیں کہ ’میں نے مشرقی پاکستان کے صوبائی وزیر رمیض الدین سے یہ موضوع چھیڑا‘۔ بنگالی سیاست دان کا جواب دو ٹوک تھا۔ ’ہم اکثریتی صوبہ ہیں۔ اگر علیحدہ ہی ہونا ہے تو اقلیتی صوبہ مغربی پاکستان الگ ہو۔ اصل پاکستان تو ہم ہیں‘۔ محترم الطاف حسن قریشی کی کتاب ’ملاقاتیں کیا کیا‘ کے صفحہ 135 پر شیخ مجیب الرحمن کہتے ہیں کہ ’مشرقی پاکستان کو علیحدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ ہماری آبادی 56 فیصد ہے۔ مغربی پاکستان علیحدگی کا تصور کر سکتا ہے مگر ہم بالکل نہیں کر سکتے‘۔ تو بھائی، پاکستان دولخت کرنے کی بات عمر ایوب کے دادا ایوب خان نے شروع کی تھی۔ یحییٰ خان نے اپنی صدارت بچانے کے لیے 300 کی اسمبلی میں 160 سیٹیں جیتنے والی عوامی لیگ کو اقتدار نہیں سونپا اور ملک توڑ دیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی یادداشت موقع شناس ہے۔ اسے حمود الرحمن کمیشن یاد آگیا۔ 2013 کے چار حلقے اور 35 پنکچر بھول گئے۔ 2018 میں اپوزیشن کے ہاتھ باندھ کر تحریک انصاف کو الیکشن جتوانا اور پھر سرکاری یونیفارم پہن کر آیات قرآنی کے ٹویٹ کرنے والا بھول گیا۔ یہ یاد نہیں کہ ون پیج کی حکومت پر کون بغلیں بجاتا تھا۔ اب تو وقت گزر گیا، اب بتا دیں کہ ون پیج سے کیا مراد تھی؟ حزب اختلاف تو پارلیمنٹ میں تعاون کی پیشکش کے باوجود جیلیں بھگت رہی تھی۔ آج ’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ کا اشقلہ چھوڑنے والوں کو یاد نہیں کہ 3 اپریل 2022 کو آئین کی شق 95 کے مطابق پیش کردہ تحریک عدم اعتماد مسترد کر کے قومی اسمبلی کس نے توڑی تھی۔ 10 اپریل 2022 کی رات کس مدبر نے صحافی اعزاز سید کو گالی دی تھی۔ بھٹو صاحب نے 28 اپریل 1977کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کہا تھا کہ ہاتھی ان سے دشمنی کر رہا ہے۔ بھٹو صاحب جانتے تھے کہ جانوروں میں ہاتھی کی یادداشت طویل ترین اور مکھی کی یادداشت مختصر ترین ہوتی ہے۔ غالباً انہیں استحضارنہیں ہوا کہ ریاستی نرسری میں بسیرا کرنے والے پرندوں کی یادداشت موقع شناس ہوتی ہے۔ حسب منشا ہو تو حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ یاد آجاتی ہے اور حسب حال ہو تو صحافیوں کو چھ ماہ تک مثبت صحافت کرنے کا حکم بھول جاتے ہیں۔ قدوسی صاحب کی 19 بیوائوں کی فہرست جاری ہوئی تھی جن کی ٹیلی ویژن سکرینوں پر رونمائی مقصود تھی۔ قوم کا سیاسی شعور مسخ کرنے یہ دفاعی تجزیہ کار اب کس ودھوا آشرم میں ہیں؟ میلان کنڈیرا نے 1978 میں The Book of Laughter and Forgetting میں ایک بامعنی جملہ لکھا تھا،‘The struggle of man against power is the struggle of memory against forgetting” (اقتدار کے خلاف فرد کی مزاحمت دراصل فراموشی کے خلاف یادداشت کی جدوجہد ہے)۔ اہل پاکستان کے سیاسی شعور کا کرشمہ ہے کہ انہوں نے پون صدی میں قوم کے خلاف ریاست کے کسی جرم کو فراموش نہیں کیا۔ بھلے ون یونٹ بنا کر وفاق کی بنیادیں کھودنا ہو، مشرقی بنگال کو سنگین کی نوک پر پاکستان کے نقشے سے منفک کرنا ہو، فرقے اور زبان کی بنیاد پر متشدد تنظیمیں کھڑی کرنا ہویا اہل پاکستان کو فیصلہ سازی سے محروم کر کے غریب کرنا ہو، پاکستان کے عوام ہر معرکے میں ہارے لیکن یادداشت کا جھنڈا گرنے نہیں دیا۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ جس روز ’اچھے اور برے طالبان‘ کی تفریق کیے بغیر اخبار میں دہشت گردوں کے لیے ’واصل جہنم‘ کی سرخی جمائی گئی، اسی روز سرگودھا میں مسیحی اقلیت کے گھونسلے جلائے گئے۔ ہم نے شانتی نگر سے سانگلہ ہل اور جوزف کالونی سے جڑانوالہ تک قوم کے خلاف کسی ریاستی جرم یا غفلت کو فراموش نہیں کیا اور وہ دن ضرور دیکھیں گے جب مذہب کے نام پر اشتعال فروشی کرنے والوں کو اسی طرح وطن دشمن قرار دیا جائے گا جیسے حسن خیل اور ٹانک میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مرنے والے ’جہنم واصل‘ ہو رہے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ اگست 2014 میں منتخب وزیر اعظم سے رات گئے استعفیٰ مانگنے کون پہنچا تھا؟ ہماری سرسبز زمینوں پر کنکریٹ کے جنگل کھڑے کر کے ’خود ساختہ انقلابی‘ بننے والے ہماری آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے۔ ہمارے ہم وطنوں کے گھونسلے جلانے والے ہمارے دوست نہیں ہو سکتے۔