کہیں ترقی و طاقت کہیں غُربت و لاچاری.....

December 19, 2018

دنیا کی دس بڑی طاقتیں اور معیشتوں کے حوالے سے عالمی جرائد اور رسائل کی رپورٹس نومبر 2018 ء کے مطابق یہ ممالک زمین کی ترقی کی بلندیوں کے بعد تسخیر کائنات کی جستجو میں مگن ہیں ۔علمی ،سائنسی تحقیق،آزاد معیشت اور جمہوریت کی بدولت ترقی کی بلندیوں پر پہنچے ہیں، دوسری طرف دنیا کے ان غریب ترین ممالک کے بارے میںبھی رپورٹس شائع ہوئی ہیں جو یورپی نوآبادیات ،جہالت ،نسلی ،لسانی اور قبائلی تفریق کی بدولت ،غربت اورپسماندگی کا شکار ہیں ۔

دنیا کی معیشت ہر بار اتار چڑھائو اور مندی بلندی کی طرف رواں دواں رہتی ہے۔سال 2018 میں عالمی بینک، آئی ایم ایف اور آئوٹ لک ڈیٹا بیس کی مدد سے درج ذیل فہرست برائے 2018 کے مطابق دنیا کی دس بڑی معیشتوں اور طاقتوں میں امریکاسرِ فہرست ہے، جب کہ چین دوسرے، جاپان تیسرے، جرمنی چوتھے، برطانیہ پانچویں، بھارت چھٹے، فرانس ساتویں، اٹلی آٹھویں، برازیل نویں اور کینیڈا دسویں نمبر پر ہے۔ ذیل میں 2018ء کی دس بڑی معیشتوں اور طاقتوں کے ساتھ غریب اور پسماندہ ممالک کا بھی تذکرہ نذرِقارئین ہے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکا

ریاست ہائے متحدہ امریکا دنیا کی سپرپاور بڑی معیشت اور جدید سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت ترقی یافتہ ملک ہے۔ اس کی سالانہ آمدنی بیس ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے ،جب کہ فی کس آمدنی اٹھارہ ہزار ڈالر سے زائد اور آبادی بتیس کروڑ سے زائد ہے، جن میں تمام دنیا کے تارکین وطن بھی شامل ہیں جو گزری صدی سے تاحال روزگار، تعلیم اور کاروبار کے لیے امریکا آتے جاتے یا وہاں سکونت اختیار کرلیتے ہیں۔ امریکا کے زرعی، صنعتی اور تحقیقی شعبے دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ امریکا سب سے بڑی خوبی یہ ہے ،کہ وہاں مستحکم جمہوری اداروں روایات کے علاوہ انفرا اسٹرکچر اور وسیع ترین جدید ٹرانسپورٹ کا نظام موجود ہے۔ امریکا کی باون ریاستوں میں لوکل گورنمنٹ کا نظام جمہوری، مستحکم اور فعال ہے۔ اس کی مستحکم معیشت اور طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہاںتعلیم کا اوسط ننانوے فی صد کے لگ بھگ ہے۔ دنیا کی جدید جامعات، اعلیٰ تعلیمی ادارے اور تحقیقی مراکز سب سے زیادہ ہیں۔ تعلیم اور صحت عامہ پر بڑی رقومات خرچ کی جاتی ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک کے اعلیٰ دماغ، استاد اور سائنس داں امریکا میں کام کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں، کیوں کہ اس ملک میں ذہانت، اہلیت اور محنت کی قدر کی جاتی ہے۔تیرہ لاکھ لڑاکا اور آٹھ لاکھ تربیت یافتہ رضاکاروں سمیت جدید ترین وسیع بحری بیڑہ اور طیارے رکھتا ہے اس کے علاوہ جدید حساس ہتھیاروں کی تیاری بھی کررہا ہے۔

عوامی جمہوریہ چین

چین آبادی کے حوالے سے دنیا کاسب سے بڑا ملک ہے ، ارب چالیس کروڑ کے لگ بھگ آبادی ہے۔ مجموعی آمدنی بیس ٹریلین سے زیادہ ، جب کہ فی کس آمدنی 18ہزار ڈالر ہے۔ چین قوم پرستی اور کنفیوشن کے قدیم روایات کا بڑا پاسدار ہے۔ چین سوشلسٹ پارٹی دنیا کی سب سے بڑی اور منظم جماعت ہے جس کی حکمرانی ہے۔ چین کے عوام انتہائی جفاکش اور محنتی ہوتے ہیں۔ چین نے ستر کی دہائی میں نئی کروٹ لی اور رفتہ رفتہ ترقی کی انتہائی بلندیوں کو چھونے لگا۔ چین دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں اپنی مصنوعات فروخت کرتا ہے۔ دنیا کی زیادہ تر منڈیاں چینی مصنوعات سے بھری نظر آتی ہیں۔ اس کا نیا وژن ایک روڈ ایک روٹ کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے اور تاحال ساٹھ سے زائد ممالک اس میں شریک ہوچکے ہیں۔ چین نے پاکستانی بندرگاہ گوادر میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے اور سی پیک پروگرام جس میں چین پچاس ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کرراہ ہے اس خطے میں ترقی کی اہم علامت ہے جس کے دور تک مثبت اثرات ظاہر ہونگے۔ چین کی افواج دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے جس میں اکیس لاکھ ریگولر فوجی اور دس لاکھ سے زائد تربیت یافتہ رضاکار ہیں۔ بحری اور فضائی قوت میں بھی چین بہت زیادہ طاقتور ہے تمام افواج اور عسکری شعبے جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ چین نے تعلیم، صحت عامہ، انفرااسٹرکچر، ٹرانسپورٹ اور تحقیق کے شعبوں میں بھی نمایاں ترقی کی ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے جائزوں کے مطابق چین مستقبل قریب میں دنیا کی سپرپاور اور سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔

جاپان

بحرالکاہل کے گہرے پانیوں میں ابھرتے سورج کی سرزمین جاپان دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے جس کی مجموعی آمدنی 5.071 ٹریلین ڈالر ہے جبکہ فی کس آمدنی پینتالیس ہزار ڈالر سے زائد ہے۔ جاپانی قدیم تہذیب کا گہوارہ رہا ہے۔جاپان نے بیسویں صدی کے اوائل سے جدید ترقی کی ابتداء کی تھی مگر دو عالمی جنگوں میں جاپان کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا اور بیسوی صدی کے چوتھے عشرے میں امریکہ کے دو ایٹمی حملوں کا نشانہ بھی بننا پڑا۔ مگر اتنے بڑے نقصان کے باوجود جاپانی قوم نے محنت، لگن اور اہلیت کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے ترقی اور کامرانی کی بلندیوں کو چھونے کا ریکارڈ قائم کیا۔ جاپانی جامعات اور سائنسی تحقیقی اداروں میں آٹھ لاکھ سے زائد اساتذہ، ماہرین اور محققین کام کررہے ہیں۔ دنیا کی جامعات کی فہرست میں جاپان کا شمار صف اول میں ہوتا ہے۔ جاپان نے خلائی تحقیق اور روبوٹس ٹیکنالوجی میں بھی بہت ترقی کی ہے۔ جاپان کی آبادی بارہ کروڑ ساٹھ لاکھ/ رقبہ پونے چار لاکھ مربع کلومیٹر/ فی کس آمدنی 40ہزار ڈالر ہے۔ جاپان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی پاسداری کواوّلیت دیتےہیں ۔ ملک میں قانون اور انصاف کی بالادستی ہے۔ جاپان اب دفاعی طور پر بھی بہت مستحکم ہوچکا ہے ہر چند کہ امریکی فوجی اڈے ہیں مگر جاپان کی مسلح افواج جدید ترین ہتھیاروں اور تربیت سے لیس ہے۔ جاپان کی ساٹھ سے زائد ممالک سے دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کے معاہدے ہیں پاکستان بھی ان میں سے ایک ہے۔

جرمنی

وفاقی جمہوریہ جرمنی کادنیا کی معیشت کی صف میں چوتھے نمبر پر شمار ہوتا ہے۔ جرمنی کی سالانہ آمدنی سوا چار ٹریلین ڈالر ہے،فی کس آمدنی تریپن ہزار ڈالر،جب کہ آبادی آٹھ کروڑ بتیس لاکھ کے قریب اور رقبہ ساڑھ تین لاکھ مربع کلو میٹر ہے۔ وفاقی جمہوریہ جرمنی یورپی یونین کے اہم ترین ممالک میں نمایاں ہے۔ اس کی معیشت کو سوشل مارکیٹ اکنامی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ملک میں انفرااسٹرکچر مضبوط اور وسیع ہے۔ صنعتی شعبہ بہت وسیع اور جدید ہے۔ جرمنی کی شیئر مارکیٹ دنیا کے حصص بازار میں بہت اہم تصور کی جاتی ہے جو عالمی معیشت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ حکومت نے صنعتی ترقی کے لیے ہر ممکن سہولت فراہم کی ہے۔ ملک میں جمہوریت اظہار رائے کی آزادی اور انسانی حقوق کی روایات اور چلن مستحکم اور عام ہے۔ جرمنی نے تعلیم اور صحت عامہ کے شعبوں کو زیادہ اولیت دی جس کے نتیجے میں جرمن قوم دنیا کی ذہین، باصلاحیت، ترقی پسند اور اعتدال پسند اقوام میں نمایاں ہے۔ عوام کا معیار زندگی جدید اور بلند ہے، تعلیم نناوے فیصد ہے۔ ملک میں قانون کی بالادستی قائم ہے۔

برطانیہ

برطانیہ براعظم یورپ کا اہم ترین ملک اور بڑی طاقت ہے جبکہ عالمی معیشت میں اس کو پانچویں قوت کی معیشت حاصل ہے۔ برطانیہ کی مجموعی سالانہ آمدنی پونے تین ٹریلین ڈالر سے ہے، جب کہ فی سالانہ آمدنی بیالیس ہزار ڈالر ہے۔ آبادی چھ کروڑ ستر لاکھ سے زائد ہے اور رقبہ دو لاکھ بیالیس ہزار مربع کلو میٹر کے قریب ہے۔ جمہوریت کی اوّلین جدوجہد یہیں سے شروع ہوئی اس حوالے سے برطانیہ کو جمہوریت کی ماں کا درجہ حاصل ہے۔ برطانیہ دنیا کی بہترین اور شفاف جمہوری اقدار کا گہوارہ ہے۔ بیسوی صدی کے نصف تک برطانیہ ہی دنیا کی سپرپاور کہلاتا تھا مگر دو عالمی جنگوں کے بعد یہ حیثیت امریکا کو حاصل ہوگئی۔ ان تمام تلخ حقائق اور متنازعہ معاملات کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ انسانی معاشروں کو جدید ترقی، سائنس اور جمہوری روایات سے روشناس کرایا۔یورپی یونین میں رہنے یا علیحدگی اختیار کرنے پر وہاں دو رائے پائی جاتی ہیں۔ تاہم برطانیہ کو یورپی یونین میں رہنا چاہیے۔

بھارت

2018ء میں بھارت دنیا کی چھٹی بڑی معیشت بن کر اُبھرا ہے۔ ملک کی سالانہ آمدنی 2.70 کے لگ بھگ اور فی کس سالانہ آمدنی آٹھ ہزار سے زائد ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ ایک ارب بتیس کروڑ افراد پر مشتمل یہ ملک مختلف زبانوں، علاقوں، مذاہب اور نسلوں میں بٹا ہوا ہے۔ ملک کی آبادی میں 45فیصد درمیانہ طبقہ ہے جبکہ نچلا اوسط طبقہ اور چالیس فیصد کے لگ بھگ افراد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ بھارت کو سالانہ پچھتر ارب ڈالر سے زائد رقم تارکین وطن جو امریکہ، یورپ اور خلیجی ممالک میں کام کرتے ہیں ان سے موصول ہوتا ہے۔ ایک سو چودہ ارب پتی خاندان صنعتی، زرعی، بیمہ کاری اور سرمایہ کاری کے شعبوں پر قابض ہیں۔ تعلیم اور صحت عامہ کے شعبوں پر حکومت خاطر خواہ توجہ دے رہی ہے۔ بھارت ایٹمی قوت ہونے کے باوجود اپنی فوج اور اسلحہ پر 75ارب ڈالر سالانہ خرچ کرتا ہے جس سے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ جاری ہے اور عوام کے بیشتر بنیادی مسائل حل نہیں ہورہے۔

فرانس

فرانس دنیا کی ساتویں بڑی معیشت ہے جس کی سالانہ آمدن 2.92 ٹریلین ڈالر ہے جبکہ فی کس آمدنی 46ہزار ڈالر ہے۔ آبادی چھ کروڑ اسی لاکھ کے قریب اور رقبہ چھ لاکھ چالیس ہزار مربع کلو میٹر ہے۔فرانس کے پانچ سو سے زائد صنعتکار، سرمایہ کار، بینکار اور تجارتی ادارے ملک کی معیشت چلارہے ہیں۔ یہ ادارے بیرون ممالک تین سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکے ہیں۔ یہ دنیا میں سیاحت کا سب سے بڑا مرکز ہے جہاں دنیا کے گوشے گوشے سے سیاح فرانس آتے ہیں۔ فرانس تعلیم، سائنسی تحقیق اور صحت عامہ پر بڑا بجٹ خرچ کرتا ہے۔ جمہوریت مستحکم ہے ۔ فرانس یورپی یونین اور نیٹو ممالک کا اہم رکن ہے اس کی عسکری طاقت بری، بحری، فضائی افواج پر مشتمل جو جدید ترین ہتھیاروں اور اعلیٰ تربیت سے لیس ہے۔ یہ زرعی طور پر بھی خوشحال ملک ہے اور ملک کے بڑے رقبہ پر جدید طریقوں سے کاشت کاری کو فروغ دیا جارہا ہے۔ کیمیکل کی صنعت، کاروں کی صنعت، پارچ بانی اور جدید ہتھیاروں کی صنعت مستحکم ہے۔ دنیا کو ہتھیار فروخت کرنے والا پانچواں اہم ملک ہے۔

اٹلی

اٹلی تاحال دنیا کی آٹھویں بڑی معیشت اور اہم عسکری طاقت شمار ہوتی ہے۔ اس کی سالانہ آمدنی 2.181 ٹریلین ڈالر اور فی کس آمدنی 40ہزار ڈالر کے قریب ہے۔ اٹلی کے صنعتی ادارے الیکٹرونکس کی مصنوعات، قیمتی چھوٹی بڑی کاریں، پرچ بانی، مواصلات کا سامان، تجارتی بحری جہازوں سے ایٹمی ایکٹر تک تیار کرتے ہیں۔ملک کی آبادی ساڑھے کروڑ اور رقبہ تین لاکھ پندرہ مربع کلو میٹر ہے۔ اٹلی خوبصورت تاریخی ملک ہے جو بحیرہ روم کے ساحلوں پر واقع ہے۔ طویل آمریت کے بعد اٹلی بھی جمہوری دور میں داخل ہوگیا۔ اٹلی کا پارلیمانی نظام متناسب نمائندگی کے طریقہ کار پر استوار ہے۔ اس میں تعلیم، صحت عامہ، سائنسی تحقیق کے ادارے مستحکم اور فعال ہیں۔ جدید انفرااسٹرکچر کے ساتھ قدیم عمارات اور کلیسائوں نے اٹلی کو سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بنادیا ہے۔ یہ نیٹو ممالک کا اہم ملک ہے۔ مسلح افواج بری، بحری اور فضائی شعبوں پر استوار جو جدید ترین ہتھیارروں سے لیس ہے۔ اٹلی اپنی افواج پر بڑا بجٹ صرف کرتا ہے۔ عام لوگوں کا معیار زندگی قدرے بلند ہے۔

برازیل

برازیل ہر چند کہ مختلف معاشی اور سیاسی مسائل سے نبردآزما ہے مگر اس کے باوجود 2018 میں اس نے دنیا کی نویں بڑی معیشت کی فہرست میں جگہ بنالی ہے، جس کی سالانہ آمدنی 2ٹریلین ڈالر اور فی کس آمدنی 25ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ آبادی اکیس کروڑ اٹھارہ لاکھ افراد پر مشتمل ہے جبکہ ملک کا رقبہ پچاسی لاکھ مربع کلو میٹر سے زائد ہے۔ معدنی ذخائر ، قیمتی لکڑی، موتی اور پتھر معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا میں برازیل کافی، کوکین اور فٹبال کی بدولت اپنی ایک الگ شہرت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ کیمیکل، موٹر کاروں، زرعی آلات، مشروبات، طیارہ سازی اور جدید ہتھیاروں کی تیاری اور فروخت میں بھی بہت ترقی کرچکا ہے۔ جنوبی امریکا میں سیاحوں کی بڑی تعداد برازیل ضرور آتی ہے۔ایمیزون کے گھنے جنگلوں اور وسیع وادیوں میں کہا جاتا ہے کہ کوکین اور ہیروئن کے بڑے بڑے اسمگلروں کے خفیہ اڈے قائم ہیں جہاں سے ایک اندازے کے مطابق پانچ سے دس ارب ڈالر سالانہ کی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ برازیل کا سب سے بڑا مسئلہ آبادی میں اضافہ اور منشیات کا استعمال ہے۔ حکومت تبدیلی اور ترقی کی جدوجہد کررہی ہے مگر مسائل زیادہ اور آبادی زیادہ ہے۔

کینیڈا

کینیڈا رقبہ کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ آبادی تین کروڑ اٹھاون لاکھ کے قریب ہے۔ کینیڈا نے روس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی دس بڑی معیشتوں کی فہرست میں دسویں نمبر پر اپنی جگہ بنالی ہے۔اس کی سالانہ آمدنی 1.798 ٹریلین ڈالر ہے جبکہ فی کس سالانہ آمدنی کا اوسط پچاس ہزار ڈالر ہے۔ ملک کی سرحد صرف امریکا سے ملتی ہے۔کینیڈا میں جمہوری پارلیمانی نظام رائج ہے مگر برطانیہ کی طرح ملک کی علامتی سربراہ برطانیہ کی ملکہ ایلزبتھ دوئم ہے۔ دوسرے لفظوں میں کینڈا کے عوام ملکہ برطانیہ کو اپنے ملک کی سربراہ تسلیم کرتے ہیں۔ جبکہ وزیراعظم جسٹس ٹروڈو ملک کے آئینی سربراہ ہیں۔ صنعتی طور پر کینیڈا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں پندرہویں نمبر پر ہے مگر دنیا کے مہذب ترین، جمہوری، انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے اولین دس ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ کینیڈا کا معاشرہ امن پسند، اعتدال پسند، قانون کا احترام کرنے والا اور اظہار رائے کو فوقیت دیتا ہے۔ ملک میں تعلیم، صحت عامہ، فلاحی امور اور میونسپل کا نظام قابل تحسین ہے۔ کینیڈا ہر سال تعلیم اور سائنسی تحقیق پر بہت بڑی رقم خرچ کرتا۔ وزیراعظم جسٹن نے دس لاکھ تارکین وطن کو کینیڈا میں پناہ دے کر اپنی انسان دوستی کا ثبوت پیش کیا۔

غریب اور پس ماندہ ممالک

جمہوریہ سینٹرل افریقا

یہ غریب اور پسماندہ ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے جس کی آبادی پچاس لاکھ سے زائد اور یہ ساٹھ لاکھ مربع کلو میٹر پھیلا ہوا ہے۔ فی کس سالانہ آمدنی چھ سو ساٹھ ڈالر ہے۔ ساٹھ کے عشرے میں فرانس سے آزادی کے بعد یہ ملک جمہوری سینٹرل افریقا کہلایا،مگر نوآبادیات دور میں ہونے والی لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے ملک کی معیشت ابتری کا شکاررہی ،جس کی وجہ سے ملک میں قبائلی، نسلی اور لسانی فسادات اور تنازعات کا سلسلہ چلتا رہا۔ اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے اقوام متحدہ نے اپنی امن فوج کے دستے یہاں تعینات کیے اور فسادات پر قابو پانے میں حکومت کی مدد کی۔ اقوام متحدہ اور بڑی غیرسرکاری فلاحی تنظیموں کی مدد سے یہاں اسپتال، اسکول اور کالج قائم کیے گئے۔ اب جمہوریہ سینٹرل افریقا میں خواندگی کی شرح پچاس فیصد ہے بڑی حد تک علاج معالجہ کی سہولتیں بھی میسر ہیں۔

عوامی جمہوریہ کانگو

رقبہ کے لحاظ سے یہ افریقا کا دوسرا دنیا کا گیارہواں ملک ہے۔ آبادی نو کروڑ سے زائد ہے۔ انیسویں صدی میں بیلجیم نے اس پر اپنا پرچم لہرا کر اس خطے کو اپنی نوآبادیات کا حصہ بنالیا۔ نو آباد کاروں نے اس خطے کے تمام قدرتی وسائل پر قبضہ کرکے عوام سے غلاموں کی طرح کام لیا۔ 1960ء میں کانگو کو آزادی نصیب ہوئی، جس میں پیٹرک لوممبا کی پارٹی موومنٹ آف کانگو پارٹی نے اہم کردار ادا کیا۔ پہلے انتخابات میں لوممبا وزیر اعظم منتخب ہوئے مگر ان کے اشتراکی نظریات کی وجہ سے سی آئی اے اور بیلجیم کے حکام نے ہلاک کردیا۔ کانگو ایک بار پھر نوآبادیاتی دور کی طرح لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کا گڑھ بن گیا۔ نسلی فسادات، قبائلی تنازعات، آبادی میں بے تحاشا اضافے نے قدرتی وسائل سے مالا مال ملک کو کنگال بنادیا۔ سالانہ فی کس آمدنی ایک ہزار ڈالر سے کچھ کم ہے۔ کانگو دنیا کے پسماندہ ترین ممالک کی فہرست میں اوپر ہے، ترقی نہ ہونے کے برابر ہے۔

برونڈی

غریب ترین ممالک میں برونڈی نمایاں ہے۔ فی کس سالانہ آمدنی آٹھ سو بیس ڈالر ہے۔ ساٹھ فیصد سے زائد عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ تعلیم کا معیار پست ہے۔ خواندگی کی شرح بتیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔ صحت عامہ اور فلاح و بہبود کے اداروں کا فقدان ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فلاحی تنظیمیں خوراک، دوائیں اور مالی امداد فراہم کررہے ہیں مگر قبائلی تنازعات اور شدت پسندی کا زور کم نہیں ہوا ہے۔ فوجی آمریت اور قبائلی سرداروں کا ٹکرائو ہے۔ غیرمستحکم اور خراب حکمرانی نے عوام کی زندگی مزید اجیرن کر رکھی ہے۔

لائبیریا

جمہوریہ لائبیریا مغربی افریقا میں واقع ہے۔ ملک کی آبادی پچاس لاکھ سے زائد ہے۔ یہاں ربر کی پیداوار بہت ہوتی ہے۔ موسمی تغیرات، جنگلات کی کٹائی اور آلودگی نے زراعت کوشدید نقصان پہنچایا ہے۔ ربر کی پیداوار بہت کم رہ گئی ہے۔ فی کس سالانہ آمدنی نوسو ڈالرہے اور نصف سے زائد آبادی غربت اور پسماندگی کا شکار ہے، دیگر افریقی ممالک کی طرح کرپشن اور نسلی فسادات نے عوام کی زندگی عذاب بنادی ہے۔ اٹھارہویں صدی میں ہزاروں مقامی باشندوں کو امریکی اور پرتگیزی اغوا کرکے غلام بنا کر لے گئے اور انسانی منڈیوں میں فروخت کردیا۔ اس حوالے سے لائبیریا میں بھی نسلی تعصب عام ہے۔ خواندگی کی شرح اڑتالیس فیصد کے قریب ہے۔

جمہوریہ نائجر

جمہوریہ نائجر افریقا کے پسماندہ ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔آبادی تین کروڑ کے لگ بھگ اور فی کس سالانہ آمدنی 1115 ڈالر ہے۔نائجر میں یورینیم کے بڑے ذخائر ہیں مگر نوآبادیاتی دور کے چھوڑے ہوئے منفی اثرات، نسلی تعصب، غربت، ناانصافی اور خانہ جنگی نے عوام کو مزید غبرت اور پسماندگی میں دھکیل دیا ہے۔ ان خطوں میں چین نے سرمایہ کاری کا سلسلہ شروع کیا ہے اور یورینیم برآمد کررہا ہے مگر اس کے باوجود عوام کی پسماندگی اپنی جگہ موجود ہے۔ بے روزگاری، بے امنی، لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رہتا ہے اس پر خشک سالی اور بیماریوں نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ آبادی کا زیادہ انحصار زراعت پر ہے، مگر خشک سالی اور موسمی تغیرات نے بھی منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ نائجر میں اموات کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ خوراک اور علاج معالجہ کی سہولتوں میں شدید کمی کی وجہ سے بچوں کی اموات کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔

ملاوی/ مالی

جمہوریہ ملاوی یا مالی جنوب مشرق افریقا کا چھوٹا ملک ہے ۔آبادی دو کروڑ سے زائد ہے۔ غریب ترین ممالک میں شمارہوتا ہے،آبادی کا بڑا حصہ زراعت سے وابستہ ہے۔ سالانہ فی کس آمدنی گیارہ سو اسی ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ آبادی میں اضافہ، وسائل اور تعلیم کی کمی سماجی پستی کا سبب ہیں۔ خوراک اور صحت عامہ کی سہولتوں کی کمی کی وجہ سے بچوں کی اموات کا اوسط زیادہ ہے۔ ملاوی کی حکومت بیرونی امداد سے تعلیم، صحت عامہ اور انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے کی جدوجہد کررہی ہے۔ملاوی دیگرترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کی طرح مختلف سماجی برائیوں اور کرپشن کا شکار ہے کم سن بچوں کی شادیاں، انسانی اسمگلنگ اور رشوت ستانی عام ہے۔ جرائم کا اوسط بھی زیادہ ہے۔ پچاس فیصد آبادی دیہی علاقوں میں آباد ہے جہاں جدید سہولتوں کا فقدان ہے۔ زرعی پیداوار میں آلو، تمباکو، گنا، کپاس، چائے اور سورگم کی کاشت نمایاں ہیں۔ پرائمری کی تعلیم لازمی اور مفت ہے۔ جس میں اقوام متحدہ اور دیگر فلاحی تنظیمیں امداد دیتی ہیں۔

گنی

براعظم افریقا کے مغربی حصے میں واقع گنی کی آبادی سوا کروڑ سے کچھ زائد افراد پر مشتمل ہے۔ ملک میں خواندگی کی شرح 40فیصد ہے، جبکہ فی کس سالانہ آمدنی 1270 ڈالرکے لگ بھگ ہے۔ گنی باوجود اس کے کہ ایلومینیم پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے اور اس کے پاس قیمتی معدنیات وافر ذخائر میں دریافت ہوچکے ہیں پھر بھی غریب ترین ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر شمار ہوتا ہے۔ غربت، پسماندگی اور کرپشن کی بڑی وجہ یہ ہے کہ، انیسویں صدی میں فرانس نے اس پر قبضہ کرکے اپنی نوآبادیات میں شامل کرلیاتھا، جس کے بعد لوٹ کھسوٹ ظلم و جبر کا بازار گرم ہوا۔ ہزاروں کاشت کاروں کو جبراً اغوا کرکے انہیں انسانی منڈیوں میں فروخت کیا جاتا رہا۔ آج بھی آبادی کی اکثریت زراعت پر گزارا کرتی ہے۔ ملک میں بدامنی، قبائلی تنازعات اور کرپشن کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔

مڈغا سکر

مڈغا سکر کا پہلے نام ملاگاسی تھا بحر ہند میں واقع یہ حسین ترین جزیرہ دنیا کا چوتھا بڑا جزیرہ ہے۔ انیسویں صدی میں فرانس نے اس جزیرہ پر بھی قبضہ کرکے اپنی نوآبادیات میں شامل کرلیا تھا۔ 1960ء میں اس کو آزادی نصیب ہوئی۔ اقوام متحدہ کی فہرست کے مطابق یہ ملک دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میںساتویں نمبر پر ہے۔ آبادی سوا دو کروڑ اور رقبہ چھ لاکھ مربع کلومیٹر کے قریب ہے۔ سالانہ فی کس آمدنی سولہ سو ستر ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ قدرت نے اس جزیرے کو حیاتیات اور نباتیات کا خزانہ بخشا ہے۔ غربت اور پسماندگی کی وجہ سے اکثریت کا گزارا زراعت، ماہی گیری اور جنگلات کی کٹائی پر ہے۔ زرعی پیداوار میں چاول، کافی، پام آئل، سلک اور جانوروں کی افزائش نسل ہے۔ ستر فیصد آبادی غربت اورپسماندگی کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر غیرسرکاری اداروں نے 2004ء میں مالی امداد دے کر مڈغاسکر کی معیشت کو جو صفر ہوچکی تھی پھر سہارا دیا۔ امریکی بزنس کونسل کی امداد سے انفرا اسٹرکچر، صحت عامہ اور تعلیم کے شعبوں کو فروغ کا عمل جاری ہے۔

وفاقی جمہوری عوامی ایتھوپیا

ایتھوپیا کی شمال اور شمالی مغربی سرحد جبوتی،صومالیہ سے سوڈان اور جنوبی سرزمین مغرب سے اور جنوب میں کینیا سے ملتی ہے ۔ آبادی دس کروڑ سے زائد ، جبکہ گیارہ لاکھ سے کچھ زائد مربع کلو میٹر علاقے پر مشتمل ہے۔ معیشت میں بہتری ہونے کے اقدامات کے باوجود ایتھوپیا فی کس سالانہ آمدنی کی فہرست میں نچلے پسماندہ ممالک میں شمار ہورہا ہے۔ آبادی میں اضافے کے اوسط کے لحاظ سے دنیا کے دس ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ اس ملک میں یہودی، عیسائی، اور مسلمان آباد ہیں۔صحت عامہ، تعلیم کے شعبے قدرے بہتر ہیں، تعلیم کا اوسط پچاس فیصد کے لگ بھگ ہے۔سالانہ فی کس آمدنی دوہزارڈالر سے کم ہے۔ قدرتی ذخائر ہونے کے باوجود یہ استحصال کا شکار ملک ہے۔

موزمبیق

براعظم افریقا کا یہ غریب ترین ملک جس کو اٹھارہویں صدی میں موزمبیق کا نام دیا گیا جنوب مشرقی افریقا میں بحر ہند کے ساحلوں پر واقع ہے،اس کا رقبہ آٹھ لاکھ مربع کلومیٹر اور آبادی تین کروڑ پچانوے لاکھ کے قریب ہے۔ 1496میں پرتگیزی جہازوں واسکو ڈی گمانے یہ خطہ دریافت کیاتھا تب سے بیسویں صدی تک یہاں پرتگیزوں کی حکمرانی رہی اور موزمبیق خطے کی دیگر پرتگیزی کالونیوں میں شمار کیا جانے لگا۔ ملک کی فی کس آمدنی1290ڈالر ہے، جبکہ عام شہری ایک سے دوڈالر روزانہ پراپنی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ ہرچند کہ موزمبیق قدرتی وسائل سے مالامال ہے ،مگر ان وسائل کا سارا فائدہ جنوبی افریقا، پرتگال، اسپین اور بیچلم کے ملٹی نیشنل ادارے حاصل کررہے ہیں۔ عوام غربت، پسماندگی، ناخواندگی اور بیماریوں سے نڈھال ہیں۔