یادوں کے دریچے ’’اداکارہ حُسنہ‘‘

June 25, 2019

یہ فلمی صنعت کے سنہرے دور کی بات ہے، جب اس صنعت کے تمام شعبہ جات میں اعلیٰ تعلیم یافتہ، ادبی ذوق کے حامل، تہذیب و تمدن سے آراستہ ہنر مند اور فن کار بڑی تعداد میں کام کرتے تھے، جنہوںنے اپنی فلموں کے ذریعے سماجی اور ثقافتی زندگی پر نہایت گہرے اثرات قائم کیے۔ اس دور کی فلمی شخصیات اب ماضی کی یادیں بن کر رہ گئیں ہیں، لکین اداکارہ حُسنہ کا نام ذہن میں آتے ہی سلور اسکرین کی ان حسین یادوں کے دریچے واہ ہوجاتے ہیں، جب شکل و صورت ، ناز و انداز ، ایک ’’جان بہار‘‘ اداکارہ حسنہ کے نام سے فلمی دنیا میں متعارف ہوئیں۔ جمعہ 30مئی 1958کو ریلیز ہونے والی فلم ’’جانِ بہار‘‘ میںبہ طور چائلڈ اسٹار انہوںنے اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا۔ ہدایت کار شوکت حسین رضوی نے اس بچی کو پہلی بار اپنے ایک دوست آفتاب علی خان کے گھر میںدیکھا، جو اس بچی کے والد تھے۔ یہ خوب صورت بچی جس کا اصل نام نُدرت جہاں تھا، شوکت حسین رضوی نے اسے حُسنہ کا نام دیا اور اپنی فلم ’’جانِ بہار‘‘ میںاداکارہ مسرت نذیر اور اداکار سدھیر کی بیٹی کے کردار میںکاسٹ کرلیا۔ اس فلم کے بعد وہ ہدایت کار جعفر بخاری کی فلم ’’بھروسہ‘‘ اور ہدایت کار ایم اے خان کی فلم ’’سوسائٹی‘‘ میںکم سن بچی کے کرداروں میںآئیں۔ ہدایت کار خلیل قیصر نے جب دیکھا کہ حُسنہ کی عمر اب چائلڈ اسٹار سے بڑھ کر ہیرئوئن کے قابل ہوگئی ہے، تو انہوں نے اپنی فلم ’’ناگن‘‘ میں اسے پہلی بار سائیڈ ہیروئن کا کردار سونپا۔ رتن کمار اور نیلو اس میںلیڈنگز رولز کررہے تھے۔ اس فلم میں اس دور کے مطابق حُسنہ پر ایک بولڈ گانا فلمایا، اس گیت نے ان کی شہرت کو فلم بینوں میں مقبول کیا۔ محبت، ساتھی، خیبر میل، سلطنت، تین پھول، لگن، ایک منزل دو راہیں، اونچے محل، ہزار داستان میںبہ طور سائیڈ ہیروئن نظر آئیں۔ حُسنہ پہلی بار بہ طور ہیروئن پنجابی فلم ’’رانی خان‘‘ میںکاسٹ ہوئیں۔ اداکار اکمل اس فلم کے ہیرو تھے۔ یہ فلم 1960میںریلیز ہوئی۔ ایم جے رانا اس فلم کے ہدایت کار تھے۔ 1961میںہدایت کار خلیل قیصر کی سپر ہٹ فلم ’’عجب خان‘‘ میںوہ اداکار سدھیر کے مقابل ہیروئن کے روپ میںپسند کی گئیں۔

اسی سال انہوںنے اپنی ہوم پروڈکشن کے تحت فلم ھابو بنائی ،جس میں ان کے مدِ مقابل اداکار حبیب نے ہیرو کا کردار کیا تھا۔ اس فلم میں انہوں نے جنگلی دوشیزہ کا کردار خوب صورتی سے نبھایا۔ اس سال ریلیز ہونے والی فلم ’’جادوگر‘‘ میںوہ اداکار کمال کے مقابل ہیروئن آئیں۔ اس فلم کی تکمیل کے دوران کمال اور حُسنہ میںکسی بات پر جھگڑا ہوگیا تھا۔ حُسنہ نے کمال پر اپنے سابقہ خاوند رشید بھٹی کے ذریعے حملہ بھی کروایا تھا۔ حُسنہ کا نام ایک زمانے میںسردار رند اور اداکار محمد علی کے ساتھ بھی بہت مقبول ہوا۔ عجب خان کی کام یابی کے بعد خلیل قیصر نے ان کو اپنی دوسری فلم ’’شہید‘‘ میںروایتی ہیروئن کا کردار سونپا۔ اداکار اعجاز اس فلم کے ہیرو تھے، جب کہ کہانی کی ہیروئن مسرت نذیر تھیں۔ یہ فلم 1962میںریلیز ہوئی۔ اس سال آغا حسینی کی کاسٹیوم فلم ’’زرینہ‘‘ میںوہ ٹائیٹل رول میں آئیں۔ عورت ایک کہانی، تماشا، میں بہ طور ہیروئن کے بعد وہ 1966میںریلیز ہونے والی تاریخی فلم ’’الہلال‘‘ میںاداکار درپن کے مقابل ہیروئن آئیں۔ یہ فلم بے حد کام یاب رہی۔ سرحد، کون کس کا، ماں بہو اور بیٹا، تقدیر، گناہ گار، عورت اور زمانہ، نیلا پربت، پیا ملن کی آس، ہنی مون، جیسی کام یاب اور یاد گار فلموں میں انہیں بہ طور ہیروئن بےحد پسند کیا گیا۔

حسن طارق فلمی صنعت کے ایک جوہر شناس ہدایت کار تھے۔ ان کی جوہر شناس نگاہوں نے حُسنہ کے اندر چُھپی ہوئی ایک کام یاب ویمپ فن کارہ کو بھانپ لیا تھا، تو اپنی فلم ’’مجبور‘‘ میںپہلی بار انہوںنے حُسنہ کو ایک منفی کردار کروایا، جس میںوہ بے حد کام یاب رہیں۔ حسنہ بہ طور ہیروئن زیادہ کام یابی حاصل نہ کرپائیں ، مگر منفی کرداروں میں جو ملکہ انہیںحاصل تھا، وہ بہت ہی کم اداکارائوں کو نصیب ہوتا ہے۔ کرشمہ، سبق، خاموش نگاہیں، آر پار، بانو رانی، آرزو، راجہ جانی، اولاد، ثریا بھوپالی، ضرورت میں ان کے منفی کردار بے حد پسند کیے گئے۔