کراچی کا جغرافیہ

August 22, 2019

Your browser doesnt support HTML5 video.

پاکستان کا سب سے بڑا شہر ’کراچی‘

سید عارف مصطفیٰ

روشنیوں کا شہر کہتے ہی پہلے جو شہر ذہن میں آتا تھا، اسے کراچی کہا جاتا تھا لیکن اب کراچی کا نام سنتے ہی ذہن کی پہلے سے جلتی بتیاں بھی بجھنے لگتی ہیں، پھر اب تو پاکستان میں کئی شہر اور بھی ایسے ہیں کہ جہاں بہت ڈھیر سی بتیاں جلنے لگی ہیں اور یوں ان بتیوں کو دیکھنے کیے لئے کم ہی لوگ کراچی کا رخ کرتے ہیں، ہاں البتہ بیشمار ایمبولینسوں کی گھومتی بتیوں کو شریک مقابلہ کر لیا جائے تو یہ اب بھی سب سے آگے ہے۔ جیسا کہ عرض کیا کہ اب کراچی کا نام آتے ہی ذہن میں کچھ بھی نہیں آتا بس ایک سناٹا سا گونجتا اور اندھیرا سا چھا جاتا ہے۔

کراچی کے سلسلے میں پہلے تو یہ جان رکھیئے کہ اس شہر میں گھومنے پھرنے کے آداب اور قرینے کل عالم سے مختلف ہیں اور اُنہیں سمجھنا بیحد ضروری ہے، مثلاً یہ کہہ دوسرے مہذب شہروں کی طرح یہاں فٹ پاتھ پہ چلنے پہ اصرار مت کیجئے گا کیونکہ فٹ پاتھ نظر ہی نہیں آئے گا۔ ظاہر سی بات ہے کہ اب یہ تو ہونے سے رہا کہ محض آپ کو فٹ پاتھ دکھانے کے لیئے دکاندار کئی گھنٹے لگا کر اپنی دکان کا زیادہ تر سامان وہاں سے اٹھا لے، کہیں کچھ فٹ پا تھ پڑا مل بھی گیا تو وہاں اِتنے فقیر پڑے ملیں گے کہ اگر سب کو دینے میں لگ گئے تو آخر میں خود بھی وہیں بیٹھنے کے قابل ہو جائیں گے۔ گویا اوّل تو چلنے کی جگہ ہی نہیں ملے گی لیکن مل بھی گئی تو کئی پتھاروں کو پامال کر جائیں گے اور نتیجتاً کسی پتھاریدار کے ہاتھوں خود بھی روندے جائیں گے۔ دوسرے یہ بھی پلے باندھ لیجئے کہ چلتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھنے کے بجائے نگاہ نیچی رکھ کر چلئے، یوں کسی کھلے گٹر میں غرقابی سے بھی بچیں گے اور اہلِ تقویٰ میں الگ گنے جائیں گے، اگر کسی سے کوئی پتا پوچھنا ہو تو برابر کا امکان ہے کہ اپنا پتا بھی کھو بیٹھیں، ویسے یہاں کے زیادہ تر باسیوں سے پتا پوچھنے میں کامیابی بھی معمولی بات نہیں۔

کھانے کے لئے یہاں دھکے اور غم کے علاوہ بھی کافی کچھ ہے

یہ بات جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ کراچی پلازوں کا شہر ہے اور یہاں خلوص اور مروت بھی کنکریٹ کے تلے دبے رہتے ہیں۔ کسی سے بے وجہ یونہی ملنے چلے جائیں تو وہ خوش ہونے کی خود سے کوئی کوشش نہیں کرے گا، بس اندھا دھند سٹپٹا جائے گا کیونکہ یہی ایک کام کرنے میں اِس شہر کے لوگوں کو بڑی مہارت حاصل ہے۔ یہاں مہمان کی آمد پر کئی میزبان گھر سے باہر جانے لگتے ہیں۔ مہمان کے آنے پہ بتیسی دکھانے پھر نئی کراکری دکھانے کو آداب مہمانداری کا لازمی حصہ گردانا جاتا ہے۔ بار بار دستی گھڑی دیکھنا بھی انہی آداب کا حصہ ہے۔ مہمان پھر بھی نہ سمجھے تو شہر میں اچانک حالات کی خرابی کی کسی افواہ کا ذکر بہت مجرب خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن ایسے موقع پہ چہرے پہ تھوڑی سی ہوائیاں نمودار کرنا اور لہجے میں مہمان کی واپسی کے حوالے سے سلامتی سے متعلق تشویش کا مناسب مقدار میں اظہار کرنا، ان تشویشی رسومات کا ناگزیر حصہ ہے اور فوری طور پہ مطلوبہ عملی نتائج مرتب کرتا ہے۔اگر آپ کھانے کا ذوق رکھتے ہیں تو کراچی آپ ہی کے لئے ہے کیونکہ کھانے کے لئے یہاں دھکے اور غم کے علاوہ بھی کافی کچھ ہے۔ جہاں تک ڈکار انگیز کھانے کی بات ہے تو یہاں وہ بھی وافر طور پہ ہر وقت میسر رہتا ہے۔ ایک وقت کے کھانے کے لئے کہیں پچاس روپے بھی زیادہ ہیں تو کہیں پانچ ہزار روپے بھی کم ہیں۔

یہاں کے خاص کھانے متعدد ہیں لیکن کراچی کی خاص ڈش ’’نہاری‘‘ ہے، ہر دوسرے ہوٹل پہ لکھا ملتا ہے ’’دلی کی خاص نہاری‘‘ لیکن انہیں کھا کر جی چاہتا ہے کہ ’’دلی کی عام نہاری‘‘ کو ڈھونڈا جائے۔ کہیں یہ پانی میں نہا رہی ہوتی ہے تو کہیں مرچوں میں، اِس کا لیس عموماً ہوٹل کی سوکھی روٹیوں سے تیار کیا جاتا ہے، یوں یہ واحد ڈش ہے کہ جس میں روٹی اور سالن ایک ہی پلیٹ میں یکجان دستیاب ہوتے ہیں۔ اِس کو کھاتے ہوئے ناک اور منہ سے بہت شوں شوں ہوتا ہے اِس لئے پلیٹ ناک کی سیدھ میں نہیں رکھنی چاہئیے ورنہ نہاری ختم ہوتے بہت دیر لگتی ہے۔ کراچی کے ہوٹلوں کی ایک خاص بات یہاں کی گریبی ہے۔ یہ مزید اضافی سالن کی اس مقدار کو کہتے ہیں جو روٹی ختم کرنے کے لئے مفت میں عند الطلب ملتی ہے اور رش والے ہوٹلوں میں بار بار ملتی ہے، بس۔۔ ۔ ہر بار نئے بیرے سے التماس کرنا پڑتا ہے، لہٰذا اگر تین چار دوست ایک ساتھ ایسے مصروف ہوٹل میں جائیں تو ایک پلیٹ سالن منگوانا ہی کافی رہتی ہے، باقی بھوجن تو نصف درجن گریبیاں ہی سہارلیتی ہیں۔ نہاری ویسے تو اپنے نام کی طرح صبح کھانے کی ڈش ہے لیکن چونکہ بڑے شہروں میں اب ’’صبح‘‘ شام سے ذرا پہلے ہی اترتی ہے، چنانچہ نہاری وقت کی قید سے کب کی آزاد ہو چلی۔ اگر اب کوئی صبح نہاری کھانے کسی ہوٹل میں جائے گا تو کسی خاکروب کے ساتھ فرش پہ بیٹھ کر اِس کا رات کا سالن شیئر کرتا پایا جائے گا۔

کراچی کی دوسری مشہور ڈش یہاں کا حلیم ہے۔ اِس کی خاص بات اِس کا ریشہ ہے، گویا طبعاً بزرگانہ سی ڈش ہے۔ دوکانوں پہ ملنے والی حلیم کا ریشہ اکثر روئی کی ریشہ دوانی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جس کسی کے گھر میں اگر چند پرانے گدے اور لحاف ہیں تو وہ بخوبی اس کاروبار کی ابتداء کر سکتا ہے۔ کراچی میں اسے گلی محلے میں مل جل کر پکانے اور لڑ لڑ کر بانٹنے کی روایت بہت مستحکم ہے۔حلیم عموماً چندے سے پکایا جاتا ہے جو کبھی پورا پڑتے نہیں دیکھا جاتا کیونکہ جادوئی فارمولے کے تحت جو جتنا کم چندہ دیتا ہے، بوقت تقسیم وہی گھرکا سب سے بڑا یعنی نہانے کا پتیلا مانجھ کر اٹھائے حاضر ہو جاتا ہے۔حلیم پکانے کے لئے درکارسامان میں دالیں، گندم، گوشت اور گھی تیل کے علاوہ تاش کی گڈی، لوڈو، میوزک پلیئر اور پان، گٹکے ماوا و میں پوری کی کئی درجن پڑیاں شامل ہیں۔ خواہ دال، گندم گوشت یا گھی تیل کم رہ جائے لیکن باقی دیگر میں کمی نہ ہونے کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

کراچی ایک جہان حیرت ہے۔ بہت لمبا چوڑا شہر ہے۔ اب تک اس کی حدود کا یقینی ومستند تعین صرف اسی سب نہیں ہو سکا ہے کیونکہ جیسے ہی اس کی نپائی مکمل ہو کر نقشہ چھپنے کو جاتا ہے، یہ شہر اس سے کئی میل اور آگے کو سرک جاتا ہے۔ اس قدر طویل ہے کہ ایک سرے سے چلنے والا دوسرے سرے تک پہنچنے سے پہلے کئی بار اپنی منزل بھول بھول جاتا ہے اوربسا اوقات اہلِ خانہ سے فون کر کے مدد لیتا ہے۔ بعضے تو یہ تک کہتے سنے گئے ہیں کہ اِس کے ایک کنارے اور دوسرے کنارے والوں کے سحروافطار کے اوقات یکساں ہونا بہت مشکوک معاملہ ہے اور احتیاطاً دو سے تین منٹ کی تاخیر کر لی جائے تو یہ احتیاط عین قرین تقویٰ ہو گی۔

کراچی کے اکثر علاقے اس جہان حیرت کی صحیح نمائندگی کرتے ہیں، لالو کھیت میں نپ ہی لالو ہے نہ کوئی کھیت، ڈاکخانہ سٹاپ پہ ڈاکخانہ لاپتا ہے۔ نیو کراچی کا مشہور سندھی ہوٹل مرحوم ہوئے عرصہ گزرا اور ناظم آباد پیٹرول پمپ کے پچپن سے ساٹھ سال پرانے اسٹاپ پر پیٹرول پمپ ندارد ہوئے زمانہ بیتا۔ اہل رنچھوڑ لائن جب با افراط کنگلے تھے، تب وہاں اک لکھ پتی ہوٹل ہوا کرتا تھا۔ اب وہاں کنگلے کم اور لکھ پتی زیادہ ہیں، لیکن لکھ پتی ہوٹل غائب ہے۔ اِس کا نام اب بس اسٹاپ کی صورت ہی زندہ ہے لہٰذا اتنے وافر مغالطوں کی موجودگی میں بھی اگر آپ غرباء کو نیاز بانٹنے غریب آباد جا رہے ہیں یا شرفاء سے ملاقات کے لئے شریف آباد کا رخ کیا ہے تو بہتر ہے کہ اپنے ارادے پہ نظر ثانی فرما لیں۔ یہاں کا جوڑیا بازار غلے کی خریداری کا سب سے بڑا مرکز ہے ، جہاں آج بھی انسان اور جانور بار برداری کے لئے برابر سے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ایسی مساوات کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی۔ اِس کے تنگ اور پر پیچ راستوں میں سے گزرتے ہوئے کسی سامان بردار گدھے کو دیکھیں تو آپ اسے اپنے سے زیادہ ہوشیار پائیں گے۔ ایک چور بازار بھی ہے، لیکن یہاں اس کے نام کی وجہ، چوری کی اشیاء کی فروخت کم اور خریدار کے جیب سے مال کی چوری کرنا زیادہ ہے۔ یہاں کے اکثر دکاندار بھی بازار کے نام کی مانند جیّد مشکوک معلوم ہوتے ہیں۔

کراچی کی پاکستان میں زیادہ اہمیت اس کے سمندر کی وجہ سے ہے، یہاں شادی شدہ جوڑوں کے لئے نکاح نامہ ساتھ رکھنا اور بنا شادی شدہ جوڑوں کے لئے بٹوہ ساتھ رکھنا یہاں کے سمندری قوانین کا حصہ ہے۔ عالمی ماہرین یہاں کے سمندری ساحلوں میں بڑھتی ہوئی آلودگی پہ اکثر بہت تشویش کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں، لیکن اس آلودگی کی وجہ محض سی ویو اور ہاکس بے پہ ہونے والی آلودہ سرگرمیاں ہی نہیں ہیں بلکہ شہر کے بہت سے لوگ بھی ماہانہ و سالانہ صرف یہیں آ کر نہانے پہ بضد رہتے ہیں۔

کئی عرصے سے کوئی بھی صنعت اس شہر خراباں میں ترقی کا منہ نہ دیکھ سکی۔ یہاں گھر سے نکلنے والا واپس زندہ گھر پہنچ جائے وہی اس شہر کی سب سے بڑی خاصیت ہے۔