’جوانوں کو پیروں کا استاد کر‘

January 24, 2020

لبنیٰ زہرہ

خوش قسمتی سے پاکستان میں 60فی صد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور پاکستانی نوجوان نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنے ملک کا نام روشن کررہے ہیں۔ہمارے ملک کےنوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری اور طبقاتی تعلیمی نظام ہے۔

بچوں کی اکثریت اسکول نہیں جاتی جبکہ تعلیمی نظام امیر اور غریب کے لیے الگ الگ ہے۔ امیر کے بچوں کے لیے انٹرنیشنل تعلیمی نظام جبکہ غریب کا بچہ سرکاری ا سکول میں پڑھنے پر مجبور ہے اوراس بات سے سب ہی بہ خوبی واقف ہیں کہ ہمارے سرکاری اسکولوں کی کیا حالت زار ہے۔ہمارا معاشرہ بھی طبقات میں تقسیم ہے، جس میں امیر مضبوط اور غریب کا استحصال ہورہا ہے جبکہ عام آدمی کے پاس آگے آنے کے مواقع بھی نہیں ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ غریب یا متوسط طبقے کا نوجوان جب عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تواس کے خواب بکھر جاتے ہیں۔ظاہر ہے مقابلے کی دوڑ میں کمزور بنیاد کی بنا پر وہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔اس کی شخصیت کا خلا اور ناکامی کا خوف اسے معاشرے میں تنہا کر دیتا ہے یا تو وہ ایک اوسط زندگی گزارتا ہے یا پھرسب سے آگے نکلنے کی دوڑ میں منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتا ہے۔

معاشرتی برائیوں کی ایک بڑی وجہ غربت بھی ہے اور جب خواہشات لا محدود ہوجائیں تو یہ نوجوان اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے شارٹ کٹ تلاش کرتے ہیں اور غلط راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ رہنمائی کا فقدان،عدم توجہ اور وسائل کی کمی معاشرے کے ایک کثیر سرمایے کو کھو دیتی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کے بے شمار نوجوان تعلیم کے زیور سے محروم ہیں، لیکن جو تعلیم حاصل کرلیتے ہیں ،عملی زندگی میں انہیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے لیے روزگار اور آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ہوتے۔ ملک کی معاشی صورت حال کے پیش نظر تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل بیشتر نوجوانوں کے پاس باعزت روزگار نہیں ہے، انہیں ملازمتوں کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا ہے جبکہ بیشتر کے پاس ڈگری تو ہے ،لیکن وہ ان اسکلز سے محروم ہیں جو ملازمت کے لیے ضروری ہیں۔

اس کے ساتھ طلبہ کو ہنر مند بنایا جائے تاکہ وہ اپنا روزگار بہتر طریقے سے کما سکیں۔ نوجوانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں کیونکہ جب انہیں باعزت روزگار ملے گا، ان کا معیار زندگی بہتر ہوگا تو کرپشن و دیگر برائیوں کا خود بخود خاتمہ ہوجائے گا۔

نوجوان نسل کے مسائل کی بڑی وجہ ان کی کردار سازی میں کمی کا ہونا ہے، اس لیےوہ بے راہ روی کا شکارہوجاتے ہیں ، انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ آگے کیا کرنا ہے۔ان کو بے راہ روی سے بچانے کے لیےان کی کردار سازی پر زور دینا چاہیے کیونکہ جب انہیں اچھے برے کی تمیز ہوگی تو ملک کے بیشتر مسائل حل ہو جائیں گے، اس ضمن میں تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کی کردار سازی کے لیے خصوصی لیکچرز ہونے چاہئیں۔

وسائل سے محروم ہمارے ملک کے بیشتر نوجوان سمت متعین کیے بغیر ہی آگے بڑھتے ہیں اور گوناگوں مسائل سے دوچار ہوجاتے ہیں۔نہ ان کی تعلیمی ضروریات پوری ہوتی ہیں اور نہ ہی ان کی تربیت درست سمت میں ہوتی ہے۔ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ ماؤں کی کونسلنگ بھی ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنے بچوں کو جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق، اچھے برے کی تمیز کے ساتھ، چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے کے قابل بنا سکیں۔

نوجوانوں میں جوش، جذبہ اور انرجی زیادہ ہوتی ہے، وہ کچھ بھی کر دکھانے کی لگن رکھتے ہیں اور نئے نئے تجربات کرتے ہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ اس بڑھتی ہوئی نوجوان نسل کومنفی سرگرمیوں سے بچانے کے لیے عملی طور پر ٹھوس اور ہنگامی اقدامات کرے، جن کے اثرات دیر پا ہوں اور اس سے ملکی تعمیر و ترقی میں فائدہ اٹھایا جاسکے۔

ترقی یافتہ ممالک کی مثال لی جائے تو وہاں ہر سیکٹر میں نوجوانوں کو نمائندگی حاصل ہے اور ان کے لئے پالیسیاں بنائی ہیں، لیکن ہمارے ہاں صورتحال کچھ مختلف ہے، سب سے زیادہ اہمیت کی حامل یہ بات ہے کہ نوجوان نسل کو آگے بڑھنے کے لئے راستےمہیا کیے جائیں۔

نوجوانوں کو مستقبل کا معمار گردانا جاتا ہے۔ ہمارے نوجوان صحیح معنوں میں ستاروں پر کمند ڈال رہے ہیں، اُن کے عزائم بلند ہیں، وہ شبانہ روز محنت کے ذریعے ناممکن کو ممکن بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ گھر سے بہتر تربیت،مضبوطتعلیمی نظام اورحکومتی سطح پر اُن کی صحیح معنوں میں سرپرستی کو یقینی بنایا جائے، کیوں کہ وسائل کی کمی ہمارے بیش بہا ٹیلنٹ کے زیاں کی وجہ بنتی ہے۔

کتنے ہی نوجوان محض وسائل کی عدم دستیابی اور سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے باعث گم نامی کے اندھیروں میں زندگی گزار رہے ہیں،جبکہ زمانہ بدل چکا ہے،آگے بڑھنے کےنت نئے راستے ہیں،لیکن وسائل محدود ہیں۔

نوجوانوں کو چاہیے کہ اپنے وژن کے راستے میں آنے والی رکاوٹیں اور آسانیاں بھی مدنظر رکھیں۔ اس طرح مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے میں آسانی رہے گی۔راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو نہایت سمجھداری اور حوصلےکے ساتھ عبور کرنا چاہیے۔اس ضمن میں حکومت کو نوجوانوں کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ہمارے نوجوان کے لیے کئی برس قبل شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے کہا تھا،

زمانے کے انداز بدلے گئے

نیا راگ ہے ساز بدلے گئے

خرد کو غلامی سے آزاد کر

جوانوں کو پیروں کا استاد کر