کراچی کی طوفانی بسیں

March 19, 2020

اصغر خانپوری

ملک بھر کے بے روزگاروںکےلئے روزی روٹی تلاش کرنے کا بڑا مرکز کراچی ہی ہے، گلگت سے لے کر کوئٹہ اور اندرون پنجاب، سندھ خیبر پختونخواہ، ٹرائبل ایریاز اور کئی دوسرے ممالک سے لوگ کمانے کی غرض سے آتے ہیں ۔ یہاں دیگر شہروں کی نسبت سستی روٹی، سستی رہائش اور سستی سواری لوگوں کو آسانی سے میسر آ جاتی ہے، پاکستان میں اگر مڈل کلاس بھی کہیں ملتی ہے تو وہ کراچی ہی ہے ورنہ پاکستان کے دیگر بڑے شہروں لاہور، اسلام آباد میں امیر اور غریب طبقات ہی زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔

رفتار ایسی جیسے اڑان بھرنے سے پہلے رن وے پر اچانک جہاز دوڑتا ہے

میرے جیسے چھوٹے شہروں سے تعلق رکھنے والوں کو بھی رزق کی تلاش میں کسی بڑے شہر کا انتخاب کرنا مجبوری ہوتا ہے، لاہور میں چند سال گزارنے کے بعد کراچی کا رخ کیا، نوکری ملنے کے بعد دفتر جانے کا سلسلہ شروع ہوا، چند دن تو اوبر کریم نے سہارا دیا پھر یہ سہارا ذرا مہنگا لگنے لگا، دوست سے مشورہ کیا تو اس نے سستی سواری کا نسخہ بتایا، جس سے ہم سو روپے روزانہ خرچ کر کہ آسانی سے آمد و رفت کا سلسلہ جاری رکھ سکتے تھے۔

اس کی فراہم کی گئی معلومات کے مطابق اگلے روز ہی بس اسٹاپ پر پہنچ گئے اور مطلوبہ نمبر کی بس کا انتظار کرنے لگے، تھوڑی دیر میں پارلر سے تیار ہونے والی دلہن کی طرح سجی سنوری بس قریب آن پہنچی، اسٹاپ پر کھڑے لوگ ایسے بھاگ کر دروازے تک پہنچے جیسے اندر مفت کی بریانی مل رہی ہو، ہم بھی خراماں خراماں چلتے ہوئے سوار ہوئے، دروازے سے گزرتے ہی کنڈکٹر نے ہمیں ہاتھ کا دباؤ دیتے ہوئے اندر دھکیل دیا، اب یہ دھکے سے تھواڑا کم تھا تو ہم فیصلہ نہیں کر پائے کہ اس صاحب سے الجھیں یا نظر انداز کریں، خیر نظر انداز کرنے کا حتمی فیصلہ کرتے ہوئے ہم نے ذہن میں سوچا کہ سیٹ پر بیٹھنا الجھنے سے زیادہ بہتر ہے، اسی نیت سے جب کنڈکٹر کو گھورنا چھوڑ کر اندر کی جانب نظر دوڑائی تو نظر زیادہ دور تک نا جا سکی کیونکہ میرے بالکل سامنے ہی مہندی اور تیل میں ڈوبے بالوں والے ایک صاحب کھڑے تھے، آنکھوں کا کینوس بڑھاتے ساتھ ہی اندر کا ماحول واضح ہوتا گیا، سیٹیں بالکل بھی خالی نہیں تھیں، ایک بندے والی سیٹ کو درمیان سے کاٹ کر انھوں نے دو دو لوگوں کو بٹھا رکھا تھا، اور سیٹوں پر براجمان افراد سے دوگنی تعداد میں لوگ لوہے کے راڈ کو پکڑے لائن میں لگے ہوئے تھے۔

کبھی آپ نے بکرا عید کے موقع پر لاہور یا کراچی میں ٹرکوں میں بھر بھر جانور جاتے دیکھے ہوں جو پیچھے منہ کر کہ جگالی کر رہے ہوتے ہیں بالکل وہی منظر دیکھنے کو ملا، سوار ہونے کے لیے یہ بس صرف خواتین کےلئے رکتی ہے یا پھر جب سواریاں کم ہوں تو کسی اسٹاپ پہ بھی رک جاتی اور ایسے رکتی ، جیسے اس نے کہیں نہیں جانا، ابھی میں پوری طرح بس سوار ہو جانے کو قبول بھی نہ کر پایا تھا کہ بس نے اچانک دوڑ لگا دی اور رفتار ایسی جیسے اڑان بھرنے سے پہلے رن وے پر اچانک جہاز دوڑتا ہے، پہلی بارتو میرا دل ہی دہل گیا تھا، خیر تھوڑی دیر میں ہی کنڈکٹر صاحب کرایہ لینے پہنچ گئے، لیاقت آباد سے صدر تک کا کرایہ بیس روپے تھا ،بس یہی ایک اچھی چیز تھی، جس نے مجھے خوشی اور حوصلہ دیا کہ میں روزانہ اسی طوفانی بس کے ذریعے گھر سے آفس تک سفر کروں، کرایہ لینے کے بعد تھوڑی دیر بعد کنڈکٹر بھائی پھر تقاضہ کرنے پہنچ گئے، میں ذرا پڑھے لکھے لوگوں کی طرح نرم مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولا جناب میں دے چکا ہوں، وہ فوری میری بات پہ بھروسہ کرتے ہوئے بولا اچھا تھوڑا آگے ہو جائیں، پھر یہ تھوڑا آگے ہو جائیں والی ذمہ داری وہ ہر تھوڑی دیر بعد سرانجام دیتا رہا۔

طوفانی بس میں ہمارے معاشرے کے بہت سے اخلاقی بہتری کے مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ،جہاں بزرگوں کو کھڑے دیکھ کر نوجوان اپنی نشستیں چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ آج کل بسوں پر یہ لکھا نہیں ملتا کہ بزرگوں کا احترام کریں ، زنانہ نشستوں کی طرف تو ڈرائیور یا بس مالکان کےچھچھورے بچوں نے اپنے موبائل نمبر لکھ رکھے ہوتے ہیں۔

طوفانی بس پہ مستقل سفر کرنے والے حضرات باآسانی اسٹنٹ مین بن سکتے ہیں اور ہالی ووڈ کے اسپائڈر مین ، تھور سے زیادہ مشہور ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ تو مستقل پریکٹس میں رہتے ہیں۔

میں نے چھوٹی کے بجائے ذرا بڑے سائز والی بس میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا، دراصل میں نے اس کا قد کاٹھ دیکھ کر سوچا یہ عمر میں بڑی لگتی ہے تو ذرا مہذب ہو گی، لیکن اس نے اڑان بھرتے ہی میری غلط فہمی کو فوری دور کر دیا، البتہ اس میں بیٹھنے کیلئے نشستیں باآسانی میسر تھیں بس تھوڑا آڑھا ٹیڑھا ہو کہ بیٹھنا پڑتا ہے کیونکہ شاید جب سے کراچی میں میٹرو بس پراجیکٹ کا اعلان ہوا بس مالکان نے سیٹوں کی مرمت کرانا چھوڑ دی ہے، انہیں لگتا ہے کہ چند مہینوں بعد لوگ میٹرو بس کے جھولے لے رہے ہوں گے۔ کنڈکٹر اپنا کرایا وصولتے ہی زنانہ دروازے پہ جا کھڑا ہوا، وہاں شاید کوئی ہیٹر وغیرہ لگا ہو گا کیونکہ وہ فراغت پاتے ہی وہیں اسی دروازے میں جا ٹہرتا اور میں بیچارہ موٹی جیکٹ چڑھانے کے باوجود اندر بیٹھا بھی سردی محسوس کر رہا تھا، چند اسٹاپ تک تو سب قابل برداشت تھا پھر ایک دوسری جوان بس نے ہماری بزرگ بس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔

ڈرائیور صاحب تو جیسے اسی انتظار میں بیٹھے تھے، انہوں نے جو مقابلہ شروع کیا تو سواریاں چڑھانے یااتارنے کا عمل انہیں فضول لگنے لگا، ایک بزرگ کو کہیں اترنا تھا تو وہ کتنی دیر دروازہ پیٹتےرہے، لیکن کوئی اثر نہ ہوا خدا خدا کر کہ ایک جگہ ٹریفک جام تھا تو وہ بزرگ اترے، اترتے ہوئے انہیں کوئی مناسب گالی نہ سوجھ پائی تو با آواز بلند بد دعا دے کہ چلے ” اللہ کرے اگلے اسٹاپ ایکسیڈنٹ ہو جائے تمہارا” کچھ لوگ مسکرا دیئے اور کچھ ذرا سہم کہ بیٹھ گئے۔