قہقہوں کی بارش تھم گئی! اطہر شاہ خان ’’جیدی‘‘ چلے گئے

May 12, 2020

رواں برس مئی کا مہینہ فن کاروں کے لیے کئی اُداس خبریں لے کر آیا۔پہلے بالی وڈ کے دو سپر اسٹار عرفان خان اور رِشی کپور دُنیا سے کُوچ کرگئے اور پھر اتوار10مئی کی صبح اُردو دُنیا کے ممتاز مزاحیہ شاعر، کہانی نویس، ڈراما نگار، تھیٹر، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم کے معروف اداکار اطہر شاہ خان ’’جیدی‘‘ بھی لاکھوں مداحوں، چاہنے والوں اور پیار کرنے والوں کو تنہا چھوڑ گئے۔ ان کے انتقال پُر ملال سے ایسا محسوس ہورہا ہے، جیسے قہقہوں کی بارش تھم گئی ہو۔ انہوں نے ساری زندگی صاف ستھرا مزاح پیش کیا۔وہ کئی برس سے شوگر اور گردوں کے مرض میں مبتلا تھے۔ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ان کی طبیعت خراب ہوئی اور سنبھل نہ سکی اور وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

انہوں نے سوگواران میں بیوہ اور چار بیٹے چھوڑے ہیں۔آخری دِنوں میں وہ اپنی مزاحیہ شاعری پر مبنی کتاب کی اشاعت کی تیاریاں کررہے تھے،مگر قدرت کو شاید منظور نہیں تھا۔بیماری کےدوران ہماری ان سے ملاقاتیں رہیں، ہم نے دیکھا کہ وہ بڑی بہادری سے بیماریوں کا مقابلے کررہے تھے۔ ہماری فرمائش پر اپنے دل چسپ مزاحیہ قطعات بھی سُناتے تھے۔ ان کے سانحہ ارتحال سے سنجیدہ اور بامقصد مزاح کا ایک تابناک دور ختم ہوگیا۔ اب ایسے لکھنے والے کہاں نظر آتے ہیں۔ شو بزنس کی رنگ و نور کی دُنیا میں بہت کم فن کار ایسے سامنے آئے ہیں، جنہوں نے فنون کی مختلف اصناف میں کام یابی حاصل کی اور خود کو منوایا۔

ادب اور ثقافت میں یکساں مقبولیت حاصل کرنے والے اطہر شاہ خان جیدی، ہمہ جہت اور ہمہ صفت فن کار کی حیثیت سے ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔ انہوں نے ساری زندگی قلم سے رشتہ استوار رکھا۔ ایسی بہت کم شخصیات سامنے آئی ہیں، جنہوں نے ڈراما نگاری، کردار نگاری اور شاعری میں منفرد شناخت بنائی ہوئی ہو۔ اطہر شاہ خان جیدی نے جب ڈرامے لکھنے شروع کیے ، تو اسکرپٹس کے ڈھیر لگا دیے اور جب مزاحیہ اور سنجیدہ شاعری کا آغاز کیا تو مشاعرے لوٹنے لگے، ہر طرف ان کی دُھوم مچی رہتی تھی۔ پرفارمنگ آرٹ کی بات کی جائے تو انہوں نے فن کی دُنیا میں ’’جیدی‘‘ کا ایسا ناقابل فراموش کردار لکھا اور اُسے ٹی وی اسکرین پر بھی خود پرفارم کر کے اَمر کر دیا۔ ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ کوئی فن کار ایسا کردار ادا کرے کہ وہ اس کے نام کا حصہ بن جائے۔

اطہر شاہ خان نے تھیٹر، ریڈیو، ٹیلی ویژن اورفلموں کے لیے خُوب لکھا اور ساتھ ساتھ اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ بنیادی طور پر وہ ایک زرخیز تخلیق کار ثابت ہوئے ۔ انہوں نے اپنے تعلیمی مراحل مختلف شہروں میں مکمل کیے۔ لاہور سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پشاور سے سیکنڈری تک پڑھا اور پھر کراچی میں اُردو سائنس کالج سے گریجویشن کیا۔ بعد ازاں انہوں نے پنجاب یونی ورسٹی سے صحافت کے شعبے میں ماسٹرز کیا۔

ان کا شمار ٹیلی ویژن کے ابتدائی ڈراما نگاروں اور فن کاروں میں کیا جاتا تھا۔ ان کی سپرہٹ ڈراما سیریلز میں انتظار فرمائیے، ہیلو ہیلو، جانے دو، برگر فیملی، آشیانہ، آپ جناب، جیدی اِن ٹربل، پرابلم ہائوس، ہائے جیدی، کیسے کیسے خواب، بااَدب باملاحظہ ہوشیار اور دیگر ڈرامے شامل ہیں۔ انتظار فرمائیے، وہ سیریل تھی، جس نے اطہر شاہ خان کو ’’جیدی‘‘ بنا کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ انہوں نے درجنوں فلمیں بھی لکھیں۔ ان کی لکھی ہوئی پہلی فلم ’’بازی‘‘ نے باکس آفس پر گولڈن جوبلی منائی۔ 2001ء میں انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا۔

پاکستان ٹیلی ویژن نے جب اپنی سلور جوبلی منائی تو اطہر شاہ خان جیدی کو گولڈ میڈل عطا کیا۔انہوں نے ساری زندگی لکھنے لکھانے میں گزاری۔ ریڈیو اورتھیٹر کے لیے ڈرامے لکھے، پھر ٹیلی ویژن کی جانب آگئے، اس کے لیے ان گنت سیریلز اور درجنوں فلمیں بھی لکھیں۔ ایک اندازے کے مطابق انہوں نے ریڈیو کے لیے750ڈرامے اور ٹی وی کے لیے 300اسکرپٹ لکھے۔ تھیٹر کے لیے ون ایکٹ اور تھری ایکٹ سب ملا کر 22 اوریجنل ڈرامے لکھے۔ اُن کی کوشش ہوتی تھی کہ ہمیشہ اپنا لکھیں، کبھی انگریزی ڈراموں کا ترجمہ نہیں کیا اور نہ ہی کبھی اِدھر اُدھر سے آئیڈیاز لیے۔

ہمیشہ اوریجنل اور تخلیقی کام کرنے کی کوشش کی۔ اطہر شاہ خان، یکم جنوری 1943کو رام پور بھارت میں پیدا ہوئے۔ چوتھی جماعت میں پڑھتے تھے، تو والدہ کا انتقال ہوگیا۔ ان کے والد ریلوے میں ملازمت کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا۔ ایسے حالات میں ان کے بڑے بھائی سلیم شاہ خان کو اٹھارہ برس کی عمر میں ملازمت اختیار کرنا پڑی بعد ازاں وہ پی آئی اے میں ملازم ہوگئے۔

جہاں جہاں ان کا تبادلیہ ہوتا تھا، ’’جیدی‘‘ اور سب بہن بھائی ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ ’’جیدی‘‘ کو بچپن سے کتابوں سے عشق تھا۔ انہیں تیسری جماعت میں ان کی والدہ نے ’’بانگ درا‘‘ انعام میں دی تھی۔اطہر شاہ خان جیدی ، صحافت میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ہومیو پیتھی کے سند یافتہ ڈاکٹر بھی بنے۔ سینٹرل ہومیوپیتھک میڈیکل کالج سے ریگولر اسٹوڈنٹ کے طور پر چار برس تک پڑھا۔ ساری زندگی اپنے چاہنے والوں میں خوشیاں تقسیم کرتے رہے،جب وہ ٹیلی ویژن پر جلوہ گر ہوتے تھے تو ہر طرف ہنسی کا ایک طوفان برپا ہوجا تاتھا۔ مشاعروں میں جب ان کی باری آتی تھی تو فضا میں قہقہے گونج اٹھتے تھے۔

اطہر شاہ خان سے’’جیدی‘‘ کیسے بنے!!

اطہر شاہ خان جیدی نے ہمیں اپنے آخری انٹرویو میں بتایا تھا کہ’’ یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب میں نے پاکستان ٹیلی ویژن کراچی سینٹر کے لیے اپنی پہلی ڈراما سیریل ’’انتظار فرمائیے‘‘ لکھی تھی۔ اس میں نہایت احمق قسم کا کردار ’’جیدی‘‘ لکھا۔ کسی وجہ سے یہ سریل شروع نہیں ہوپارہی تھی۔ میں نے معلوم کیا تو بتایا گیا کہ ’’جیدی‘‘ کے کردار کے لیے کسی منجھے ہوئے مزاحیہ اداکار کی تلاش جاری ہے، جیسے ہی کوئی اچھا اداکار مل جائے گا، ہم اس سیریل کی ریکارڈنگ شروع کردیں گے۔ بعد ازاں پی ٹی وی کراچی اسٹیشن کے منیجر نے اس وقت کے ڈائریکٹر پروگرامز اور ممتاز براڈ کاسٹر آغا ناصر کو اس سیریل کی تاخیر کی وجہ بتائی۔

آغا صاحب نے اسٹیشن منیجر کو کہا کہ اطہر شاہ خان کو اس کردار کے لیے راضی کرو کہ وہ یہ کردار خود ادا کریں۔ مجبوراً آغا صاحب کے کہنے پر مجھے یہ کردار ادا کرنا پڑا۔ ’’انتظار فرمائیے‘‘ کا کردار ’’جیدی‘‘ ایسا مقبول ہوا کہ اس نے ڈرامے کے لکھاری اطہر شاہ خان کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ آج دنیا بھر میں جیدی کے اس کردار کی وجہ سے مجھے پہچانا جاتا ہے۔

مجھے ذاتی طور پر جیدی کے بجائے سنجیدہ اور مزاحیہ شاعر اطہر شاہ خان لکھوانا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ جیدی کی مقبولیت کی بنیادی وجہ اپنا مذاق اڑوانا تھا۔ آج کل کے فن کار اپنا مذاق نہیں اڑواتے، اپنا مذاق اڑوانے کے لیے بہت بڑا دل چاہیے۔ میں نے جیدی کے کردار میں اپنا خُوب مذاق اڑوایا، اسی لیے وہ سب کو اچھا لگا۔ زیادہ تر مزاحیہ فن کار دوسروں کا مذاق بنانا پسند کرتے ہیں۔‘‘

ٹیلی ویژن پر لکھنے کا آغاز !!

اطہر شاہ خان جیدی نے ہمیں بتایا کہ ’’یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات کا آغاز کیا تھا۔ 1965ء میں، میں نے ٹیلی ویژن کے لیے ایک سیریز لکھی اور وہ بہت سپرہٹ ثابت ہوئی۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ میں سب سے پہلے مزاحیہ سیریز ’’لاکھوں میں تین‘‘ میں نے لکھی، جس کا اعتراف پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے ایم ڈی آغا ناصر نے اپنی کتاب میں بھی کیا۔ ’’لاکھوں میں تین‘‘ جس کے مرکزی کرداروں میں قوی خان، علی اعجاز اور قمر چوہدری تھے۔

لاکھوں میں تین نہ صرف میری پہلی مزاحیہ سیریز تھی ، بلکہ قوی خان اور علی اعجاز کی زندگی کی بھی پہلی ٹی وی سیریز تھی۔ لاہور سے اس سیریز کے بعد تھیٹر کے لیے بھی مسلسل لکھتا رہا۔ ریڈیو پاکستان لاہور اور پی ٹی وی لاہور اسٹیشن پر ’’جھروکے‘‘ اور ٹپکن ٹولا جیسی کام یاب سیریز کے علاوہ کئی ڈرامے بھی لکھے۔ بعدازاں میری فلموں کی مصروفیت بھی بڑھتی گئی۔ وہ بھی ایک لمبی داستان ہے۔‘‘

جب اطہر شاہ خان نے فلمیں لکھنا شروع کیں!!

وہ بتاتے تھے کہ ’’لاہور کے لوگ بہت اچھے ہیں، جس زمانے میں لاہور گیا، وہ خُوب صورت دور تھا۔ ایک سے بڑھ کر ایک فلمیں بن رہی تھیں۔ میں نے پہلی فلم ’’بازی‘‘ لکھی تو انڈسٹری میں دُھوم مچ گئی۔ اس فلم میں پہلی بار شہنشاہ جذبات محمد علی اور ندیم مدِمقابل کاسٹ ہوئے تھے ۔ اداکارہ نِشو کی بھی یہ پہلی فلم تھی۔ فلم ریلیز ہوئی تو میرے پاس بھی کئی پروڈیوسرز آ گئے۔ انہوں نے مجھ سے اُردو کے ساتھ پنجابی فلمیں لکھنے کی بھی ڈیمانڈ کی۔ میں نے فلم ’’منجھی کتّھے ڈاہواں‘‘ لکھی۔ اس فلم نے باکس آفس پر پلاٹینیم جوبلی منائی۔

اس کے بعد لوگ مجھے پنجابی سمجھنے لگے تھے۔ وہ حیران تھے کہ اتنی اچھی پنجابی فلم کوئی اور کیسے لکھ سکتا ہے۔ اس فلم میں منور ظریف مرحوم کو بہترین اداکار کا ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ میں نے چند فلموں میں اداکاری بھی کی اور پھروہ وقت بھی آیا، جب میں نے فلم ’’آس پاس‘‘ کی ڈائریکشن بھی دی۔ اس فلم میں ندیم، بابرہ شریف اور رانی نے مرکزی کردار ادا کیے تھے اور اس کی شان دار موسیقی نثار بزمی نے دی تھی۔ میری لکھی دیگر فلموں میں ماں بنی دُلہن، گونج اُٹھی شہنائی، جنگو وغیرہ شامل ہیں۔ فلم لکھنا ایک کمرشل کام ہے۔ میں نے ڈیمانڈ پر فلمیں لکھیں۔ فلم کا حقیقت پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مجھے ذاتی طور پر فلمیں لکھنا زیادہ پسند نہیں تھا۔ میری توجہ ٹیلی ویژن اور اَدب پر تھی۔‘‘

جیدی کی ازدواجی زندگی!!

شادی کے بعد میری زندگی بدل گئی تھی۔ میری شادی بھابھی کی چھوٹی بہن سے ہوئی۔ پچھلے دنوں ہم نے اپنی شادی کی50 سالگرہ منائی۔ ساری زندگی بیگم نے میرا بہت خیال رکھا۔ میرے چار بیٹے ہیں، سب بہت ہی فرمانبردار ہیں۔ ایک بیٹی ہوئی تھی۔ صرف سات مہینے بعد اس کا انتقال ہوگیا تھا۔ ساری زندگی بیٹی نہ ہونے کا صدمہ رہا۔

پھر ہم دونوں میاں بیوی نے بہوؤں کو بیٹی سمجھ لیا۔ میری بہوئیں بھی میرا بہت خیال رکھتی ہیں۔ انہوں نے بیٹی کی کمی کو پورا کیا۔ میں نے اپنے چاروں بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا۔ آج وہ مختلف اداروں میں کام کررہے ہیں۔ بیٹا سلمان خان، ندیم خان اور فراز شاہ مجھے بہت عزیز ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو ایسی اولاد عطا کرے۔ میں نے کسی بچے کو بھی لکھنے کی طرف نہیں آنے دیا۔

وہ کہتے تھے کہ مزاح لکھنا آسان نہیں!!

اسکول کے زمانے میں مختصر دورانیے کے کچھ اسٹیج ڈرامے بھی لکھے۔ مزاح کو کوئی نظرانداز نہیں کر سکتا۔ میرے نزدیک مزاح وہ جو ٹھاہ کر کے لگے۔ ویسے ہمارے ملک میں کچھ لوگ مزاح کو ذرا کم تر چیزسمجھتے ہیں، حالاں کہ مزاح لکھنا، سنجیدہ لکھنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ اس وجہ سے میں نے مزاح کے ساتھ ساتھ سنجیدہ ڈرامے اور شاعری پر توجہ دی۔

میرے لکھے ہوئے زیادہ تر سنجیدہ ڈرامے لاہور اسٹیشن سے ٹیلی کاسٹ ہوئے۔ کراچی میں این ٹی ایم کے لیے ایک کام یاب سیریل ’’شیشے کا گھر‘‘ لکھا تھا، جسے بہت پسند کیا گیا تھا۔ اسی طرح پی ٹی وی کے لیے مرزا غالب کے صد سالہ برسی کے موقع پر ایک یادگار سنجیدہ ڈراما تسکیں کو ہم نہ روئیں لکھا۔

مجھے اپنی سنجیدہ شاعری سے ذہنی تسکین ملتی ہے، جب کہ تھیٹر پر اداکاری کرنے میں جو مزہ آتا تھا، وہ کسی میڈیم میں کبھی نہیں آیا۔ تھیٹر پر فن کار کو عمدہ کارکردگی کا اُسی وقت معلوم ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے تھیٹر کو فن کاروں کی بنیادی درس گاہ کا درجہ حاصل ہے۔ میرے ساتھ تھیٹر پر لہری، معین اختر اور دیگر مشہور فن کاروں نے کام کیا۔ اب تو تھیٹر کا بُرا حال کر دیا گیا ہے۔‘‘