آسٹریا کے کلاسیکی ادب کا نمایاں ستون معروف ادیب ’’آرتھر شنزلر‘‘

October 19, 2020

یورپی ملک آسٹریاکے کلاسیکی ادب میں جن ادیبوں نے بے حد شہرت کمائی، ان میں ایک معروف نام’’آرتھر شنزلر‘‘ کا ہے۔ انہوں نے والدین کی خواہش کے احترام میں میڈیسن میں ڈاکٹریٹ کیا، کچھ عرصے تک، آسٹریا کے مقبول شہر’’ویانا‘‘ کے ایک اسپتال میں پریکٹس بھی کی، لیکن پھر شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنا طبی پیشہ ترک کر دیا۔ ان کی تخلیقات نے یورپی ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے ، انہوں نےجرمن زبان میں لکھے گئے آسٹریائی ادب کو عالمی حیثیت دلوائی۔ ’’آرتھر شنزلر‘‘ ویانا میں 15 مئی 1862 کو پیدا ہوئے اور 21 اکتوبر 1931 کو انتقال ہوا۔ روشن خیال ذہن کے مالک تھے۔ اپنے سے کم عمر اور حسین اداکارہ سے شادی کی، ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی۔ زندگی کے آخری دنوں میں اس کی خود کشی کے صدمے کو بھی جھیلا۔

پہلی جنگ عظیم کے بادل یورپی ممالک کے سر پر منڈلا رہے تھے، ایسے میں یہودیوں کے لیے فضا کافی مکدر تھی، لہٰذا آرتھر نے آسٹریا سے راہ فرار اختیار کی۔ زندگی کازیادہ وقت امریکا میںگزارا۔ ان کا شمار مستند آسٹریائی ادبیات میں ہوتا ہے۔ وہ اپنے ہم وطن اور مقبول ترین نفسیات دان’’سگمنڈ فرائڈ ‘‘ سے بھی متاثر تھے، اسی لیے ان کی کہانیوں میں بھی تحلیل نفسی، شعور کی رو، لاشعور کی الجھنیں اور اس طرح کے دیگر افکار بدرجہ اتم موجود تھے۔

انہوں نے ناول، افسانہ نویسی اور اسٹیج کے لیے لکھے گئے کھیلوں کے ذریعے تخلیقی صلاحیتوں کو بھرپور استعمال کیا، لکھنے کے تناظر میں نت نئے تجربات بھی کیے، ادب کی کئی بڑی تحریکوںمیں بھی شامل رہے۔ انیسویں صدی کے آخر میں ویاناکے مشہور کیفے اور ریستورانوں میں مقامی ادیب محفلیں جمایا کرتے تھے، وہاں انہوں نے چائے اور کافی کی پیالیوں میں خوب طوفان برپا کیے۔ 1900 میں ان کا لکھا ہوا پہلا ناولٹ وہ تھا، جس میں’’ شعور کی رو‘‘ والی تکنیک استعمال کرتے ہوئے کہانی بیان کی۔

ناولٹ کی صنف اور اسٹیج کے لیے ون ایکٹ کھیل زیادہ لکھے، ڈائری لکھنے کی عادت بھی تھی، سترہ سال کی عمر سے اپنی یادوں کو بھی سپردِ قلم کر رہے تھے، یادداشتوں پرمبنی سوانح عمری بھی لکھی۔ انہیں مختصر کہانی کہنے پر ملکہ حاصل تھا، یعنی میکرو فکشن کے ماہر تھے،ہرچند کہ انہوں نے دو ناول بھی لکھے، مگر بحیثیت مجموعی، مختصر کہانی اور اسٹیج ڈرامے لکھنے کی طرف توجہ رہی۔ ایڈولف ہٹلر جب برسراقتدار آیا، تو اس نے ان کی تمام کتابوں اور کھیلوں پر پابندی لگا دی۔ جرمنی میں نازیوں کی طرف سے جب یہودی دانشوروں کی کتابوں کو آگ لگائی گئی، تو آئن اسٹائن، کارل مارکس، فرانز کافکا، سگمنڈ فرائڈ،ا سٹیفن زیوگ سمیت ’’آرتھر شنزلر‘‘ کی کتابیں بھی نذرِ آتش ہوئیں۔

آرتھرنے دو طویل ناول لکھنے کے علاوہ پانچ چھ ناولٹ لکھے، جن میں سے ایک ناولٹ پر 1929 میں خاموش جرمن فلم بھی بنی۔ ان کے متعدد ناولٹ ایسے تھے، جن پر فلمیں بنیں۔ درجنوں کھیل لکھے، جن کو اسٹیج پر پیش کیا گیا، جبکہ مختصر کہانیاں ان کے علاوہ ہیں۔ یہاں منتخب کیا گیا ناولٹ ’’تھروم ناولے‘‘ ہے، جس کو انگریزی عنوان کے مطابق’’خواب کہانی‘‘ کہاگیا، انہوں نے یہ ناولٹ 1926میں لکھا تھا۔

اس کی کہانی ایک ڈاکٹر کی جذباتی زندگی کی داستان ہے، جس میں وہ اپنی بیوی کی بے وفائی، بیٹی کی نافرمانی اور اپنی کوتاہیوں کے اذیت میں مبتلا تھا۔ اس ناولٹ پر پہلی بار 1969 میں آسڑیائی ٹیلی وژن نے ٹیلی فلم بنائی جبکہ امریکی فلم ساز نے فیچر فلم بنائی۔اس فلم نے باکس آفس پر ریکارڈ بزنس کیا اور فلمی تاریخ میں آرٹ فلموں کے طور پر بھی شہرت حاصل کی۔ فلم ساز’’اسٹینلے کبرک‘‘ تھا، پہلی مرتبہ جب یہ ناولٹ اس نے پڑھا، تو اس کہانی پر فلم بنانے کا پختہ ارادہ کرلیا، لیکن اس پر عمل درآمد کرنے میں اس کو بیس سے تیس سال لگ گئے۔ ناولٹ پر بننے والی انگریزی فیچر فلم کا نام’’آئیز وائڈ شٹ‘‘ تھا، جس کا تجریدی مفہوم کچھ یوں ہے، یعنی ایک منظر جو بظاہر دکھائی دے رہا ہے، اس سے آنکھیں موند کر کسی اورمنظر کوسوچنے کی کیفیت میں مبتلا ہوا جائے۔

اس فلم کا گینز بک آف ریکارڈ ز میں بھی نام شامل ہے، یہ ایسی فلم ہے، جس کی شوٹنگ 400 دنوں تک جاری رہی۔ امریکا کے شہر نیویارک کا سیٹ لندن کے قریب ایک علاقے میں لگایا گیا۔ اس امریکی فلم سازنے بھی اسکرین پر اس مشکل اور تمثیلی کہانی کو شاندارطورسے پیش کیا،البتہ کچھ بے باک مناظر کی وجہ سے فلم پر تنقید بھی ہوئی،جو شاید کہانی کا تقاضا تھا۔ ہالی ووڈ سے ٹام کروز اور نکول کڈمین سمیت دیگر کئی معروف فنکار اس فلم میں شامل تھے۔