چینی بحران کا ذمہ دار کون؟

October 24, 2020

ملک میں چینی کے بحران سے متعلق مسابقتی کمیشن کی انکوائری رپورٹ اگرچہ شوگر ملز کے گٹھ جوڑ کو چینی کی قلت اور قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار قرار دیتی ہے مگر شوگر ملز مالکان کا موقف ہے کہ وہ تو خود بھی موجودہ حکومت اور وزیراعظم عمران خان کی اشیاء کی نرخ نچلی سطح پر لانے کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں مگر بیوروکریسی نے ان کی گڑکی قلت سمیت مختلف شکایات پر توجہ نہیں دی اور غیرمناسب فیصلوں کے باعث چینی مہنگی ہوئی۔ معیشت کی دگرگوں کیفیت سے دوچار ملک کے غربت اور معاشی مشکلات سے دوچار عوام کی جیبوں سے صرف چینی کی مدمیں 70ارب روپے کی خطیر رقم کامیابی سے اُڑا لی گئی اور ایک فریق (شوگر ملز مالکان) کا کہنا ہے کہ جس مسابقتی کمیشن کو انکوائری کی ذمہ داری سونپی گئی تھی وہ تو زمینی حقائق کو سمجھا ہی نہیں جبکہ عام آدمی کے لئے اپنی زندگی کے شب و روزگزارنا اور جسم و روح کا رشتہ قائم رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق بڑی ملیں گنے کی کرشنگ ملی بھگت سے کرتی رہیں۔ فعال اور غیر فعال ملز 48روپے فی کلوگرام کی قیمت پر چینی تیار کرنے اور 78روپے فی کلو نرخ پر چینی تیار کرنے والے کارخانوں کے درمیان غیر قانونی توازن قائم کیا گیا جس سے دونوں اقسام کے کارخانوں نے فائدہ اٹھایا۔ برآمدی اجازت سے گزشتہ ڈیڑھ برس میں قیمت 18روپے فی کلوگرام بڑھی جس سے شوگر ملوں کے ریونیو میں 140روپے اور قیمتوں میں 38روپے فی کلو اضافہ ہوا، کرشنگ کے فیصلے بڑی ملوں کی ملی بھگت سے ہوتے رہے۔ رپورٹ کی تفصیلات جتنی چشم کشا ہیں اتنا ہی سوالات شدت سے ابھرتے ہیں کہ شوگر ملوں کی اجارہ داری توڑ کر انہیں جائز منافع کی طرف راغب کرنے، کسان کو اس کی محنت کا معاوضہ دلانے اور غریب صارف کےمفاد کا تحفظ کرنے کے لئے حکومت کیا کرسکتی اور کہاں تک جاسکتی ہے؟

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998