آج یوں موج در موج غم تھم گیا

November 16, 2020

٭…فیض احمد فیض…٭

آج یوں موج در موج غم تھم گیا اس طرح غم زدوں کو قرار آ گیا

جیسے خوشبوئے زلف بہار آ گئی جیسے پیغام دیدار یار آ گیا

جس کی دید و طلب وہم سمجھے تھے ہم رو بہ رو پھر سر رہ گزار آ گیا

صبح فردا کو پھر دل ترسنے لگا عمر رفتہ ترا اعتبار آ گیا

رت بدلنے لگی رنگ دل دیکھنا رنگ گلشن سے اب حال کھلتا نہیں

زخم چھلکا کوئی یا کوئی گل کھلا اشک امڈے کہ ابر بہار آ گیا

خون عشاق سے جام بھرنے لگے دل سلگنے لگے داغ جلنے لگے

محفل درد پھر رنگ پر آ گئی پھر شب آرزو پر نکھار آ گیا

سرفروشی کے انداز بدلے گئے دعوت قتل پر مقتل شہر میں

ڈال کر کوئی گردن میں طوق آ گیا لاد کر کوئی کاندھے پہ دار آ گیا

فیضؔ کیا جانیے یار کس آس پر منتظر ہیں کہ لائے گا کوئی خبر

مے کشوں پر ہوا محتسب مہرباں دل فگاروں پہ قاتل کو پیار آ گیا