یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں

February 22, 2021

احمد فراز

یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں

تمام تیری حکایتیں ہیں

یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں

یہ شعر تیری شکایتیں ہیں

میں سب تری نذر کر رہا ہوں

یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں

جو زندگی کے نئے سفر میں

تجھے کسی وقت یاد آئیں

تو ایک اک حرف جی اٹھے گا

پہن کے انفاس کی قبائیں

اداس تنہائیوں کے لمحوں

میں ناچ اٹھیں گی یہ اپسرائیں

مجھے ترے درد کے علاوہ بھی

اور دکھ تھے یہ مانتا ہوں

ہزار غم تھے جو زندگی کی

تلاش میں تھے یہ جانتا ہوں

مجھے خبر تھی کہ تیرے آنچل میں

درد کی ریت چھانتا ہوں

مگر ہر اک بار تجھ کو چھو کر

یہ ریت رنگ حنا بنی ہے

یہ زخم گلزار بن گئے ہیں

یہ آہ سوزاں گھٹا بنی ہے

یہ درد موج صبا ہوا ہے

یہ آگ دل کی صدا بنی ہے

اور اب یہ ساری متاع ہستی

یہ پھول یہ زخم سب ترے ہیں

یہ دکھ کے نوحے یہ سکھ کے نغمے

جو کل مرے تھے وہ اب ترے ہیں

جو تیری قربت تری جدائی

میں کٹ گئے روز و شب ترے ہیں

وہ تیرا شاعر ترا مغنی

وہ جس کی باتیں عجیب سی تھیں

وہ جس کے انداز خسروانہ تھے

اور ادائیں غریب سی تھیں

وہ جس کے جینے کی خواہشیں بھی

خود اس کے اپنے نصیب سی تھیں

نہ پوچھ اس کا کہ وہ دوانہ

بہت دنوں کا اجڑ چکا ہے

وہ کوہ کن تو نہیں تھا لیکن

کڑی چٹانوں سے لڑ چکا ہے

وہ تھک چکا تھا اور اس کا تیشہ

اسی کے سینے میں گڑ چکا ہے