پاکستانی فلموں میں ’’لوری‘‘ کی مقبولیت

February 23, 2021

’’لوری‘‘ بہ ظاہر ایک چار حروف پر مشتمل لفظ، لیکن درحقیقت ماں کے لطیف جذبوں کا ترجمان اس کے دل سے پھوٹنے والا سرور آمیز نغمہ، نوزائیدہ اولاد کے لیے دعائوں ، نیک تمنائوں اور ایثار کی مترنم خواہش کمسن اولاد سے غنایت میں لپٹی ہوئی سُریلی گفتگو کو ہمارے مشرقی سماج میں لوری سے موسوم کیا جاتا ہے۔ دُنیا بھر میں بچوں کو لوریاں سنانے کی روایت بہت پرانی ہے، اگر ’’لوری‘‘ کی ابتدا کو کھوجا جائے۔ تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا آغاز تقریباً (2) ہزار سال قبل عراق میں بابلی تہذیب سے ہوا۔ یہ ’’لوری‘‘ مٹی کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر تحریر کی گئی تھی۔ جو کھدائی کے دوران ماہرین آثار قدیمہ کو ملا۔ اس لوری کا مفہوم ہمارےہاں رائج لوریوں کے مفاہم سے قدر مختلف تھا۔ سو جس میں بچوں کو ڈرا کر اور خوفزہ کر کے سونے کی تنبیہ کی گئی تھی۔ بچوں پر لوری کا مثبت اثر پڑتا ہے۔

یہ نہ صرف ماں اور بچے کے درمیان ایک مضبوط رشتہ قائم کرنے میں مدد کرتا ہے بلکہ بچے کی ذہنی نشوونما کے لیے بھی بہترین ہوتا ہے۔ جب ایک بچہ اپنی ماں کی آواز سُنتا ہے، تو وہ الگ الگ آوازوں کے درمیان فرق کرنا بھی سیکھ جاتا ہے۔ دراصل ماں کی لوری بچے کے دماغ کے کئی حصوں کو ایک ساتھ مشتعل کرتی ہے، جس سے بچے کا دماغ نشوونما پاتا ہے۔ برطانیہ میں جو ’’راک اے ہائے بے بی‘‘ نامی لوری مائیں گنگناتی ہیں۔ اس میں بھی خوف کے کچھ الفاظ ملتے ہیں۔ قدیم موسیقی کے ماہر رچرڈ ڈبرل کہتے ہیں کہ ’’عہد قدیم‘‘ کی لوریوں میں خوف اور ڈر کا عنصر بکثرت پایا جاتا تھا‘‘۔

اس دور کی ایک لوری کا مفہوم کچھ یُوں تھا کہ ’’بچوں بہت شور کر چکے تمہارے شور کی وجہ سے بُری روحیں جاگ اٹھی ہیں۔ اگر تم اب بھی نہ سوئے تویہ بری روحیں تمہیں کھا جائیں گی‘‘۔ ’’زوئی پامر‘‘ جو ایک موسیقار ہیں۔ لندن ہسپتال کی لوریوں پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہسپتال میں مائوں کو لوریاں سکھا رہے ہیں۔ ان مائوں کا تعلق چین ، بھارت، اٹلی، فرانس اور مشرقی یورپ سے ہے۔ ماہر اطفال گواڈرڈ ہیلتھ کا کہنا ہے کہ ماں اور بچے کے درمیان بات چیت اور لوریوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ بچوں میں تال اور ’’لے‘‘ کو سمجھنے کی انوکھی صلاحیت ہوتی ہے۔

بابلی عہد، کینیائی قبائیل یا برطانیہ میں سنائی جانے والی ’’لوری‘‘ کے برعکس برصغیر پاک و ہند میں جو ’’لوری‘‘ بچوں کو سنائی جاتی ہے۔ ان میں چاند تارے، چندا ماما، چاند کا جھولا، چاند کی پریوں‘‘۔ کا ذکر ملتا ہے۔ ایک خوش گوار دلاسہ ایک خوش کُن امید پائی جاتی ہے، ناکہ خوف ، مایوسی اور ڈراوا…ہمارے خطے میں رائج ’’لوری‘‘ کی تعریف کچھ یُوں بیان کی جا سکتی ہے کہ … ایسا کوئی گیت، اشعار، بند یا نغمہ…جو روتے بچوں کو چپ کرنے اور سُلانے کے لیے ان کی مائیں آہستہ آہستہ …دھیمے سُروں میں …گاتی ہیں۔

’’لوری‘‘ برصغیر میں لوک گیتوں کی طرح رائج رہی ہے، جس کی ایک ادبی اور مذہبی حیثیت بھی ہے۔ علاوہ ازیں ہمارے فلمی شعراء نے ’’لوری‘‘ کی صنف پر بکثرت کام کیا۔ مثلاً طفیل ہوشیار پوری نے فلم ’’نوکر‘‘ کے لیے شہرہ آفاق لوری تخلیق کی، جس کے بول تھے۔

’’راج دلارے میری انکھیوں کے تارے…

میں تو واری واری جائوں‘‘

معروف شاعر و دانش ور حمایت علی شاعر نے تو ’’لوری‘‘ کو بنیاد بنا کر اپنی ذاتی فلم کی کہانی تحریر کروائی۔ اور اسے ’’لوری‘‘ ہی کے عنوان سے پردہ سیمیں پر پیش کیا… اس فلم کے لیے موصوف نے بہت دلکش بامعنی اور پراثر لوری بھی تخلیق کی، جس کے بول تھے۔

’’چندا کے ہنڈولے میں… اڑن کھٹولے میں … امی کا دلارا سوئے… ابو جی کا پیارا سوئے…نندیا جھلائے تجھے جھولا…‘‘

اسی طرح فیاض ہاشمی کی تحریر کردہ ’’لوری‘‘ جو فلم ہزار داستان 1965ء کا حصہ بنی۔ اس کے بول تھے۔

’’چین سے سوجا…

راج دلارے…

جاگے ماں کا پیار۔

نامور شاعر مسرور انور نے فلم ’’پھول میرے گلشن کا‘‘ کے لیے جو لوری تخلیق کی اس میں ممتا کے شفیق جذبوں اور جذبہ ایثار کو موثر پیرائے میں بیان کیا گیا۔ اس لوری سے چند اشعار آپ کی نذر…

’’تو ہے پھول میرے گلشن کا

تو ہے چاند میرے آنگن کا

غم نہ کبھی تیرے پاس آئے

عمر میری تجھے لگ جائے

تیرے بدلے میں جیون بھر تیرا

ہر ایک دکھ جھلیوں

اپنی ساری خوشیاں دے کر

تیرے سارے غم لے لوں

خوشیوں میں تو لہرائے

عمر میری تجھے لگ جائۓ‘‘

فلم ’’لخت جگر‘‘ 1956ء کے لیے میڈم نور جہاں کی دل کش گائیکی اور موسیقار جی اے چشتی کی عمدہ کمپوزیشن سے آراستہ ’’لوری‘‘ چندا کی نگری سے آجاری نندیا، تاروں کی نگری سے آجا‘‘۔ اپنے وقت ہی کی نہیں بلکہ عصرِ حاضر میں بھی ذوق و شوق سے سماعت کی جانے والی بہت ہی خوب صورت ’’لوری‘‘ ہے۔

ہدایت کار حسن طارق کی سوشل فلم ’’مجبور‘‘ کے لیے قتیل شفائی کی تخلیق کردہ لوری ’’آجا پیاری نندیا …آجا چوری چوری اپنے پراثر مفہوم، تصدق حسین کی عمدہ کمپوزیشن اور مجیب عالم، آئرین پروین اور مالا کے دل کش آہنگ سے سجی ایک یاد گار لوری تھی، جو فلم میں سنتوش کمار اور شمیم آراء پر پکچرائز ہوئی۔

ہدایت کار نذیر اجمیری کی بامقصد معاشرتی فلم ’’دل کے ٹکڑے‘‘ کے لیے فیاض ہاشمی نے ایک لوری تخلیق کی، جس کے بول تھے ’’میں صدقے میں واری میری جان‘‘ جسے مالا بیگم نے رچائو سے گایا اور صفدر حسین نے اس کی دُھن مرتب کی تھی۔ یہ لوری شمیم آرا پر فلمائی گئی۔

ساٹھ کی دہائی میں ریلیز ہونے والی فلم عشقِ حبیب میں بھی نامور گائیک مہدی حسن خان کی آواز میں ایک نہایت خُوب صورت’’ لوری‘‘ شامل تھی، جس کے دل میں اتر جانے والے بول تھے،نندیا آ نندیا آ،آ کر ننھی کی آنکھوں میں میٹھے میٹھے خواب سجا۔واضح رہےنامور قوال غلام فرید صابری اور مقبول فرید صابری کی شہرہ آفاق قوالی’’میرا کوئی نہیں ہےتیرا سوا‘‘ بھی اسی فلم میں شامل تھی۔ چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کی فلم ’’’ احسان‘‘ احمدشدی اور آئرن پروین کی آوازوں میں ایک دل کش ’’لوری‘‘ یہ دو انکھیاں یہ دو سکھیاں نندیا تیری راہ تکیں۔

اقبال شہزاد کی کام یاب فلم ’’بدنام‘‘کی لوری ’’آتجھ کو سنائوں لوری‘‘ بھی اپنے وقت کا ایک مقبول گیت کا درج رکھتی ہے۔ جسے ناہید نیازی نے گایا تھا۔ اور یہ اداکارہ نبیلہ پر فلمائی کی گئی تھی۔ اس کے موسیقار دیبو بھٹا چارجی تھے۔ لوری کا سفر ہنوز جاری ہے۔ اور جاری رہے گا، کیوں کہ جب تک ماں اور مامتا زندہ ہیں…لوری کا سفربھی جاری رہے گا۔ آج کل کی فلموں کے رنگ ڈھنگ بالکل بدل گئے ہیں،ماضی کی طرح دِل چُھولینے والی’’ لوریاں‘‘ اب نہ تو سُنائی دیتی ہیں اور نہ ہی فلموں اور ڈراموں کا حصہ بنائی جاتی ہیں۔