امید ٹوٹی ہوئی ہے میری جو دل مرا تھا وہ مر چکا ہے

September 08, 2021

امید ٹوٹی ہوئی ہے میری جو دل مرا تھا وہ مر چکا ہے

جو زندگانی کو تلخ کر دے وہ وقت مجھ پر گزر چکا ہے

اگرچہ سینے میں سانس بھی ہے نہیں طبیعت میں جان باقی

اجل کو ہے دیر اک نظر کی فلک تو کام اپنا کر چکا ہے

غریب خانے کی یہ اداسی یہ نا درستی نہیں قدیمی

چہل پہل بھی کبھی یہاں تھی کبھی یہ گھر بھی سنور چکا ہے

یہ سینہ جس میں یہ داغ میں اب مسرتوں کا کبھی تھا مخزن

وہ دل جو ارمان سے بھرا تھا خوشی سے اس میں ٹھہر چکا ہے

غریب اکبر کے گرد کیوں میں خیال واعظ سے کوئی کہہ دے

اسے ڈراتے ہو موت سے کیا وہ زندگی ہی سے ڈر چکا ہے