• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز کے سیاسی ماحول میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی فضا نے کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں ۔یوں محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت اور مقتدر حلقوں کے درمیان ’’ ایک پیج‘‘ والا حکومتی بیانیہ کمزور پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے حاصل ہونے والی جو مضبوط اور اٹل حمایت تحریک انصاف کو حاصل تھی وہ اب نئی صورتحال کے تناظر میں موسم کے بدلنے کے واضح اشارے دے رہی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایک ہی واقعہ سے پیدا ہونے والی ’’غلط فہمی‘‘ نے مضبوط حکومت کو کمزور کر دیا ہے اور حکمران قیادت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ ’’طاقت کے مرکز‘‘ سے الگ ہو کر اپنی سیاست اور اقتدار کو چلا سکے۔ 

یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حکمران جماعت نے اپنی پارٹی میں لوگوں کو کسی نظریہ کی بنیاد پر شامل نہیں کیا بلکہ سب ان کے ساتھ ان کے ’’طاقتور حلقوں ‘‘ سے روابط اور اتحاد کی وجہ سے ہی شامل ہوئے تھے ۔ اپوزیشن کے تمام رہنمائوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ تحریک انصاف نے جتنی بھی ’’مزاحمتی سیاست ‘‘ ماضی میں کی تھی وہ مقتدر حلقوں کی آشیر باد سے ہی کی تھی اور دھرنوں کے دوران بھی انہیں یہی حمایت حاصل تھی۔وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں اس بات کو شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو ماننے کے باوجود مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو رہا اور بڑھتی ہوئی مہنگائی غربت اور بیروزگاری نے غریب عوام کا جینا محال کر دیا ہے ۔ 

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بار بار کے اضافے نے یہ صورتحال پیدا کر دی ہے کہ اشیائے خوردونوش کو خریدنا بھی بے بس عوام کے لئے ناممکن بنا دیا گیا ہے ۔ حکومت کی ناقص اقتصادی پالیسیوں نے ملکی معیشت کا جنازہ نکال دیا ہے ۔ لاء اینڈ آرڈر کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے حکومت کو لانے والی قوتوں کوبھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے ۔ حال ہی میں جاری کئے جانے والے نیب آرڈیننس میں مزید ترامیم کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جبکہ فوجداری قوانین میں اصلاحات کے معاملات کے لئے وفاقی وزیر قانون ایک بار پھر پر تول رہے ہیں۔ 

وزارت قانون کے اعلیٰ افسران کا کہنا ہے کہ وزیر قانون جدید تقاضوں کی روشنی میں قانون سازی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ آئینی اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ من مانے اختیارات حاصل کرنے کے لئے آرڈیننس جاری کئے جاتے ہیں جو کہ آئین اور قانون کی روح کے برعکس ہوتے ہیں ۔ وفاقی وزیر خزانہ کے عہدہ پر کام کرنے والے شوکت ترین بھی کئی سہانے خواب دکھا رہے تھے لیکن ان کے اقدامات سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان کی کارکردگی صرف دعوئوں اور اعلانات کی حد تک محدود ہے۔ 

یہ بات زبان زدعام ہے کہ جس رفتار سے پٹرول مہنگا ہو رہا ہے اگر اس کو بریک نہ لگائی گئی تو دسمبر تک ڈیڑھ سو روپے سے زائد فی لٹر کو چھو سکتا ہے ۔ دوسری طرف ڈالر بھی قابو میں آنے کا نام نہیں لے رہا اور اس نے ایسی تباہی مچا رکھی ہے کہ مہنگائی میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔وفاقی وزراء ’’سب اچھا‘‘ کے بیانات سے کام چلانے کی کوششیں کر رہے ہیں جبکہ عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ صوبائی دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں مسلم لیگ (ن) کے ہر دلعزیز رہنما ملک پرویز کی اچانک رحلت کو شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنی خوش اخلاقی کی وجہ سے تمام سیاسی جماعتوں میں یکساں طور پر مقبول تھے۔

ان کی خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخاب کے لئے حکومتی جماعت نے وفاقی مشیر جمشید چیمہ کو میدان میں لانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) ابھی تک مشاورت کے مراحل طے کر رہی ہے اور حتمی فیصلہ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کریں گے۔ ہوشرباء مہنگائی اور بیروزگاری کے طوفان نےپی ڈی ایم کو بھی ایک بار پھر فعال کر دیا ہے ۔فیصل آباد میں ہونے والے عوامی اجتماع نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ عوام مہنگائی کے ہاتھوں آخری حد تک حکومت سے تنگ آ چکے ہیں۔ 

صوبائی دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کے بارے میں برطانوی کرائم ایجنسی کے فیصلہ کو شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی طرف سے ملنے والے ’’بے گناہی کے سرٹیفکیٹ‘‘ نے ان کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے منی لانڈرنگ کے معاملہ میں بین الاقوامی ایجنسی کی رپورٹ نے ان کی اور ان کے خاندان کی بے گناہی پر ایسی مہر ثبت کر دی ہے جس سے عوام کی عدالت میں بھی قبولیت ہو گی۔ 

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ احتساب عدالت میں جس کیس کی سماعت ہو رہی ہے ویسے ہی الزامات کا سامنا ان کو ایف آئی اے کی طرف سے بنائے جانے والے مقدمات میں ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ ایک ہی طرح کے الزامات پر مبنی دو مختلف مقدمات بنانا حکومت کی سراسر بدنیتی میں شامل ہوتا ہے اور اب عدالت کے ’’دائرہ اختیار ‘‘ کا معاملہ اٹھا کر صورتحال کو مزید مشکوک بنا دیا گیا ہے ۔میاں شہباز شریف اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے درمیان ہونے والی حالیہ ملاقات میں بجلی ، گیس، مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف احتجاج کا لائحہ عمل بھی طے کیاگیا ہے۔ 

مسلم لیگ (ن) کے اندر مفاہمتی اور مزاحمتی بیانیوں کے بارے میں جو صورتحال پائی جا رہی تھی اس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی پر اتفاق اور اتحاد کی فضاء قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کے جنوبی پنجاب کے دورہ کو بھی سیاسی حلقوں میں اہمیت دی جا رہی ہے۔ 

جماعت اسلامی صوبائی دارالحکومت سمیت ملک بھر میں مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرکے یہ ثابت کر رہی ہے کہ وہ عوام کی بے بسی اور بے کسی کی صورتحال پر ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی کے اس فیصلہ کو سیاسی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین