کینسر نے مجھے زندگی کے معنی سمجھا دئیے
50سالہ ریحانہ نے ہنستے ہوئے ایسے اپنی بپتا سنائی کہ ،جیسے کسی محاذ پر جنگ جیت لی ۔کہنے لگیں میں 10سال قبل کی وہ رات کبھی نہیں بھول سکتی جب مجھے معلوم ہوا کہ ’’بریسٹ کینسر‘‘کے چوتھے اور آخری دور سے گزر رہی ہوں۔یہ سن کر میں سکتے کہ عالم میں مُڑ مُڑ کبھی اپنے دو معصوم بچوں کو دیکھتی کبھی شوہر کو، میری ماں اور بہنیں اس وقت میرے سامنے نہ تھیں، مجھے نہیں معلوم کہ مجھ سے پہلے انہیں یہ خبر مل گئی تھی یانہیں۔
شوہر مجھ سے نظریں چرا رہے تھے، بچے ماما، ماما کہہ کربستر سے اٹھا رہے تھے۔لیکن میرے جسم سے تو جیسے جان ہی نکل گئی تھی، بیٹی چھ سال کی اور بیٹا چار سال کا تھا، جب میں بے جان سی بیڈ پر لیٹی رہی تو بیٹا میرے سینے پر بیٹھ گیا ،یہی وہ لمحہ تھا جب شوہر دوڑ کر آئے، بچوں کو چمکارتے ہوئے گود میں لیا، انہیں دیکھ کر میرا صبر ختم ہو گیا۔ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ شوہر تسلی دے رہے تھے لیکن ان کی لرزتی آواز، بے ربط جملے بتا رہے تھے کہ وہ بھی اندر سے ٹوٹ گئے ہیں۔
اس لمحے مجھے ایسا لگا، جیسے زندگی نے صبر سےمیری ملاقات کرادی دل نے کہا ،تم موت سے ڈر رہی ہو ،جو زندگی کی حقیقت ہے، اچانک بھی تو موت آسکتی ہے اور آتی ہے۔ بس اس سوچ نے مجھے زندگی کا مطلب سمجھا دیا۔ میں نے آنسوئوں سے تر چہرہ صاف کیا،شوہر کی گود سے بیٹے کو لیا اور بستر سے اٹھتے ہوئے کہا،کچھ نہیں ہوا مجھے، ہر بیماری کا علاج ہوتا ہے۔ زندگی کے دن میں اور آپ نہیں، اللہ تعالیٰ مقرر کرتا ہے۔ جب موت آئے گی تو ہم میں سے کوئی اس کے ساتھ جانے سے انکار نہیں کر سکتا،خواہ کینسر سے آئے یا کووڈ سے۔ بچے صبح سے بھوکے ہیں۔
مجھے بھی بھوک لگ رہی ہے۔ آپ جلدی سے فریش ہو کرکھانے کی میز پر آجائیں، اتنا کہہ کر بچوں کو ساتھ لے کر کمرے سے چلی گئی۔ کھانے کی میز پر شوہر بے دلی سے اور میں ڈٹ کر کھانا کھا رہی تھی۔ چند ثانیے بعد شوہر نے کہا، کل اسپتال جانا ہے، صبح تیار رہنا، میں نے کہا، کس لئے جانا ہے میں علاج نہیں کرائوں گی،جو رات قبر میں گزارنی ہے، وہ گزارنی ہی ہے۔ میں بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہتی ہوں۔ بس آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ جب تک بچے جوان نہیں ہو جاتے آپ دوسری شادی نہیں کریں گے۔ شوہر نے فوراً کہا مجھ سے ایسی باتیں نہ کرو، علاج تو تمہیں کرانا پڑے گا۔اور کل سے ہی ہو گا۔
اس پر کوئی کمپرو مائز نہیں ہو گا۔اتنا کہہ کر وہ کچھ کھائے بغیر چلے گئے۔ اب کچھ کہنے سننے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ وہ دن میرے لئے قیامت سے کم نہ تھا ۔اسپتال کے کوریڈور میں بیٹھی تھی، جہاں مجھ جیسی ایک دو نہیں 72خواتین تھیں، یہ تعداد اس لئے یاد ہے کہ میں نے خود گنی تھیں، اور ایک سادہ کاغذ پر لکھ بھی لی تھیں، پھر چند خواتین سے بات چیت بھی کی تھی کچھ کا علاج کئی سال سے ہو رہا تھا، کچھ کا میرے طرح پہلا یا دوسرا وزٹ تھا، لیکن سالوں سے اس مرض میں مبتلا بیشتر خواتین نے مجھے حوصلہ دیا۔
وہ اپنی ساتھیوں کی دل جوئی بھی کر رہی تھیں، اور یہ بھی کہہ رہی تھیں بیماری ناقابل علاج نہیں۔ بہرحال اس دوران میرا نام پکارا گیا۔ لیڈی ڈاکٹر نے میری فائل دیکھی اور کہا ، بی بی علاج ہم کریں گے۔ احتیاط آپ کریں، شفا دینے والی ذات صرف اللہ کی ہے۔ میں نے پوچھا، میرا کینسر کا اسٹیج کون سا ہے۔ یہ سن کر ڈاکٹر نے فوراً کہا، ،پہلا دوسرا یا آخری اسٹیج کچھ نہیں ہوتا، علاج فوری شروع ہو گا، چند گھنٹے بعد میری پہلی کیمو تھراپی ہوئی۔صبح کی گئی شام گئے گھر لوٹی تو خود کو برسوں کا بیمار محسوس کیا اور یہ یقین ہو گیا کہ، موت چند قدم کی دوری پر ہے۔
شوہر، بچے قریب تھے، ماں باپ کے ہاتھ بارگاہ الٰہی میں اٹھے ہوئے تھے۔ بہن بھائی چھپ چھپ کر رو رہے تھے۔ اس کا اندازہ ان کے چہرے دیکھ کر مجھے بہ خوبی ہو رہا تھا، رو میں بھی رہی تھی لیکن سب کے سامنے ایسے ظاہر کر رہی تھی کہ ’’کینسر‘‘ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ خیر کچھ کیمو کے بعد ڈاکٹر نے ایک ہفتے کا وقفہ کرایا، پھر چھ کیمو ہوئیں، اس کے بعد آپریشن ہوا، وہ رات میرے اور گھر والوں کےلیے قیامت سے کم نہ تھی، سب ہی اپنے اپنے بستروں پر بظاہر سو رہے تھے لیکن حقیقت میں جاگ رہے تھے،سناٹے میں کبھی کسی کی سسکی کی آواز سنائی دیتی تھی تو میں بچوں کو اپنے سے چمٹا لیتی آپریشن کام یاب ہو گیا۔
ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کرتی رہی۔ اور ہر گزرتا لمحہ مجھے حوصلہ بھی دیتا رہا۔ دو ڈھائی سال گھر،خاندان کی کسی تقریب میں شرکت نہیں کی۔ ایک دن میں نے سوچا کہ اس طرح تو زندگی سے دور دنیا سے کٹ کر رہ جائوں گی۔ مجھے خود کو کھڑا کرنا ہو گا، زندگی کے میلوں،جھمیلوں، میں حصہ لینا ہو گا، اس سوچ نے ہی نہیں کینسر نے بھی مجھے زندگی کے معنی سمجھا دیئے۔ میں تقریبات میں جانے لگی۔
دوست احباب سے ملنے جلنے لگی۔ سب مجھے دیکھ کر حیران بھی ہوتے اور خوش بھی۔ آج مجھے کینسرسے جنگ لڑتے 22سال کا طویل عرصہ ہو گیا ۔ بیٹی شادی شدہ ہے، بیٹا انجینئرنگ کالج میں ہے۔ شوہر بینک کی ملازمت سے ریٹائر ہو گئے ہیں۔ کبھی مذاق کے موڈ میں ہوتے ہیں، تو کہتے ہیں مجھ پر دوسری شادی کی پابندی لگا کر تم نے اچھا نہیں کیا تھا۔ یہ بتا دوں کہ اس بیماری سے لڑنے کے لیے ہمت پیدا کرنی ضروری ہے۔ اپنے آپ کو بستر پر گرانے کے بجائے کھڑی ہوں گی تب ہی زندگی میں دلچسپی لیں گی۔ جو خواتین اس بیماری سے دوچار ہیں، صرف وہی نہیں ان کے اہل خانہ بھی انہیں بیمار نہ سمجھیں۔
بیماری اور حوصلہ ہی اس کی ’’دوا‘‘ اور علاج ہے
ایک اور باہمت خاتون ’’فرح ‘‘سے ملیں ،ان سے باتیں کرکے ، اُنہیں دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ انہیں بریسٹ کینسر ہے۔ انہوں نے ہنستے ہوئےاپنے بارے میں بتا یا کہ ’’کہتے ہیں، وقت دکھائی نہیں دیتا، مگر پھر بھی کیا کیا دکھا دیتا ہے۔ اس کا تجربہ مجھ سے زیادہ کس کو ہو سکتا ہے، تقریباً میں 20سال سے کینسر سے جنگ لڑ رہی ہوں ۔
گزشتہ تین سال سے ہر دو تین ماہ بعد ایک دفعہ اسپتال ضرور جاتی ہوں، جاتے سمے سب مجھے اور میں سب کو الوداعی نظروں سے دیکھتی ہوں، لیکن چند دنوں بعد اپنے پیروں پر چلتی گھر آ جاتی ہوں، اس وقت میں سوچتی ہوں کہ یہ سب کیا ہے ؟ میرے شوہر کہتے ہیں، تمہارے حوصلے کی داد دینے کو جی چاہتا ہے تم نے سب کو جینے کا گُر بتایا ہے۔ اب اسے گُر کہیں یا کچھ اور نام دیں، میں تو صرف اتنا جانتی ہوں کہ ،ہر بیماری کا علاج ہے، موت تو بغیر بیماری کے بھی آتی ہے، ایک وقت تھا جب کینسر کا نام سن کر ہی خوف آ جاتا تھا، جس کو کینسر ہو جاتا تھا خاندان والے ہی نہیں دوست احباب اس سے ملنے آنے لگتے تھے۔
مریضہ سے کہا سنا معاف کراتے اور اس کی خواہشات پوری کرتے تھے۔ یہ میں آنکھوں دیکھا بتا رہی ہوں۔ اب بھی ایسا ہوتا ہے جوان ،کنواری شادی شدہ کم عمر بچوں کی مائوں کو ایسے دیکھا جاتا ہے کہ جیسے ان پر ترس آرہا ہے۔ اپنی بیماری کے دوران ایسی صورتحال سے میں بھی دوچار ہوئی چند سال تو میں خاموش رہی، کیوں کہ مجھے خود اپنی کیفیت کا اندازہ نہیں ہو رہا تھا، گھڑی میں موت کی دہلیز پر تو ،گھڑی میں ہنستی بولتی نظر آتی۔ بے یقینی میں زندگی گزر رہی تھی۔ اب تو مجھے محسوس ہی نہیں ہوتا کہ کینسر میں مبتلا ہوں۔ بیماری کے ابتدائی پانچ سال تکلیف دہ ہوتے ہیں۔
کیمو، ریڈی ایشن، سرجری اور دوائوں کی بھرمار ،جینے کا حوصلہ ختم کر دیتی ہے۔ جب کینسر کی تشخیص ہونے کے بعد میرا علاج شروع ہوا تو دو تین ماہ تو پورا دن اسپتال میں گزرتا۔ کبھی ایک ٹیسٹ تو کبھی دوسرا ٹیسٹ ،اس وقت میں خود اپنے آپ سے بیزار ہو گئی تھی لیکن گھر والوں نے جس طرح میری دل جوئی کی ،میرا خیال رکھا، اس سے مجھے رشتوں کی قدر ہوئی۔اپنوں کی محبت نے جینا سکھایا ۔یقین کریں ایسا لگتا تھا کہ روٹی سے زیادہ دوائیں کھا رہی ہوں۔ اس بیماری کا سب سے زیادہ تکلیف دہ مرحلہ’’کیمو‘‘ کا ہے، پھر آپریشن کے بعد جو دو ماہ تک بیگ لگا ہوا ۔گھر تک محدود رہنا بھی ڈپریشن میں مبتلا کر دیتا ہے۔ زندگی اور دوائوں کا چولی دامن کا ساتھ لگنے لگتا ہے۔
ان تمام مراحل سے گزرتے وقت کئی بار میرے حوصلے ٹوٹے، ہر وقت ہاتھوں میں دوائیں لئے گھڑی پر نظریں جمائیں بیٹھی رہتی۔ ایسا لگا کہ میں نے دعا کرنی چھوڑ دی ۔بس بچے میری دوا کا وقت یاد رکھتے اور میں بچوں کو دیکھتی رہتی لیکن جلد ہی میں نے اپنے آپ کو سنبھالا ، یہ سوچا جب تک زندہ ہوں تب تک تو بچوں سے جڑی رہوں۔
اپنے زندہ ہونے کا احساس تو کروں، بس اس کے بعد میں ایسی ہو گئی جیسے مجھے بیماری نے نہیں میں نے بیماری کو مار دیا۔ اپنے تجربے کی روشنی میں کینسر سے دوچار اپنی بہنوں سے کہوں گی کہ اس بیماری میں ہمت و حوصلہ سے کام لینا ہوتا ہے۔ یہ سمجھ لیں کہ یہی آپ کی دوا ہے۔ پھر دیکھئے گا کہ کیسے زندگی خوب صورت لگنے لگے گی، بس حوصلہ ،بہنوں حوصلہ چاہئے۔‘‘
علاج کو چیلنج سمجھا
راحت حسنات ایک کالج میں پروفیسر ہیں۔ اُنھیں اپنی بیماری کےبارے میں اُس وقت پتا چلا جب وہ اپنی ایک ساتھی کے ساتھ کینسر اسپتال گئیں، اپنے ٹیسٹ کروائے۔ اگرچہ راحت کو بیماری کی کوئی علامات محسوس نہیں ہوئی تھیں ، وہ مکمل طور پر تندرست اور ایک نہایت مصروف زندگی گزاررہی تھیں۔ لیکن، اُن کے ٹیسٹ کی رپورٹ نے انھیں چونکا دیا۔اُنھیں بریسٹ کینسر نے دبوچ لیا تھااور فوری علاج کی ضرورت تھی۔ راحت کا کہنا ہے کہ جب اُنھیں پتا چلا تو وہ ڈر گئیں۔
اپنے بچوں اور خاوند کا خیال آیا اور میری پوری زندگی اُن کے سامنے ایک فلم کی طرح چلنے لگی۔یہ بات ہے آج سے 10 سال پہلے کی، جب پاکستان جیسے ترقی پذیر اور صحت کی سہولیات کے لحاظ سے ایک پسماندہ ملک میں کینسر یا سرطان کو موت کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ لیکن، میں نے سب سے پہلے اپنے آپ کو سنبھالا، ڈاکٹر کی بات کو سنا، سمجھا اور اپنے گھر والوں سے بات کی ۔ امریکا میں موجود اپنے بھائی سے مشورہ کیا اور آخر کار اس بات پر سب متفق ہوئے کہ علاج امریکاکی بجائے پاکستان میں ہی کروایا جائے۔راحت کا کہنا ہے کہ سب سے پہلی چیز جو اِس قسم کی بیماری کے علاج میں مددگار ثابت ہوتی ہے وہ ہے آپ کا خود اس بات کو تسلیم کرنا کہ آپ کو یہ بیماری لاحق ہوگئی ہے اور اب اس کا مقابلہ کرنا ہے۔
یہ مریض کے اپنے اوپر منحصر ہوتا ہے وہ کیا سوچتا ہے اور کیسے اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرتا ہے۔اپنے بارے میں بتاتے ہوئے اُنھوں نےکہا کہ جب ڈاکٹر نے مجھےبتایا کہ مجھےسرجری کی ضرورت ہے تو میں فوراً تیار ہو گئ اور وقت ضائع نہیں کیا۔ بلکہ میں تو چاہتی تھیں کی اُن کی سرجری اگلےہی دن ہو جائے۔ لیکن، ڈاکٹرنے چار دن بعد کی تاریخ دی۔ سرجری کے بعد جب کیمو تھراپی ہوئی ، جو شاید اس علاج کا سب سے تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے ، تو میں نے اپنے آپ کو بہت مضبوط رکھااور اس کے علاج کواپنے لیے ایک چیلنج سمجھا۔میں ناصرف دعا کرتیں اور اللہ سے مدد مانگتی بلکہ اپنی ہرکیمو تھراپی کے دن کو ایک خاص دن کے طور پر مناتی، نئے کپڑے پہنتی اور مکمل اعتماد اور اُمید سے اسپتال جاتی ۔
اِس طرِز عمل نے میرے اند ر ایک ایسی طاقت پیدا کی ،جس نے بیماری کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسری چیز ، جس کے بارے میں راحت نے نہایت زور دے کر بات کی وہ ہے آپ کے ارد گرد موجود لوگوں کی سپورٹ کہ، آپ کے خاندان والے آپ کے ساتھ کیسے کھڑے ہوتے ہیں، کیوں کہ اِس خطرناک مرض کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ آپ کو چاہنے والے موجود ہیں ، جنھیں آپ کی ضرورت ہے۔
خاندان والوں کی طرف سے جذباتی مدد بہت ضروری ہے، خاص طور پر مردوں کی طرف سے ۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ شادی شدہ خواتین کےشوہروں کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ اِس صورتحال میں کیا کریں، کیسے اپنی بیویوں سے پیش آئیں، کیوں کہ اس کا علاج طویل اور کٹھن ہوتا ہے ۔ اکثر شوہر اپنی بیویوں سے دور ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ، یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بیوی کو خاوند کی ضرورت ہوتی ہے اور اُن کی طرف سے کہا جانے والا ایک ایک لفظ اور ایک ایک عمل بیوی کی صحت پر اچھے اور برے اثر ات مرتب کر سکتا ہے۔
علاج کے ساتھ ساتھ یہ تمام چیزیں نہایت اہمیت کی حامل تھیں کہ انھیں اپنے آس پاس موجود لوگوں سے کتنی اخلاقی اور جذباتی مدد ملی۔ اور اِسی کو ذمہ داری سمجھتے ہوئے اپنے تجربوں کو دوسروں سے بانٹنے کا فیصلہ کیا اور اپنی بیماری اور علاج کو چھپایا نہیں بلکہ کھل کر اِس کے بارے میں بات کی۔ اِس تاثر کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بیماری کو چھپانا بہتر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں اِس طرح کی معاشرتی پابندیاں ہیں اور دقیانوسی باتیں موجود ہیں ،جِن کی وجہ سےخواتین اپنی بیماری کو چھپانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
خاص طور پر’’ بریسٹ کینسر ‘‘کولے کر لوگ یہ باتیں کرتےہیں کہ اب تو بچنا ناممکن ہے، اس کو چھپا لو، کسی کو نا بتاؤ۔ بریسٹ کینسر ہو گیا ، سسرال والے کیا کہیں گے؟ خاوند طلاق دے دے گا۔ بیٹی کی شادی نہیں ہو گی کہ ماں کو ہوا ہے تو بیٹی کو بھی ہو سکتا ہے۔ایسی بے سروپا باتوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں اِن کے بارے میں معلومات عام کریں اور اِس طرح کے رد عمل کی حوصلہ شکنی کریں، کیوں کہ یہ بیماریاں اب قابل علاج ہیں اور عام بھی۔
راحت نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اس بیماری کے حوالے سے اپنی یادداشت لکھی ہے،جس میں اپنے ہر تجربے کو دوسروں سے بانٹنے کی کوشش کی اور اِس میں کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔اُن کا کہنا ہے کہ اِس بیماری کو شکست دینے والےلوگوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسروں کو اِس کے بارے میں بتائیں۔ اُنھیں بتائیں کہ اِس بیماری کو شکست دینا مشکل نہیں۔ یہ بتادوں کہ میرا کینسر نہایت بگڑ چکا تھا جب مجھے پتا چلاتھا۔ لیکن، میں نے اِس کا مقابلہ کیا اور آج بالکل صحت مند ہوں۔
اب توکسی بھی قسم کی دوائیں نہیں لیتی۔ لیکن، ہر چھے مہینے کے بعد اپنا معائنہ ضرور کرواتی ہیں۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ متاثرہ خواتین مکمل اعتماد سے اِس کا مقابلہ کریں، مثبت رویہ اور سوچ رکھیں اور ہردن کا آغاز یہ سوچ کر کریں کہ یہ آپ کی تندرستی کی طرف ایک اور قدم ہے۔ ہر دن بھرپور طریقے سے جئیں اور اپنا ہدف و مقصد بنا لیں کہ آپ نے اس جنگ میں سر خرو ہونا ہے، آپ نے بریسٹ کینسر کے خلاف مقابلہ جیتنا ہے، صحت یاب ہونا ہے۔
میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میری آواز سر حدوں کے پار سنی جائے گی
سرطان کو شکست دینے والی سعودی خاتون، ڈاکٹر سامیہ
سعودی خاتون ڈاکٹر سامیہ کوئی عام انسان نہیں ہیں۔ وہ ’’بریسٹ کینسر ‘‘ کو زندگی کا بڑا چیلنج سمجھ کر اس سے لڑرہی ہیں۔ وہ گائناکالوجسٹ ہیں ۔ انہیں اپنے پیشے سے عشق ہے، تاہم انہوں نے اپنے عشق سے دست بردار ہو کر خود کو زیادہ بڑے مقصد کے لیے فارغ کر لیا اور وہ ہے چھاتی کا سرطان۔ وہ خود اس نوعیت کے سرطان سے دو مرتبہ دوچار ہوئی ہیں۔ اب وہ معاشرے میں صحت سے متعلق امور بالخصوص چھاتی کے سرطان کے حوالے سے آگاہی کی سرگرمیوں میں پیش پیش ہیں۔
ڈاکٹر سامیہ جدہ میں کنگ عبدالعزیز یونی ورسٹی میں میڈیکل کالج میں پروفیسر بھی ہیں ، اس کے علاوہ چھاتی کے سرطان کے حوالے سے دیکھ بھال کے خصوصی مرکز ’’الشیخ محمد حسن العمودی سینٹر‘‘کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ سامیہ نے دو کتابیں بھی تالیف کی ہیں۔ انہوں نے ’’العربیہ‘‘ ڈاٹ نیٹ کے ساتھ خصوصی گفتگو میں ان خاص مواقع کا ذکر کیا جنہوں نے ان کی زندگی کا رخ تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ بچپن میں والد کے سائے سے محروم ہو گئی تھیں۔شادی کے کئی برس بعد اللہ نے ان کو بیٹا عبداللہ اور پھر بیٹی اِسراء دی۔
سال 2006 میں پہلی مرتبہ انہیں چھاتی کا سرطان ہوا ، پھر جنوری 2015 میں دوبارہ اس مرض نے ان پر حملہ کیا۔ اس کے بعد سے سامیہ نے اس مرض کے خلاف جدوجہد کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔سامیہ نےایک کتاب بہ عنوان ’’ایک سعودی خاتون کی یادداشتیں‘‘ قلم بند کی، اس کتاب میں انہوں نے اپنی زندگی کا خلاصہ نئی نسل تک پہنچایا ،بالخصوص خواتین کے واسطے صبر اور عزم و استقلال کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔ڈاکٹر سامیہ عربی روزناموں میں کالم بھی لکھتی ہیں۔ اپنے کالموں میں بھی وہ چھاتی کے سرطان کے حوالے سے تجربات اور آگاہی کے امور پر روشنی ڈالتی ہیں۔
بقول ڈاکٹر سامیہ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میری آواز اور میرا مسئلہ سرحدوں سے باہر تک پہنچے گا، تاہم واقعتا ایسا ہوا اور میں پہلی عرب خاتون بن گئی ،جس کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں سالانہ International Women of Courage Award سے نوازا ۔ مارچ 2007 میں یہ ایوارڈ میں نے سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس سے وصول کیا۔میں وہائٹ ہاؤس میں بھی داخل ہوئی جہاں سابق امریکی صدر جار بش ، ان کی اہلیہ لورا بش اور جو بائڈن سے ملاقات کی۔ یہ سب بطور سعودی خاتون اور سرطان کے مسئلے کے حوالے سے میرےلیے ایک اعزاز تھا‘‘۔
سامیہ کے مطابق وہ سوچا کرتی تھیں کہ کاش ان کی کہانی خواتین کے لیے اثر انگیز ثابت ہو۔ اب وہ اس بات کو اعزاز سمجھتی ہیں کہ وہ نئی نسل کے لیے ایک نمونہ ہیں وہ اس نسل کے سماجی اور طبی آگاہی کو پھیلانے میں دن رات ایک کر رہی ہیں۔ڈاکٹر سامیہ کے مطابق سوشل میڈیا آگاہی ان کے لیے مفید ترین آلہ کار ہے۔ وہ ٹوئیٹر کے ذریعے اس ذمے داری کو سرانجام دیتی ہیں۔
اُمید دیں، زندگی بچائیں
’’بریسٹ کینسر‘‘ پاکستان سمیت دنیا بھر کی خواتین میں پایا جانے والا یہ سب سے عام سرطان ہے، لیکن اس سے دوچار بہت سی خواتین آگاہی نہ ہونے کے سبب جانیں گنوا دیتی ہیں۔ ان میں خوف پایا جاتا ہے۔ وہڈاکٹر کے پاس جانے اور چیک اپ کرانے سے کراتی ہیں، یہاں تک کہ اپنے اندر ہونے والی کسی بھی غیر ضروری تبدیلی پر اہل خانہ تک سے بات کرنے سے جھجک محسوس کرتی ہیں۔ بریسٹ کینسر کی بڑھتی شرح کو کم کرنے کے لیے خواتین کے دل سے خوف نکالنا اور انہیں مضبوط بنانا ہوگا۔
خواتین اس بیماری کے حوالے سے شعور بیدار کرنے کے لیے صرف اکتوبر کے مہینے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ وہ خواتین جن کے خاندان میں کسی کو بریسٹ کینسر ہو، ان میں اس کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، اس لیے وہ سال میں ایک مرتبہ ’’میمو‘‘ کرائیں۔ نیز سگریٹ، شراب نوشی، بڑی عمر میں شادی، ماہواری کے مسائل، فاسٹ فوڈ یا ایسے کھانے جو وزن بڑھاتے ہیں، ان پر قابو پاکر بریسٹ کینسر سے بچا جاسکتا ہے۔
کچھ عرصے قبل تک یہ یکنسر عام طور پر 40یا اس سے زائد عمر کی خواتین میں ہوتا تھا، لیکن اب کچھ عرصے سے یہ مرض کم عمر اور جوان خوتین میں بھی پایا گیا ہے، جس کی اصل وجہ خاندان میں’’بریسٹ کینسر‘‘ کا پایا جانا ہے بہرحال اس مرض سے محفوظ رہا جاسکتا ہے، بس امید، حوصلے اور بروقت علاج ضروری ہے۔