• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیلیوژن،ریڈیو سے اور اخبارات میں لگا تار اور بار بار اتنی مرتبہ دہرایا گیا ہے کہ فوج اور حکومت ایک ہی پیج پر ہیں، کہ قوم کی آنے والی دس بیس پیٹرھیوں تک کو اعتبار آگیا ہے کہ فوج اور حکومت ایک ہی پیج پر ہیں۔ 

اچھی بات ہے،بلکہ بہت اچھی بات ہے۔ جب حکومت اور دیگر ادارے ایک پیج پر نہیں ہوتے تب حکومت اپنی عالیشان اور قابل ستائش کارکردگی نہیں دکھا سکتی۔ یہ طے ہے۔ اس پر مزید بات چیت بیکار ہے۔ 

پچھلے چوہتر برسوں میں آج تک پتہ نہیں چل سکا ہے کہ ہمارے ہاں آزادی اظہار کی سرحدیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں اور کہاں پر ختم ہوتی ہیں۔جب معاملہ مبہم دکھائی دیتا ہو، تب قدم پھونک پھونک کر اٹھانا چاہئے۔کیا پتہ کہ گٹر کا ڈھکن کب چرالیا گیا ہو۔ 

میں آپ کو یقین دلواتا ہوں کہ آج سے پچاس سال بعد اُس دور کے وزیر اطلاعات آپ کو آزادی اظہار کا عین اسی طرح یقین دلوارہے ہوں گے جس طرح آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے وزیر اطلاعات مولانا کوثر نیازی قوم کو آزادی اظہار کا یقین دلوایاکرتے تھے اور آخرکار ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا ستیا ناس کر دیا۔ 

موجودہ وزیر اطلاعات بھی عین اسی طرح ہمیں آزادیٔ اظہار کا یقین دلواتے رہتے ہیں۔ جس طرح پچاس برس پہلے اس دور کے وزیر اطلاعات ہمیں آزادیٔ اظہار کا یقین دلواتے تھے اور پچاس برس بعد آنے والے وزیر اطلاعات بھی قوم کو آزادی اظہار کا یقین دلوارہے ہوں گے۔ 

مختصراً یہ کہ زندگی اسی بات کا تعین کرنے میں دربدرہو رہی ہے کہ ہمارے ہاں آزادی اظہار کی ابتدا کہاں سے ہوتی ہےاور اختتام کہاں پرہوتا ہے۔ زندگی اسی میں رائیگاں ہورہی ہے کہ کیا لکھنا چاہئے اور کیا لکھنے سے اجتناب کرناچاہئے اور کیا کہنے سے گریز کرنا چاہئے۔

اگر آپ ٹیکسی میں اپنے دوست کے ساتھ سفر کررہے ہیں تو بھولے سے بھی سیاست پر گفتگو مت کیجئے گا۔خاص طور پرکچھ اداروں کا توا شارتاً نام تک مت لیجئے گا۔کون جانے ٹیکسی چلانے والا کس ادارے کا ملازم ہے۔ وزیر اطلاعات مولانا کوثر نیازی جب آزادی اظہار کے گن گاتے نہیں تھکتے تھے، تب عزیز ہم وطنوں کو ڈی پی آرDPRڈیفنس آف پاکستان رولز کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے تھے۔

بلکہ پبلک سے چھپاتے تھے۔ آپ تاریخ پر علمی بحث نہیں کرسکتے تھے۔ ادیب، شاعر، افسانہ نگار ڈی پی آر میں دھر لیے جاتے تھے اور جیلوں میں سڑتے رہتے تھے۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ آپ آزادی اظہار کے جھانسے میں مت آیئے گا۔ ہم نےآزادی اظہار کے بھاری بھرکم دعویداروں کو بذات خود آزادی اظہار پر قدغن لگاتے دیکھا ہے۔ 

چھوڑتے ہیں اس بات کو یہیں پر۔ روزی روٹی لگی ہوئی ہے۔ کہیں اس سے بھی محروم نہ ہوجائیں۔آزادی اظہار کے چکر میں کہیں نان ونفقہ کے لالے نہ پڑجائیں۔اب دیکھتے ہیں کہ کون کون سےماتحت ادارے حکومت وقت کے ساتھ ایک پیج پر ہیں۔ 

سب سے پہلے ہم ایسے ایک ادارے کا جائزہ لیتے ہیں جو ملک اور قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنیوں سے منور کردیتا ہے۔ میں بجلی کے محکمہ کا ذکرنہیں کررہا۔ میں محکمہ تعلیم کا ذکر کررہا ہوں۔ ہر لحاظ سےمحکمہ تعلیم اور حکومت وقت ایک پیج پر ہیں۔ 

تعلیمی ادارے اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، ٹیکنالوجی کے ادارے اپنے اعلیٰ معیار کے ساتھ کھلے ہوئے ہیں۔ قوم کو تعلیم اور تربیت دے رہے ہیں۔ یہ اچھی خبر ہے۔ وائس چانسلرز اور پرنسپلز کی تقرریاں میرٹ پر افہام وتفہیم سے ہورہی ہیں۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہماری قوم اس قدر اعلیٰ تعلیم یافتہ کیوں ہے۔

آپ کو جان کر بے حد خوشی ہوگی کہ محکمہ صحت اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ دونوں کے درمیان کمال کی ہم آہنگی ہے۔ اسپتال کھلے ہوئے ہیں۔ ہوشیار اور مہربان ڈاکٹر اور دوسرا عملہ مریضوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ برانڈڈ اور معیاری دوائوں سے مریضوں کا علاج ہورہا ہے۔ 

ہمارا محکمہ صحت قوم کی صحت کا ذمہ دار ہے۔وہ اپنے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دے رہاہے۔ قوم صحت مند ہے۔ چاق چوبند ہے۔یہ اس لئے ہے کہ محکمہ صحت اور حکومت ایک پیج پرہیں۔اب آپ نے جان لیا ہوگا کہ جب حکومت اور ماتحت ادارے ایک پیج پرہوتے ہیں تب ان کی فوقیت کیا ہوتی ہے۔

ایک ادارہ کا حکومت کے ساتھ ایک پیج پرہونا بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس ادارہ کانام ہے فائربریگیڈ کا ادارہ۔ اس ادارہ کاکام ہے ملک میں لگی ہوئی آگ بجھانا آئے دن ملک میں کہیں نہ کہیں آگ لگی رہتی ہے۔ یہ ادارہ فوراً آگ پرقابو پالیتا ہے۔ اور آگ کو پھیلنے نہیں دیتا۔

ایک ادارےکوتمام اداروں سے اہم مانا جاتا ہے۔ اس ادارہ کانام ہے صحت صفائی کا ادارہ۔صرف ایک روز کےلئے اگر خاک روب اور جمعدار کام کرنے سے انکار کردیں تو گند کچرے، اور کوڑے کرکٹ کے پہاڑ کھڑے ہوجائیں۔ پوری قوم کو سانس لینی دشوار ہوجائے۔

خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ حکومت اور صحت صفائی کا ادارہ بشمول خاک روب اور جمعدار ایک پیج پر ہیں۔

تازہ ترین