جہانگیر ترین لندن گئے ،تو پیچھے چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں ،طرح طرح کی افواہوں نے جنم لیا ،یہ بھی کہا گیا کہ وہ لندن کے دورے میں نوازشریف سے ملاقات کریں گے اور ان کا یہ دورہ 15 دنوں تک محیط ہوگا ،مگروہ چنددن بعد لندن سے واپس آگئے اور ان کے بارے میں جوچہ مگوئیاں جاری تھیں وہ غلط ثابت ہوئیں ،ملتان میں جب وہ سرائیکی کے معروف شاعر شاکر شجاع آبادی کی عیادت کے لئے نشتر ہسپتال گئے ،توصحافیوں کی ایک بڑی تعداد بھی وہاں موجود تھی ،ان کے جانے کا مقصد شاکر شجاع آبادی کی مالی امداد او ر صرف عیادت کرنا تھا ،مگر ان کی واپسی پر صحافیوں نے سیاسی حوالے سے چند سوالات بھی پوچھے ،جن کا انہوں نے بڑے ٹہرے ہوئے اور متوازن لہجے میں جواب دیا۔
انہوں نے اپنی یہ بات پھر دہرائی کہ میں کسی جماعت میں نہیں جارہا ،کیونکہ ان کی جماعت تحریک انصاف ہے،ان کی لندن میں کسی سے ملاقات نہیں ہوئی اور ساتھ ہی وہ یہ بھی کہہ گئے کہ یہ حکومت بھی کہیں نہیں جارہی اور پانچ سال پورے کرے گی ،جہانگیرترین کی ان باتوں سے یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ اب ان کے اور حکومت کے درمیان کو ئی کشیدہ فضا نہیں ہے اور ان کے سارے معاملات بھی جوایف آئی اے اور دیگر اداروں میں زیرالتواء ہیں ،خاموشی سے دبا دیئے گئے ہیں ، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا،تو جہانگیر ترین کے لب ولہجہ میں وہی تلخی موجود ہوتی ،جوان دنوں نظرآتی تھی ،جب ان پر ایف آئی اے کی یلغار تھی اور پیشیوں کا سلسلہ جاری تھا ،آج وہ ایک بے فکر رہنما کے طور پر اپنا کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں۔
ان کا لہجہ اور باڈی لینگویج ان کے اعتماد کو ظاہر کرتی ہے اور اس اعتماد کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آج بھی ان کا ہم خیال گروپ پوری طرح ان کے ساتھ موجود ہے ،دورہ ملتان کے دوران بھی ان کے گروپ میں شامل وزیراور اراکین اسمبلی ان کے ساتھ موجود تھے ،افواہیں تو یہ بھی گرم ہیں کہ مسلم لیگ ن کے کچھ اراکین اسمبلی اور الیکٹیبلز بھی جہانگیرترین سے رابطے میں ہیں ،کیونکہ جوں جوں وقت گزررہا ہے اور اس موجودہ سیٹ اپ کی مدت کم ہورہی ہے ،مختلف سیاسی شخصیات آنے والے دنوں میں نئی اڑان بھرنے کے لئے پرتول رہی ہیں ، حالات کو دیکھ کر اور ہواؤں کا رخ محسوس کرکے سیاست کرنے والے ابھی سے اپنے رابطےمضبوط کررہے ہیں اور جہانگیر ترین ایک ایسی سیاسی شخصیت ہیں کہ جن کے بارے میں یہ تاثر قائم ہوچکا ہے کہ وہ بادشاہ گرکا کردار ادا کرتے ہیں۔
گزشتہ انتخابات میں بھی انہوں نے اپنا یہی کردار ادا کیا تھا اور اب بھی ان کا گروپ اور دیگر سیاستدان ان سے رابطوں میں ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ ان کی چھتری تلے ایک ایسا مظبوط سیاسی دھڑا سامنے آئے ،جو اس وقت کی سیاست کا رخ کسی طرف بھی پھیر دے ، جہانگیر ترین کی ایک عرصہ ہوا ،اگرچہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات نہیں ہوئی ،مگر غائبانہ طورپر وہ ہمیشہ ان کی حمایت کرتے ہیں ،دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ اپناسیاسی کردار کیسے ادا کرتے ہیں ،البتہ ان کی اس بات پر سیاسی قوم پرست جماعتوں کے عہدے داروں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے کہ جو انہوں نے علیحدہ صوبہ کے حوالے سے کی ہے اور جس میں یہ کہا کہ وسیب کے تمام مسائل کا حل علیحدہ صوبہ ہے۔
اس بار تو ہم علیحدہ صوبہ نہیں بنا سکے ،لیکن اگلی پانچ سالہ مدت میں علیحدہ صوبہ بنانے کی پوری کوشش کریں گے ،حالانکہ اس مدت کے دوران ابھی تک تحریک انصاف نے علیحدہ صوبہ بنانے کی کوئی ایک سنجیدہ کوشش بھی نہیں کی ،نہ ہی صوبائی یا قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کی گئی اور نہ دیگر سیاسی جماعتوں سے ا س حوالے سے رابطہ قائم کیا گیا ،گویا اب بھی تحریک انصاف اسے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے استعمال کررہی ہے اور یہی بات سرائیکی قوم پرست رہنما کرتے ہیں کہ تحریک انصاف نے علیحدہ سیکرٹریٹ کا ڈرامہ رچا کر صوبہ کی تحریک کا نقصان پہنچایا ،کیونکہ انتظامی سیکرٹریٹ کبھی بھی یہاں کے لوگوں کو مطالبہ نہیں رہا ،وہ اپنا علیحدہ تشخص چاہتے ہیں ،جس کے لئے علیحدہ صوبہ کا قیام ضروری ہے۔ادھر مہنگائی کے خلاف اپوزیشن کا احتجاج جاری ہے ،بلاول بھٹو کی کال پر پیپلزپارٹی نے مہنگائی کے ایشو پر ملک گیر احتجاج کیا۔
جنوبی پنجاب میں بھی جگہ جگہ مظاہرے ہوئے ،مگر ملتان میں حیران کن طور پر گیلانی خاندان کا کوئی فرد احتجاجی مظاہرے میں نظر نہیں آیا ، حتی کہ ان کے بیٹے صوبائی رکن اسمبلی علی حیدرگیلانی بھی احتجاج میں شامل نہیں ہوئے اور صرف تنظیمی عہدے دار،کارکن مہنگائی کے خلاف ایک ہلکے پھلکے احتجاج میں شامل تھے ،لوگ یہ پوچھتے رہے کہ سید یوسف رضا گیلانی ملتان میں ہونے کے باوجود اس احتجاج میں شامل کیوں نہیں ہوئے، حالانکہ اس احتجاج کی کال خود بلاول بھٹو نے دی تھی ،اس صورتحال میں پیپلزپارٹی کے کارکن اگربددلی کا شکار ہوئے ہیں ،تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ،جس کی قیادت صرف ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر سیاسی بیان جاری کرے اور عملی مظاہرے کے وقت منظر سے غائب ہوجائے ،تو ایک احساس محرومی جنم لیتا ہے۔
اس دوران ڈیرہ غازی خان میں پی ڈی ایم نے مہنگائی کے خلاف ایک بڑا جلسہ کیا ،جس میں مولانا فضل الرحمن اور شہبازشریف بھی شریک ہوئے ،یہ جلسہ چونکہ شہر کے وسط میں کیا گیا تھا ،اس لئے اس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی ،اس جلسہ کے لئے رانا ثناءاللہ دو دن پہلے ہی ڈیرہ غازی خان پہنچ گئے تھے اور انہوں نے اویس لغاری اور جمال لغاری کے ساتھ مل کر جلسہ کے انتظامات کا جائزہ لیا تھا ،اس جلسہ میں سخت تقریریں سننے میں آئیں اور عوام کا جوش وخروش بھی دیدنی تھا۔