دُنیا بھر میں علم و آگہی اور اظہار فن کے موثر و موقر ذرائع میں ریڈیو، فلم اور ٹی وی کی اہمیت و افادیت ہمیشہ سے مسلم رہی ہے۔ گوکہ اب سوشل میڈیا نے ان میڈیمز کی اہمیت اور مقبولیت کو کسی حد تک متاثر ضرور کیا ہے، لیکن بعض حوالوں اور پہلوئوں سے ان کا امتیاز اور وقار آج بھی قائم ہے۔ ٹی وی اور فلم سے تقابل کیا جائے تو ریڈیو کو نسبتاً زیادہ مشکل میڈیم کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ کیوں کہ اس میڈیم کی وساطت سے انسانی شکل، قد کاٹھ، حرکات و سکنات فن کار شخصیت کے تعارف میں کسی قسم کی مدد و معاونت فراہم نہیں کرتا۔
بلکہ آواز کی خُوب صورتی لہجے کا زیر و بم اور تلفظ کی شستہ اور دُرست ادائیگی، فن کار کی شخصیت کے خدوخال کو نمایاں کرتے ہیں۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد جس کی تاریخ کم و بیش چھ سات دہائیوں پر محیط ہے۔ اس کے مائیکروفون کی وساطت سے ایک سے ایک صاحبِ کمال کمپیئر، نیوز کاسٹرز، انائونسرز، گلوکار اور صداکار فن کاروں کی آواز نے دُنیا بھر میں اپنا آپ منوایا۔ اسی ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے فلموں کا عظیم فن کار محمد علی جیسا گوہر نایاب فن کار ابھر کر آسمان فلم کا تابناک ستارہ بنا۔
سب سے مقبول وِلن مصطفیٰ قریشی، جیسا بڑا فن کار پاکستان فلم انڈسٹری کو ملا۔ مائی بھاگی، روبینہ بلوچ، روبینہ قریشی، استاد محمد جمن، جیسی آوازیں اس ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے مائیکرو فون کی وساطت سے ملک کے گوشے گوشے میں گونجیں۔ اپنی نوعیت کے ممتاز ترین انسٹرومنٹ پلیئر استاد بلاول جنہیں ’’بینجو‘‘ بجانے میں کمال حاصل تھا۔
اسی ریڈیو حیدرآباد کا تحفہ تھے۔ اقبال جعفری، سلیم شیخ، سید نور اظہر جعفری، ہادی حسن، اقبال فریدی، شہناز وسیم، محمد صدیق جیسے نابغہ روزگار لوگوں کا تعلق ریڈیو حیدرآباد سے تھا کہ جنہیں ہوسٹنگ کے شعبے میں، آواز، انداز لہجہ اور گفتگو کے تناظر میں بلا کی مہارت اور کمال حاصل تھا۔ صوتی اثرات کے مشکل ترین شعبے میں بے پناہ صلاحیتیں کے حامل الیاس رضا، جنہوں نے طویل عرصہ تک بہ طور ماہر صوتی اثرات خدمات سرانجام دیں۔
وہ بھی اسی ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے پلیٹ فارم سے وابستہ تھے۔ درجنوں سندھی فلموں کے کام یاب موسیقار غلام علی جن کو کریڈٹ پر ’’جنم جنم تیرا میرا ساتھ رہے گا۔ اور من بھائے پیا‘‘ جیسا سدا بہار سُریلا اور امر گیت سے یہ مایہ ناز موسیقار بھی ریڈیو حیدرآباد کی وساطت سے ابھرے۔ سندھی فلموں کے ایک اور نامور موسیقار فیروز گل کا تعلق بھی اسی ادارے سے تھا۔
گلوکار وحید علی جنہیں ’’کافی‘‘ کا گائیگی میں سندھ بھر میں ممتاز حیثیت حاصل رہی، اسی ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے ان کا بنیادی اور ابتدائی تعلق رہا۔ استاد فتح علی خاں حیدرآبادی جنہیں ’’خیال‘‘ کی گائیگی میں ملکہ حاصل ہے۔ پرائیڈ آف پرفارمنس یافتہ یہ صاحب کمال فن کار بھی ریڈیو حیدرآباد سے متعلق ہیں۔
علاوہ ازیں یعقوب زکریا، عبدالحق ابڑو، ظہیر احمد وارثی، بھی براڈ کاسٹنگ کے اسی ادارے کی وساطت سے متعارف ہوئے اور ملک بھر میں شناخت بنائی۔ ’’مجھ سا تجھ کو چاہنے والا‘‘ فیم مایہ ناز پلے بیک سنگر گلوکار رجب علی جنہوں نے70 ء اور 80ء کی دہائیوں میں پاکستان فلم انڈسٹری کے لیے اپنی خُوب صورت گائیکی سے بہت سے گیتوں کو یادگار بنایا۔ ان کا بھی ابتدائی تعلق بھی اسی قیمتی ادارے ہی سے تھا۔
ریڈیو پاکستان حیدرآباد، آج بھی علم فن اور آگہی کے ضمن میں اپنی خدمات بطریق احسن انجام دے رہا ہے۔ اس کی عمارت وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ جنرل پوسٹ آفس حیدرآباد کے عین بالمقابل اور پریس کلب سے بالکل متصل واقع ریڈیو حیدرآباد ہے، اس کے داخلی گیٹ کے ساتھ ہی وسیع و عریض سبزہ زار ہے۔ جب کہ مشرقی حصے میں شعبہ اکائونٹ کی عمارت ہے اور عین وسط میں شعبہ نشریات کی عمارت ہے، جس میں پروڈیوسرز کے آفسز، اسٹیشن ڈائریکٹر کا دفتر ریکارڈنگ اسٹوڈیوز، لائیو اسٹوڈیوز، فن کاران، فوٹو گیلری، اس عمارت کی خُوب صورت کمپوزیشن کا حصہ ہیں۔ اس نشریاتی عمارت کے عین عقب میں وسیع رقبے پر پھیلا ہوا سندھ کی لوک فن کارہ ’’زرینہ ‘‘ سے موسوم زرینہ آڈیٹوریم واقع ہے۔
گزشتہ دنوں حیدرآباد کے اہلِ فن، دانش ور، صداکار، اداکار، ریڈیو ہوسٹ اس وقت سراپا احتجاج بن گئے کہ جب یہ خبر پھیلی کہ وفاقی حکومت ریڈیو پاکستان کی عمارت کے کچھ حصوں کی فروخت کے لیے کمربستہ ہے، جن میں ’’زرینہ قریشی‘‘ آڈیٹوریم کی فروخت کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ وہ فن کار جن کے پیشروئوں نے اس ریڈیو کو اپنی شب و روز محنت اور انتھک کوششوں سے ایک معتبر، معروف ادارے کی حیثیت دی، وہ بھلا کیوں کر گوارا کرسکتے ہیں کہ وفاقی حکومت اس ادارے کو ٹکڑوں میں بیچ کر شہر کے فن کاروں کے اس گہوارا فن کو بے نام و نشان کردے۔
لہٰذا رنگ نسل اور زبان کی تخصیص سے ماورا اور بے نیاز ہوکر ریڈیو، اسٹیج، فلم اور ٹی وی سے تعلق رکھنے والے فن کار ثقافتی تنظیم بھٹائی آرٹس سرکل کے جھنڈے تلے یکجا ہوکر سینئر فن کار و ہدایت کار رفیق عیسانی کی قیادت میں پریس کلب کے سامنے جمع ہوگئے اور مرکزی حکومت کو اس متوقع اقدام کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے اثرات و نتائج حکومت کے ارادوں پر اثرانداز ہوتے ہیں یا نہیں، لیکن ہمارا صائب مشورہ حکومت وقت کو یہی ہے کہ خدارا وہ اس اقدام سے باز رہے، ورنہ یہ شہر ریڈیو براڈ کاسٹنگ کے شعبے میں صرف اور صرف پرائیویٹ ایف ایم چینلوں کے رحم و کرم پرہوگا۔ جو اردو اور دیگر زبان اور شائستگی کو تباہ کرنے میں پہلے ہی پیش پیش ہیں۔