• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انگلش چینل عبور کرنے کیلئے کوشش ، برطانیہ غیرقانونی تارکین وطن کی آمد روکنے کیلئے فرانس کو فنڈز فراہم کرے گا

لندن ( نیوز ڈیسک)2021کے آخری مہینوں میں تارکین وطن کی ایک ریکارڈ تعداد نے انگلش چینل کو عبور کرنے کی کوشش کی ۔ برطانیہ کی بارڈر فورس انگلش چینل کو چھوٹی کشتیوں کے ذریعے عبور کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنے جہاز بھیجتی ہے لیکن وہ خطرات میں گھرے ہوئے لوگوں کو بچانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ رواں ہفتے فرانس نے تارکین وطن کے انگلش چینل کو عبور کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کی غرض سے نو اعشاریہ تین ملین پونڈ کے آلات اور 100 گاڑیاں دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس سازو سامان میں ساحل سمندر پر چلنے کے قابل کواڈ بائیک، زوڈیک کشتیاں اور چھوٹے بحری جہاز شامل ہیں،کوسٹ گارڈ کو اندھیرے میں دیکھنے کے آلات دئیے گئے ہیں تاکہ وہ ریت کے ٹیلوں میں چھپے ہوئے لوگوں کو دیکھ سکیں جو انگلش چینل کو عبور کرنے کی غرض سے ساحل سمندر پر آتے ہیں،فرانس کا اصرار ہے کہ وہ تارکین وطن کو انگلش چینل کو عبور کرنے سے روکنے کے لیے اپنے تئیں پوری کوشش کر رہا ہے، فرانس کے وزیر دفاع نے کچھ روز قبل کہا تھا کہ صرف ایک دن میں انگلش چینل کو عبور کرنے کی کوشش کرنے والے 671 لوگوں کو روکا گیا، کیلے سے فرانسیسی ممبر پارلیمنٹ پیئر ہنری ڈوماں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ توقع کرنا کہ 200 سے 300 کلو میٹر لمبے ساحل پر پولیس افسران 24 گھنٹے گشت کریں گے، حقیقت پسندانہ سوچ نہیں، برطانیہ نے انگلش چینل کو عبور کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کی غرض سے فرانس کو 54 ملین پاؤنڈ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ رقم ساحل پر پولیس کی گشت کو بڑھانے، فضا سے تارکین وطن کے گروپوں پر نظر رکھنے اور بندرگاہوں پر سیکورٹی کو بڑھانے کے لیے دی جا رہی ہے، دونوں ملکوں نے ایک مشترکہ انٹیلی جنس گروپ بھی تشکیل دے رکھا ہے جس نے 94 تحقیقات میں مدد کی ہے، برطانیہ میں 2020 میں چھوٹی کشتیوں کے ذریعے انگلش چینل کو عبور کرنے کی کوششوں کے حوالے سے 65 مقدمات درج کیے گئے جب کہ فرانس میں 300 لوگوں کو گرفتار کیا گیا، نومبر میں صرف ایک روز میں 1000 افراد انگلش چینل عبور کر کے برطانیہ میں داخل ہوئے، رواں برس 25 ہزار افراد انگلش چینل عبور کر کے برطانیہ پہنچے ہیں لیکن یہ اعداد و شمار مکمل کہانی بیان نہیں کرتے۔ 2019 میں برطانیہ میں 45 ہزار افراد نے پناہ کی درخواست دی لیکن یہ تمام افراد انگلش چینل کو عبور کر کے برطانیہ نہیں پہنچے تھے بلکہ پناہ کی درخواست دینے والوں کا ایک حصہ تھے۔ اگر تارکین وطن کا کوئی گروہ انگلش چینل کو عبور کرنے کی کوشش میں بارڈر فورس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے، تو اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ اس گروہ کے افراد کو برطانوی بندرگاہ پر لایا جائے گا اگر یہ لوگ عالمی پانیوں میں ملے ہوں تو پھر برطانوی اور فرانسیسی حکام مل کر فیصلہ کرتے ہیں کہ ان تارکین وطن کے ساتھ کیا کیا جائے، دونوں ملکوں کے اپنے اپنے تلاش اور حفاظت کے زون ہیں لیکن چونکہ انگلش چینل کی چوڑائی صرف 20میل ہے، اس لیے اس علاقے کو عالمی پانیوں میں تصور نہیں کیا جاتا۔ تارکین وطن جب ایک بار برطانوی حدود میں داخل ہو جاتے ہیں تو انھیں، عام طور پر ایسے مراکز میں لے جایا جاتا ہے، جہاں انھیں مختصر عرصے کے لیے رکھا جاتا ہے، کیا تارکین وطن کو واپس فرانس بھیجا جا سکتا ہے، عالمی قوانین کے تحت پناہ کے متلاشی لوگ کسی بھی ملک پہنچ کر وہاں پناہ کی درخواست کر سکتے ہیں۔ یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اس ʼمحفوظʼ ملک میں پناہ کی درخواست دیں، جہاں وہ سب سے پہلے پناہ کی تلاش میں پہنچے ہیں۔ البتہ یورپی یونین کے ڈبلن تھری قانون کے تحت پناہ گزینوں کو واپس اسی ملک بھیجا جاتا ہے جہاں وہ سب سے پہلے پہنچے ہیں۔ جنوری 2019 سے اکتوبر 2020 کے درمیان برطانیہ نے ڈبلن تھری قانون کے تحت 231 ایسے پناہ گزینوں کو واپس یورپ بھیج دیا تھا جو برطانیہ پہنچ گئے تھے لیکن اب برطانیہ یورپی یونین کا حصہ نہیں رہا ہے اور اسے یہ قانونی سہولت میسر نہیں ہے۔ پناہ گزینوں کے حوالے سے برطانیہ ابھی تک یورپی یونین کے ساتھ کسی متبادل نظام پر متفق نہیں ہوا ہے لہذا برطانوی حدود میں پہنچنے والے تارکین وطن کو واپس بھیجنا مشکل ہو چکا ہے۔ برطانیہ کے امیگریشن وزیر ٹام پرسگللوو نے 17 نومبر کو ممبران پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ 2021 میں برطانیہ صرف پانچ افراد کو واپس یورپی یونین کے ممالک میں بھیج پایا ہے۔برطانیہ کی وزیر داخلہ پریتی پٹیل نے بارڈر فورس کے حکام کو اجازت دی ہے کہ وہ مخصوص حالات میں پناہ گزینوں کی کشتیوں کو واپس دھکیل سکتے ہیں، آسٹریلیا نے پناہ گزینوں کو واپس دھکیلنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے لیکن فرانس برطانیہ کی اسی پالیسی کے ساتھ تعاون نہیں کرتا، ایک پرواز کی ہنگامی لینڈنگ کے بعد جہاز سے درجنوں مسافر فرار ہو گئے اُن افراد کی زندگی کیسی ہوتی ہے جو برطانیہ میں پناہ کی تلاش میں آتے ہیں، جوں ہی کشتیاں فرانسیسی پانیوں سے نکل آئیں برطانوی اہلکار فرانس کی رضامندی کے بغیر فرانس کے پانیوں میں داخل نہیں ہو سکتے اور پناہ گزینوں کو برطانوی قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ میری ٹائم قانون کے ماہر پروفیسر اینڈریو سرڈی کے مطابقاگر فرانس ان پناہ گزینوں کو واپس لینے پر رضامند نہیں جو اس کے پانیوں سے نکل آئے ہیں، تو اسے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ کسی کشتی کو اسی وقت واپس دھکیلا جا سکتا ہے جب اس پر سوار لوگوں کی زندگیوں کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ چھوٹی سے کشتی جن میں پناہ گزین سفر کرتے ہیں انھیں محفوظ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ انگلش چینل کے راستے برطانیہ پہنچنے والے تارکین وطن کی اکثریت اس امید پر برطانیہ میں پناہ کی درخواست دائر کرتی ہے کہ انھیں مہاجر کا درجہ مل جائے گا جس کا مطلب ہے کہ وہ یہاں رہ سکیں گے۔ ان کو یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنے ملک واپس گئے تو انھیں مذہبی، نسلی، قومیت، سیاسی خیالات، صنفی شناخت یا جنسی رجحانات کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تارکین وطن پناہ کی درخواست میں پارٹنر یا اٹھارہ برس سے کم عمر بچوں کو بھی شامل کر سکتا ہے، اگر وہ بھی برطانیہ میں ہی ہیں، ان درخواستوں کا فیصلہ کیس ورکر کرتے ہیں، پناہ کی درخواستوں پر غور کرتے ہوئے پناہ گزین کی آبائی ملک کے حالات کو مدنظر رکھا جاتا ہے، پناہ کی درخواست کا فیصلہ چھ مہینوں کے اندر ہونا چاہیے لیکن اکثر اس سے زیادہ وقت لگ جاتا ہے اگر پناہ کی درخواست منظور ہو جائے تو کیا ہوتا ہے جس کسی کو مہاجر کا درجہ مل جائے وہ اپنے خاندان کے ہمراہ پانچ برس تک برطانیہ میں رہ سکتا ہے اور پانچ سال مکمل ہونے پر وہ برطانیہ میں مستقل سکونت کی درخواست کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی کو انسانی بنیادوں پر برطانیہ میں رہنے کی اجازت مل جائے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ مہاجرین کا درجہ تو حاصل نہیں کر سکتے لیکن انھیں واپس اپنے ملک بھیجے جانے پرموت کی سزا، غیر قانونی ہلاکت تشدد اور ذلت آمیز سلوک اور جنگ کے دوران عام شہریوں کی زندگی کو لاحق خطرات ہوتے ہیں، ایسے تارکین وطن جنہیں انسانی بنیادوں پر برطانیہ میں رہنے کی اجازت مل چکی ہے یا مہاجر کا درجہ مل چکا ہو تو وہ برطانیہ سے باہر موجود اپنے زیر کفالت لوگوں کو برطانیہ آنے کی اجازت دینے کی درخواست دائر کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور کئی وجوہات کی بنا پر لوگوں کو برطانیہ میں رہنے کی اجازت مل سکتی ہے۔ مثال کے طور اگر کوئی بچہ جس کے ساتھ کوئی سرپرست نہیں یا وہ انسانی سمگلنگ کا شکار ہوا ہو، ایسے افراد کتنا عرصہ برطانیہ میں رہ سکتے ہیں، اس کا انحصار ان کی صورتحال پر ہے۔ایسے 36 ہزار افراد نے سنہ 2020 میں برطانیہ میں پناہ کی درخواست دائر کی۔ ان میں سے 10 ہزار افراد کو مہاجر کا درجہ یا کسی اور مد میں برطانیہ میں رہنے کی اجازت ملی۔ یہ اعداد و شمار اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں کم ہیں شاید اس کی وجہ کورونا کی وبا ہے۔ پناہ گزینوں کو ان کی درخواست پر نظرثانی کے دوران مالی اور رہائشی مدد دی جاتی ہے، ایسے لوگ جنہوں نے پناہ کی درخواست دائر کر رکھی ہوتی ہے انھیں اس دوران اتنی مالی مدد ملتی ہے جس سے ان کی رہائش کے اخرجات پورے ہو جائیں۔ ایسے لوگ جنہوں نے پناہ کی درخواست کر رکھی ہے انھیں کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ وہ رضاکارانہ طور پر بھی کوئی کام نہیں کر سکتے۔ اگر ان کی درخواست کا فیصلہ ایک سال تک نہ ہو سکے اور وہ کسی ایسے ہنر کے مالک ہوں جس کی برطانیہ میں کمی ہے تو اس صورت میں انھیں کام کی اجازت مل سکتی ہے۔ اس متنازع ضابطے کا مقصد لوگوں کو برطانیہ میں کام حاصل کرنے کے لیے پناہ کی درخواست کا راستہ اپنانے سے روکنا ہے۔ البتہ اس ضابطے کے مخالفین کا موقف ہے کہ یہ پناہ کے طالب لوگوں کے معاشرے میں ضم ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہے اور ان کا وہ ہنر جو اپنے ساتھ لائے ہیں اس کا بھی ضیاع ہے۔ پناہ کے طالب اپنی رہائش کا فیصلہ خود نہیں کر سکتے۔ ابتدائی طور پر انہیں ہاسٹل نما رہائش گاہ میں رکھا جاتا ہے لیکن بعد میں کہیں اور بھی رکھا جا سکتا ہے۔ اس دوران ہر پناہ گزین کو ہر ہفتے 39 پاؤنڈ دیے جاتے ہیں۔ البتہ بچوں اور حاملہ خواتین کو اضافی مدد بھی مل سکتی ہے۔ ایسے پناہ گزین جن کی پناہ کی درخواست زیر غور ہو انھیں صحت کی سہولیات میسر ہوتی ہیں اور بچوں کو سکول بھیجنا لازمی ہے۔ اگر پناہ کی درخواست مسترد ہو جائے اور برطانیہ میں رکنے کا کوئی اور جواز بھی قبول نہ ہو تو پناہ کے طالب کو رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے یا طاقت کے ذریعے نکل جانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ ایسے افراد جن کی پناہ کی درخواست مسترد ہو جائے وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں۔ 2004 سے 2020 کے درمیان ایسی تقریباً 30 فیصد اپیلیں کامیاب ہوئی تھیں۔ اپیل دائر ہونے کے دوران درخواست گزار کو برطانیہ میں رہنے کا حق دیا جاتا ہے اور انھیں قانونی معاونت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ ان اپیلوں کے فیصلے میں اکثر برسوں لگ جاتے ہیں۔ اس دوران انھیں مالی اور رہائشی مدد جاری رہتی ہے۔
تازہ ترین