…پروین شاکر …
اس عمر کے بعد اس کو دیکھا!
آنکھوں میں
سوال تھے ہزاروں
ہونٹوں پہ مگر وہی تبسم!
چہرے پہ لکھی ہوئی اداسی
لہجے میں مگر بلا کا ٹھہراؤ
آواز میں گونجتی جدائی
بانہیں تھیں مگر وصال ساماں!
سمٹی ہوئی اس کے بازوؤں میں
تا دیر میں سوچتی رہی تھی
کس ابر گریز پا کی خاطر
میں کیسے شجر سے
کٹ گئی تھی
کس چھاؤں کو ترک کر دیا تھا
میں اس کے گلے لگی ہوئی تھی
وہ پونچھ رہا تھا مرے آنسو
لیکن بڑی دیر ہو چکی تھی!
مجھے مت بتانا
کہ تم نے مجھے چھوڑنے کا ارادہ کیا تھا
تو کیوں …اور کس وجہ سے
ابھی تو تمہارے بچھڑنے کا دکھ بھی نہیں کم ہوا
ابھی تو میں
باتوں کے وعدوں کے شہر طلسمات میں
آنکھ پر خوش گمانی کی پٹی لیے
تم کو پیڑوں کے پیچھے درختوں کے جھنڈ
اور دیوار کی پشت پر ڈھونڈنے میں مگن ہوں
کہیں پر تمہاری صدا اور کہیں پر تمہاری مہک
مجھ پہ ہنسنے میں مصروف ہے
ابھی تک تمہاری ہنسی سے نبرد آزما ہوں
اور اس جنگ میں …میرا ہتھیار
اپنی وفا پر بھروسہ ہے اور کچھ نہیں
اسے کند کرنے کی کوشش نہ کرنا
مجھے مت بتانا.....