• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیوبا کے معروف ناول نگار ’’ایڈ منڈو ڈیسنویس‘‘

لاطینی امریکا میں واقع ’’کیوبا‘‘ ایک اہم ملک ہے، جس کی جدوجہد آزادی کی طویل تاریخ ہے۔ ہسپانوی، برطانوی اور امریکی قبضے سے لے کر عہد جدید میں امریکی استعمار سے آزادی کی جدوجہد تک، فیڈل کاسترو اور چی گویرا جیسے رہنمائوں کی رہبری میں ایک کامیاب انقلاب برپاہونے تک اس ملک کے حیران کن حقائق ہیں۔ اسی تناظر میں یہاں کے دانشوروں، ادیبوں اور صحافیوں نے بھی اپنے حصے کا کردار نبھایا۔ 

اس سرزمین سے منتخب کیے گئے کیوبن ادیب کا نام’’ایڈمنڈو ڈیسنویس‘‘ ہے۔ انہوں نے نہ صرف اپنی یادداشتیں مرتب کیں، بلکہ کئی ناول بھی لکھے، صحافت کی، بطور مدیر آرٹ اور ادب وثقافت کے موضوعات پر لکھتے رہے، جبکہ تدریس سے بھی وابستگی رہی اور ثقافتی تاریخ کے پروفیسرر ہے۔ وہ سترکی دہائی سے امریکاکے شہر نیویارک میں مقیم ہیں۔

ایڈمنڈو کی یادداشتوں پر مبنی ناول’’اِن کنسول ایبل میموریز‘‘ یعنی’’ناقابلِ تسخیر یادیں‘‘ کے عنوان سے انگریزی میں شائع ہوا، جبکہ اس کے ہسپانوی ایڈیشن کے عنوان کے مطابق’’میموریز آف انڈر ڈوویلپمنٹ‘‘ یعنی’’پسماندہ یادیں‘‘ تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں یہ ناول ہسپانوی زبان میں کیوبا میں شائع ہوا۔ اس ناول کی کہانی پر مصنف کی ذاتی زندگی اور مشاہدات کی چھاپ بھی ہے۔ کہانی کے مطابق، ایک ایسے دانشور کوبیگانگی کی کیفیت میں مبتلا دکھایا گیا ہے، جس کے سامنے معاشرتی انقلاب برپا ہوتا ہے، اس کے عزیز و اقارب ملک چھوڑ کرچلے جاتے ہیں، مگر وہ وہاں سے نہیں جاتا اور اس انقلاب کا عینی شاہد بنتا ہے۔

دراصل یہ کہانی ساٹھ اور ستر کی دہائی میں کیوباکے انقلاب اور اندرونی سیاسی و سماجی خلفشار کو بیان کرتی ہے۔ 2008 میں مصنف نے اپنے اس ناول کے تناظر میں مزید اضافہ شدہ کام بھی شائع کیا ۔’’ایڈمنڈو ڈیسنویس‘‘ کے والد کیوباکی اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے اور والدہ کا خاندانی پس منظر’’جمائیکا‘‘ سے تھا۔ اپنی شریک حیات سے یہ پہلی مرتبہ کیوبا میں ایک تقریب میں تب ملے تھے، جب ان کی عمر پندرہ سال تھی، اب جب وہ ایک طویل زندگی گزار کر دوبارہ ایک دوسرے سے ملے تو ان کو اس وقت کی تمام باتیں یاد تھیں۔ 

حتیٰ کہ یہ بھی کہ ایک دوسرے نے کس طرح کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ وہ آج بھی اس پینسٹھ سال پرانی یادوں پر ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ کیوباسے تعلق رکھنے والے اس مصنف کی زندگی کا یہ ایک انتہائی روشن اور رومانوی پہلو ہے، یہ الگ با ت ہے کہ ان کی یادیں زیادہ تر تلخ تجربات پر مبنی ہیں، جب وہ انقلاب کے دنوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو قریب سے دیکھ رہے تھے۔ یہ تمام تاثرات ان کی تحریروں میں جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔

ان کے مشہور ناول یعنی’’پسماندگی کی یادیں‘‘ پر کیوبا کے معروف فلم ساز’’تھامس گوٹیرزالیا‘‘ نے اسی عنوان سے فلم تخلیق کی،جسے عالمی شہرت ملی۔ ان کا شمار ایسے فلم سازوں میں کیا جاتا ہے، جنہوں نے انقلاب کے بعد والے کیوباکی عکس بندی اپنی فلموں کے ذریعے کی، جس سے ناظرین کو اس بدلے ہوئے کیوبا کی افہام و تفہیم کرنے میں مدد ملی۔ 

انہوں نے جس انداز کے سینماکی تخلیق کی، اس کا تعلق لاطینی امریکا میں جاری رہنے والی’’تھرڈ سینما‘‘ تحریک سے ہے، جو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں کیوبا میں متحرک رہی۔ اس تحریک کے ذریعے نوآبادیاتی کیوبا کے نظریات، سرمایہ دارانہ نظام اور ہالی ووڈ کی مادیت پرستی پر مبنی پالیسوں کے خلاف ردعمل تھا۔ اس تحریک کے اثرات لاطینی امریکی ممالک کے علاوہ بھی کئی دیگرممالک پر مرتب ہوئے، جن میں انڈیا، بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے ممالک شامل ہیں۔ اس فلمی تحریک کے تناظر میں پاکستانی فلم ساز جمیل دہلوی کا کام دیکھا جاسکتا ہے۔

فلم نے بہت سارے فلموں کے میلوں میں اعزازات اپنے نام کیے۔ معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی طرف سے 1968 کی دس بہترین فلموں میں شمار کیا گیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس فلم کا اسکرین پلے خود ہدایت کار ’’تھامس گوٹیرزالیا‘‘ نے لکھا تھا۔ انقلاب کے تاریخی، مشکل لیکن رومانوی دنوں کی داستانوں پر لکھے گئے ناول اور اس پر بننے والی فلم کو ماسٹر پیس سمجھا جاتا ہے۔ فلمی ناقدین کے خیال میں یہ فلم ناول سے بھی آگے نکل گئی ہے۔

مصنف کی طرف سے اس اضافہ شدہ ناول پر کیوبا سے ہی تعلق رکھنے والے ایک اورفلم ساز’’میگیول کوئیلا‘‘ نے 2010 میں اس پرفلم بنائی۔ یہ فلم اپنی پروڈکشن کے لحاظ سے اور بھی بہتر ہے۔ کیوبا کی تاریخ بالخصوص انقلاب سے پہلے اور بعد کے ادوار کی تفہیم کے لیے جس طرح ایک ناول نگارنے بیان کی، پھر فلم سازوں نے جس طرح ایک عام ناظر تک اس کو پہنچایا، یہ بہت کمال بات ہے۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی