• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ مری، وزیراعظم کی انکوائری میں اہم ترین سوالوں کا جواب ملے گا؟

اسلام آباد (انصار عباسی) وزیراعظم نے انکوائری کا حکم دیا ہے جس سے اُن اہم سوالوں کا جواب ملے گا جو سانحۂ مری کے معاملے میں اہم ہیں، یہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور کمشنر راولپنڈی کے کردار کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ 

کیا وزیر اعلیٰ بزدار نے موسم سرما سے قبل اور محکمۂ موسمیات کی جانب سے مری میں موسلادھار بارشوں اور برف باری کی پیشگوئی کرنے کے بعد کوئی اجلاس بلایا؟ کیا اِس اجلاس کے اہم نکات (میٹنگ منٹس) دستیاب ہیں؟ کیا وزیراعلیٰ یا ان کے دفتر کی جانب سے صورتحال کی نگرانی کی گئی اور محکمہ موسمیات کی جانب سے کی جانے والی پیشگوئی کی صورت میں ایمرجنسی کی صورت میں تیاریوں کے حوالے سے کیا اقدامات کیے گئے تھے؟

 مری کے تمام تر معاملات میں کمشنر راولپنڈی کا کردار اہم ہے۔ سانحے سے قبل آخری مرتبہ کمشنر نے مری کا دورہ کب کیا تھا؟ کیا انہوں نے مری میں تیاری کے حوالے سے اور رابطہ کاری کے معاملات پر کوئی اجلاس بلایا تھا؟ تاریخی لحاظ سے دیکھیں تو کمشنر راولپنڈی صوبائی اور وفاقی حکومت کے تمام اداروں کا اجلاس بلاتے تھے۔

یہ اجلاس مری کے جناح ہال میں ہوا کرتا تھا جس میں برف باری کی صورت میں تیاریوں کا جائزہ لیا جاتا تھا۔ کیا موجودہ کمشنر گلزار شاہ نے مری میں اس طرح کا کوئی اجلاس منعقد کیا تھا؟ اس اجلاس کے میٹنگ منٹس کہاں ہیں؟ ایس او پیز اور قانون کے مطابق کمشنر راولپنڈی ایمرجنسی اور بحران کی صورت میں ریلیف کے اقدامات کے ذمہ دار ہیں۔ 

جب مری میں شدید برف باری اور سیاحوں کی بھرپور آمد کی خبریں اور اطلاعات سامنے آئیں تو کیا کمشنر راولپنڈی مری پہنچے؟ کیا کمشنر اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی ہفتہ 8 جنوری کو حادثے سے پہلے مری پہچنے یا اس کے بعد؟ حکومت نے کمشنر اور ڈی سی او راولپنڈی کو مری میں خصوصی کیمپ آفسز مہیا کر رکھے ہیں۔ 

ان کیمپ آفسز کے قیام کی وجہ یہ ہے کہ موسم گرما اور سرما میں اگر بڑی تعداد میں سیاح مری پہنچیں تو یہ اہم عہدیدار مری میں اپنے کیمپ آفسز میں موجود ہوں۔ کیمپ آفسز چھٹیاں منانے کیلئے نہیں بلکہ کارکردگی دکھانے اور سرکاری فرائض کی انجام دہی کیلئے مہیا کیے گئے ہیں۔ 

اس بحران سے نمٹنے کیلئے آر پی او اور سی پی او راولپنڈی نے کیا کردار ادا کیا؟ صوبائی حکومت، ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کو اختیار حاصل ہے کہ صورتحال قابو سے باہر جانے کی صورت میں وہ سویلین حکام کی مدد کیلئے فوج کو طلب کر سکتے ہیں۔ 

علاقے میں مری ایک بڑی چھائونی ہے جہاں جی او سی اور اسٹیشن کمانڈر موجود ہوتے ہیں۔ صوبائی حکومت یا کمشنر نے یا پھر ڈپٹی کمشنر نے بروقت فوج کی مدد کیوں طلب نہیں کی؟ مری کی شاہراہ (ایکسپریس وے) نیشنل ہائی ویز اتھارٹی (این ایچ اے) کی ذمہ داری ہے اور شاہراہ کو صاف (کلیئر) رکھنا این ایچ اے کا کام ہے اور یہ ادارہ وزیر مواصلات مراد سعید کے ماتحت ہے۔ 

کیا وزیر مراد سعید، وفاقی سیکریٹری کمیونیکیشنز یا پھر چیئرمین این ایچ اے نے برف باری کی پیشگوئی کے بعد تیاریوں کے حوالے سے کوئی اجلاس طلب کیا؟ سیاحوں اور گاڑی سواروں کو سہولت فراہم کرنے کیلئے موٹر وے پولیس اور این ایچ اے نے کیا اقدامات کیے؟ اس سلسلے میں اہم وقت دوپہر 12؍ بجے سے رات 12؍ بجے تک کا تھا۔ 

وزیراعظم کی جانب سے جس انکوائری کا حکم دیا گیا ہے اس میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ سانحہ مری سے قبل اور ان اہم 12 گھنٹوں کے دوران کس نے کیا کچھ کیا۔ ریلیف اور ریسکیو کی ذمہ داری پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی ہے۔ 

پی ڈی ایم اے نے اس بحران کے دوران کیا کیا؟ این ڈی ایم اے کا کیا کردار رہا؟ مری میں برف باری کے موقع پر حالات کو سنبھالنا ہائی ویز اور بلدیاتی حکومت کے صوبائی سیکریٹریز کا کام ہے۔ 

صوبائی وزراء اور اہم ذمہ دار محکموں کے سیکریٹریز نے کیا کردار ادا کیا؟ انٹیلی جنس بیورو اور اسپیشل برانچ کو حکومت کے ’’آنکھ اور کان‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ کیا آئی بی اور اسپیشل برانچ نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو یہ رپورٹ دی تھی کہ انتظامیہ اور محکموں کے انتظامات نا مکمل ہیں؟

اہم خبریں سے مزید