• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں واقع ڈی جے سائنس کالج کا شمار پاکستان کے معروف ترین تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ کالج کی خوبصورت اور دلکش تاریخی عمارت حسنِ تعمیر کا حسین شاہکار ہے جس کا شمار بجا طور پر کراچی کی چند اہم اور قدیم تاریخی عمارات میں کیا جاسکتا ہے۔

1887ء میں انگریز دورِ حکومت سے قبل کراچی کے طلباء و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بھارت کے شہر بمبئی یا دنیا کے دوسرے ممالک جانا پڑتا تھا۔ اس زمانے میں طویل سفر زیادہ تر سمندری راستوں سے ہوا کرتے تھے لیکن ہوائی جہاز کے ذریعے بھی دوسرے ملکوں میں پہنچا جا سکتا تھا، البتہ عام آدمی کے لیے یہ سفر تقریباً ناممکن ہی تھا۔ کراچی گوکہ تعلیمی ‘ تجارتی‘ صنعتی اور معاشی طور پر سندھ کا مرکز تھا لیکن اعلیٰ تعلیم کا حصول یہاں ممکن نہیں تھا۔

کراچی کے شہریوں کی ان تکالیف کو دیکھتے ہوئے دیوان دیارام جیٹھ مل نے کراچی میں ایک اعلیٰ تعلیمی ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ کراچی اور سندھ کے لوگوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے کام کا آغاز کیا‘ شہریوں کو اس نیک کام میں شامل کیا اور ممبئی جا کر اعلیٰ حکام سے کراچی میں کالج کے قیام کی درخواست کی، جسے مشروط طور پر منظور کر لیا گیا، شرط یہ تھی کہ وہ ایک مخصوص رقم کراچی کے شہریوں سے چندے کی صورت میں جمع کر یںگے او رباقی ماندہ رقم حکومت وقت انہیں فراہم کرے گی۔ 

سیٹھ دیارام جیٹھ مل نے کراچی واپس آکر پُرجوش انداز میں کالج کے قیام کی کوششوں کا آغاز کیا ۔شہر شہر جا کر لوگوں سے چندے کی درخواست کی جس کے جواب میں فراخ دل شہریوں نے دل کھول کر چندہ دیا۔ سیٹھ دیارام نے خود بھی خطیر رقم چندے میں دی ، یوں جلد ہی مقررہ رقم سے کئی گنا زائد رقم اکٹھی ہوگئی ۔عمارت پر لاگت کا تخمینہ سوادولاکھ روپے تھا۔ لیکن شہریوں نے سیٹھ دیا رام کے عظیم مقصد کو سمجھ لیا تھا اور وہ ہر طرح سے ان کے ساتھ تھے۔ 

مقصد نیک ہو تو منزل از خود قریب آجاتی ہے۔ آخر وہ دن آہی گیا جب جنوری 1887ء میں ایم اے جناح روڈ پر ٹھٹھائی کمپائونڈ کے ایک بنگلے میں کالج کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا جس کے لیے ممبئی کے گورنر لارڈ ہیرس کو دعوت دی گئی کہ وہ کالج کا باقاعدہ افتتاح کریں۔ یوں سیٹھ دیارام کے اس خواب کو تعبیر ملناملی جو انہوں نے اپنے لیے ہی نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے دیکھا تھا۔ یہ عمارت سولہ ہزار چار سو پچاسی مربع گز پر مشتمل ہے۔ اس شاندار عمارت کے آرکیٹکٹ مسٹر جے اسٹریچن تھے جنہوں نے اسلامی طرز تعمیر اور دنیا کی بہت ساری عمارات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے ڈیزائن کیا اور ماسٹر پلان بناتے ہوئے رومن طرز تعمیر کو بھی پیش نظر رکھا ۔

اپریل 1889ء میں اس کالج کو ایک دو منزلہ بنگلے میں منتقل کر دیا گیا جہاں پہلے سندھ جیم خانہ واقع تھا۔14نومبر1887ء کو موجودہ عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ وائسرائے ہند لارڈ ڈیفرن نے عمارت کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھا۔ اس موقع پر ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں معززین شہر نے بھی شرکت کی ۔ کالج کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد تعمیری کاموں کا آغاز زور و شور سے ہوا اور تقریباً پانچ سال کی قلیل مدت میں عمارت کی تعمیر مکمل ہوگئی۔

1892ء کالج کا نام ’’سندھ آرٹس کالج‘‘ رکھا گیا جو پورے سندھ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کا واحد ادارہ تھا ۔ اس زمانے میں اس کالج میں پڑھنا ایک بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ سندھ کے علاوہ بھی دوسرے شہروں سے حصول علم کے لیے طلباء اس کالج کا رخ کرتے ،جنہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ رہائش بھی فراہم کی جاتی ۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ کراچی کے باشعور شہری اپنے محسن سیٹھ دیارام کو بھلا دیں جنہوں نے علم و آگہی کے نئے چراغ روشن اور اعلیٰ تعلیم کے دروازے اُن پر وا کیے تھے۔ 

وہ طلباء جو اس سے قبل ممبئی اور دوسرے شہریوں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جاتے تھے انہیں اپنے ہی شہر میں تعلیم کے مواقع میسر آنے لگے۔ کالج کا نام سیٹھ دیارام جیٹھ مل کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ جو اس بات کا اظہار تھا کہ کراچی کے شہری سیٹھ دیارام کا بے انتہا احترام کرتے ہیں اور اُن کی خدمات کو بھرپور انداز میں سراہتے ہیں ۔آہستہ آہستہ کالج کا نام مختصر کر کے ڈی جے سندھ گورنمنٹ کالج ، اب یہ کالج ڈی جے سائنس کالج کے نام سے مشہور ہے۔

محمد بن قاسم روڈ پر واقع اس کالج کی عمارت انتہائی پُرشکوہ اور 129سالہ شاندار تاریخ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کالج کے قریب ایس ایم لاء کالج ‘ برنس روڈ‘ سندھ سیکریٹریٹ‘ پاکستان چوک اور قومی عجائب گھر واقع ہیں۔ حال ہی میں یہاں حکومت سندھ نے پیپلز اسکوائر تعمیر کیا ہے جس میں زیر زمین کار پارکنگ کا وسیع نظام ہے اور شہریوں کی تفریح و طبع کے لئے فوڈ اسٹالز اور بیٹھنے کے لئے جگہ بنائی گئی ہے۔ پودوں اور درختوں سے پیپلز اسکوائر کو خوبصورت بنایا گیا ہے۔ کراچی کی عمارتوں کی تعمیر میں زیادہ تر جے پور اور جودھ پور کے سرخ پتھروں اور جنگ شاہی کے پتھر استعمال کیے جاتے ہیں۔ پتھروں کی کٹائی کے بعد ان کو گھسا جاتا ہے۔ 

بعض عمارتوں کے پتھروں پر نقش و نگار بھی بنائے جاتے ہیں۔ سلاوٹ برادری کو سنگ تراشی کا ماہر تصور کیاجاتا ہے۔کراچی کی بیشتر عمارتیں انہی کی فنی مہارت کا بہترین نمونہ ہے لیکن ڈی جے کالج کی عمارت میں استعمال ہونے والے پتھر اجمیر شریف بھارت سے منگوائے گئے، جب کہ فرش میں استعمال ہونے والی ٹائلز بیلجیم سے درآمد کی گئیں۔آبنوس کی لکڑیوں پر نقش و نگار بنا کر چھت اور دروازے بنائے گئے ۔ باقی میٹریل اپنےملک کا استعمال کیا گیا۔ دلکش اور خوبصورت ڈیزائن سے مرصع یہ دروازے اب کالج میں نہیں ہیں البتہ کیمسٹری ڈپارٹمنٹ میں صرف ایک دروازہ موجود ہے۔

کالج کے پہلے پرنسپل ہونے کا اعزاز پروفیسر ڈاکٹر مولینکس آرویلمسلے Mullineux R. Walmsleyکو حاصل ہوا جو 1887ء سے 1888 ء تک پرنسپل تعینات رہے۔ قیام پاکستان سے پہلے تک اس کالج کے لیے 9پرنسپلوں نے اپنے فرائض انجام دیے۔قیام پاکستان کے بعد سے اب تک 30کے لگ بھگ شخصیات کو اس کالج کا پرنسپل ہونے کا اعزاز حاصل ہوچکا ہے۔ 

ابتداء میں کالج کے پرنسپل کی رہائش کے لیے کالج کے اندر ہی بنگلہ بنایا گیا تھا، جس میں ایک طویل عرصہ تک کالج کے پرنسپل رہائش پذیر رہے۔ تدریسی لحاظ سے یہ کالج ہمیشہ ایک انتہائی اور مثالی درسگاہ رہا ۔قیام پاکستان سے پہلے کالج کا الحاق بمبئی یونیورسٹی کے ساتھ تھا۔ پاکستان بنے کے بعد اس کا الحاق جامعہ کراچی سے ہوا۔ ابتداء میں کالج کا انتظام و انصرام ایک بورڈ کے سپرد تھا۔ 20جون 1948ءکو کالج حکومت کی تحویل میں دے دیا گیا۔ کالج کی لائبریری بلڈنگ کا بڑا حصہ سندھ مسلم کالج کے تصرف میں آگیا اور اب وہاں ایس ایم آرٹس اینڈ کامرس کالج قائم ہے۔ 

کالج میں نہ صرف سائنس بلکہ مذاہب، ادب، قانون، اقتصادیات وغیرہ کی کتب کا ذخیرہ موجود تھا مگر قیام پاکستان کے بعد جب ہندو اساتدہ نے پاکستان کو خیر باد کہا تو وہ قیمتی کتابیں بھی اپنے ساتھ لے گئے تب حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس کالج میں صرف سائنسی علوم کی تعلیم دی جائے۔ اس فیصلے کے بعد باقی ماندہ کتابیں گورنمنٹ کالج حیدرآباد اور گورنمنٹ کالج جامشورو منتقل کردی گئیں۔

ڈی جے کالج کے شعبہ جات میں انگریزی‘کیمیا‘ مائیکرو بیالوجی‘ بائیو کیمسٹری‘ نباتیات‘ حیوانیات‘ اردو ‘ مطالعہ پاکستان ا ور دیگر شعبے شامل تھے بعد میں اکنامکس ‘ سندھی اور ارضیات کے شعبے بھی قائم کیے گئے۔

ڈی جے کالج کا اپنا ایک ہاسٹل میٹھا رام ہاسٹل ہے جس میں 200طلباء کی رہائش کی سہولیات موجود ہیں۔ لیکن یہ ہاسٹل ایک طویل عرصہ سے پاکستان رینجرز کے زیر استعمال ہے ، جس کے باعث کالج میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کو رہائش کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ کالج سے ملحق کالج کی ایک لائبریری ہے۔

کالج سے فارغ التحصیل طلباء و طالبات کی ایک بڑی تعداد نے زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی کا اور پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا۔ ان ملکی اور بین الاقوامی شخصیات میں غلام حسین ہدایت اللہ، بنگلہ دیش کے سابق صدر ضیاء الرحمن ‘ محسنِ پاکستان ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ‘نیوکلیئر سائنسدان ڈاکٹر بدر الاسلام ‘ ناسا کے خلائی سائنسدان شیخ لیاقت حسین‘موجودہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ‘ مسلح افواج کے سربراہان جنرل جہانگیر کرامت‘ جنرل آصف نواز جنجوعہ ‘ ایئرمارشل عظیم دائود پوتہ‘ سابق وزیراعلیٰ سندھ محمد ایوب کھوڑو‘ ذوالفقار علی بھٹو کے بھائی امداد علی بھٹو‘ سوٹ(SIUT)کے سربراہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی‘ بقائی میڈیکل یونیورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر ایف یو بقائی‘ معروف آرتھوپیڈک سرجن اور سابق صوبائی مشیر برائے کھیل ڈاکٹر محمد علی شاہ مرحوم ‘سابق گورنر سندھ محمود اے ہارون‘ معروف سیاستدان مظفر حسین شاہ‘ سابق اسپیکر قومی اسمبلی الٰہی بخش سومرو‘ نثار کھوڑو‘سابق وفاقی وزیر عبدالحفیظ پیرزادہ‘ معروف سیاستدان تاج حیدر‘ سابق وزیراطلاعات نثار میمن‘ سابق صوبائی وزراء جاوید سلطان جاپان والا اور ڈاکٹر صغیر احمدشامل ہیں جبکہ فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے نمایاں شخصیات میں انور مقصود‘ موسیقار سہیل رانا‘ اداکار منور سعید‘ اداکار رضوان واسطی اور دیگر شامل ہیں۔

سابق وائس چانسلر جامعہ کراچی ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی ‘ نبی بخش بلوچ‘ سابق پرنسپل ایس ایم سائنس کالج پروفیسر حشمت اللہ لودھی‘ معروف شاعر شیخ ایاز‘ ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر انیتا غلام علی اسی کالج میں زیر تعلیم رہے۔کھیلوں سے وابستہ شخصیات میں حسن سردار‘ منور زماں‘ شاہد علی خان اور صفدر عباس کے نام نمایاں ہیں۔