• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سالِ نو کے آغاز پر پہلی ”خوشخبری“ یہ آئی ہے کہ مرشد کی مقبولیت میں اچانک اضافہ ہو گیا انہوں نے مقبولیت میں پاکستان کے تمام سیاست دانوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آپ اس دھماکے دار خبر سے یقیناً حیران تو ہوئے ہوں گے کچھ لوگ پریشان بھی‘ آخر مرشد کی مقبولیت میں یہ اضافہ کس الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا نتیجہ ہے کہ نئے سال کا سورج چڑھتے ہی مرشد کی فین فالوئنگ 15ملین سے بھی بڑھ گئی‘ کوئی سیاست دان ان کے مقابل کھڑا نظر نہیں آتا۔ اب مرشد کا مقابلہ صرف ٹک ٹاکر جنت مرزا سے ہے‘ جس کی مقبولیت مرشد سے صرف 2.6ملین فالوورز آگے ہے۔ جنت مرزا اپنی ٹک ٹاک ویڈیوز سے 17.6ملین لوگوں کے دلوں پر راج کررہی ہیں‘ وہ واحد پاکستانی ٹک ٹاکرا سٹار ہیں جو سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ہر طرف چھائی نظر آتی ہیں اور مرشد کی شہرت کو کھلے عام چیلنج کر رہی ہیں۔

مرشد جنت مرزا سے یہ اعزاز بھی چھین لیں گے یا جنت مرزا اپنے چاہنے والوں کے دلوں پر اسی طرح راج کرتی رہیں گی؟ ”چسکا پارٹی“ کے اس مقابلے سے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں‘ لگے رہو منا بھائی ایم بی بی ایس‘ عام آدمی کی حالت تو یہ ہے کہ مرشد سرکار نے اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ سال نو پر آپ کو کوئی دلاسہ ہی دے سکے یا کوئی خوشی کے گیت گائے آپ کو مبارک باد کا ہی کوئی پیغام ارسال کر سکے‘ گزرے دن بہت یاد آتے ہیں جب جیب خالی تھی آمدن نہ ہونے کے برابر تھی پھر بھی ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ کیسے خوب صورت محبتوں بھرے دن تھے کہ گزرے سال کی اداسیاں‘ مایوسیاں پیچھے چھوڑ جاتے۔ اچھی امیدوں‘ جذبوں کے ساتھ نئے سال کا آغاز ان دعاؤں کے ساتھ کیا کرتے کہ نیا سال پہلے سے کہیں بہتر اور خیرو برکت والا ہو‘ اب تو حالت یہ ہے کہ 21 جائے یا 22آئے پہلے سے بدتر صورت ہی نظر آتی ہے ۔ مرشد نے امید تو دلائی تھی کہ گزرا سال خوشیوں بھرا ہوگا۔ افسوس 21بدترین گزرا‘ خدانخواستہ 22اس سے بھی زیادہ برباد نظر آتا ہے۔ مرشد نے سال نو کی پہلی ہی صبح منی بجٹ کی صورت ہماری جو تھوڑی بہت امیدیں تھیں وہ بھی ختم کردیں ۔ میرے منہ میں خاک جو مجھے ایسے برُے خیال آتے ہیں کہ جب مرشد کی شان و شوکت اعلیٰ ترین وزیر خزانہ قومی اسمبلی میں منی بجٹ ٹیبل کررہے تھے‘ اپوزیشن اراکین گھیراؤ کئے ان کی شان میں ”قصیدے“ پڑھ رہے تھے اور ن لیگ کی ایک خاتون رکن تحریک انصاف کی رکن کو تھپڑرسید کررہی تھیں تو دماغ میں مستقبل کا منظرنامہ بڑا ڈراؤنا نظر آیا کہ جب یہ رلے ملے سیاست دان ووٹ لینے عوام کے پاس جائیں گے تو ان کا استقبال کیسا ہوگا؟ ساتھ ہی ساتھ ذہن میں یہ خیال بھی ابھرا کہ مرشد سرکار نے عام آدمی کے پاس آخری آپشن کیا چھوڑا ہے؟ تو جواب مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا کہ بے بس انسان کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ اس بے رحم ظالمانہ نظام سے احتجاجاً کنارہ کرلے‘ معافی کا طلب گار ہوں ان رلے ملے سیاست دانوں نے عام آدمی سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔

سال نو کی پہلی صبح جہلم کے گاؤں ہرن پور میں غربت سے تنگ رکشہ ڈرائیور کی بیوی نے بھوک سے بلکتے‘ سردی سے ٹھٹھرتے اپنے جگر کے تین ٹکڑوں کو کاٹ کر لحد میں اتار دیا‘ خود پر پٹرول چھڑک کر آگ لگانے کی کوشش کی۔ اس دل خراش واقعہ پر مرشد کے کسی چیلے کا ضمیر جاگا نہ ہی کوئی غربت کی ماری اس ماں کی دادرسی کو پہنچا۔ ابھی اس تکلیف دہ خبر کا درد محسوس ہو رہا تھا کہ اسی دوپہر کو خیرپور سے یہ خبر آئی کہ سکھر بیراج کے قریب ایک خاتون نے دو بچوں سمیت نہر میں کود کر زندگی کے دکھوں سے نجات کا آسان حل تلاش کرلیا۔ گھریلو لڑائی جھگڑوں کی وجہ کچھ بھی ہو ہر ایسے واقعہ کے پس منظر میں مالی تنگ دستی اور غربت ہی نظر آئے گا۔ شام ڈھلنے سے پہلے جنوبی پنجاب سے تیسری خبر یہ ملی کہ کھاد کی قلت سے دلبرداشتہ کسانوں نے بوریوں سے بھرے ایک ٹرالر کو لوٹ لیا جس کا جتنا زور چلا کھاد کی بوریاں چھین کر فرار ہوگیا۔ سالِ نو کے پہلے دن کی یہ تین دل خراش خبریں عام آدمی کی وہ کہانیاں ہیں جو مستقبل کے اشارے کررہی ہیں کہ ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں۔ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب مرشد ریاستِ مدینہ کی وکالت کرتے ہیں اور منی بجٹ کے پس منظر میں یہ تڑکا بھی لگائے دیتے ہیں کہ ملک میں خاموش انقلاب آرہا ہے‘ ڈر لگتا ہے کہ کہیں مرشد کی یہ بات سچ ہی ثابت نہ ہو جائے‘ فرق صرف اتنا ہوگا کہ ایسا انقلاب پھر خاموش نہیں ہوگا‘ چیخ چیخ کر اس نظام کو برباد کرنے والوں سے حساب لے گا کہ آخر عام آدمی سے جینے کا حق کیوں چھین لیا گیا؟ کاش! کہیں ثاقب نثار آس پاس نظر آتے تو وہ پوچھتے کہ ”کیا یہ تمہارے باپ کا پیسہ ہے جو لال سبز کارڈ تقسیم کئے جا رہے ہو“ پلے نئیں دھیلہ کردی پھردی میلہ میلہ‘ یہ جو پنجاب کے چند اضلاع میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے 10‘ 10 لاکھ فی خاندان علاج معالجے کی سہولت دی گئی ہے آخر یہ پیسہ کہاں سے آئے گا اس کی ادائیگی کس کی جیب سے ہوگی؟ جبکہ قومی خزانہ بالکل خالی پڑا ہے‘ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے پارلیمنٹ ان شرائط کی بنیاد پر منی بجٹ پاس کرنے کو تیار نظر نہیں آتی اگر ہمارا قومی خزانہ اتنا نکو نک بھر چکا ہے کہ اس میں پڑے نوٹ گل سڑ رہے ہیں تو ریاست مدینہ کے دعوے دار پرائیویٹ اسپتالوں اور ادویات ساز کمپنیوں کے خزانے بھرنے کے بجائے اس کارڈ کو ماہانہ کیش کارڈ میں تبدیل کیوں نہیں کردیتے؟ عام آدمی کے پاس یہ سہولت ہوگی تو اس کی مرضی اس پیسے سے اپنا گھر چلائے‘ کاروبار کرے‘ بجلی‘ گیس کے ناجائز اضافی بل بھرے یا بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرے پھر کوئی فکر نہیں مرشد آگے آئیں یا جنت مرزا جیسے بہت پیچھے رہ جائیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین