• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ میں پناہ کے متلاشی افراد کیلئے مختص رہائش گاہیں معیاری نہیں، ہوم آفس کا اعتراف

راچڈیل (ہارون مرزا)سیاسی پناہ کے متلاشیوں کیلئے مہیا کیے جانیوالے فلیٹس کی حالت زار سامنے آنے پر ہوم آفس کی طرف سے اس امر کا برملا اعتراف کیا ہے کہ وہ تارکین وطن کیلئے دستیاب پناہ گزین رہائشگاہوں مقررہ معیار سے کم ہیں ۔برطانوی ذرائع ابلاغ کی طرف سے اکسبرج ‘ ریسٹ لندن میں 18فلیٹس درجنوں پناہ گزین رہائش پذیر ہیں کی حالت زار کو بے نقاب کیا گیامذکورہ فلیٹس میں کیڑے ‘ نم ‘ پانی کی لیکیج اور انفیکشن سمیت دیگر کئی مسائل کو سامنے لایا گیا ہے ہلنگڈن کونسل کی طرف سے حقائق سامنے آنے پر موقف اختیار کیا کہ معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کو مرکزی لندن کے ایک ہوٹل میں پناہ کی رہائش کے بارے میں بھی شکایات موصول ہوئی ہیں جسے ہوم آفس پناہ کے متلاشی خاندانوں کو رہنے کے لیے استعمال کرتا ہے وہاں رپورٹ کی گئی پریشانیوں میں بیڈ بگ کے شدید انفیکشن، چھت سے پانی کا رسنا، بجلی کی خرابیاں، اور پچھلے مہینے گراؤنڈ فلور انیکسی میں آگ لگنا شامل ہے جس کی وجہ سے ہوٹل کو خالی کرنا پڑایہ دونوں سائٹیں ہوم آفس کی جانب سے ایک نجی فرم کے زیر انتظام ہیں۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کمپنی کے تین ڈائریکٹرز کو گزشتہ سال کے درمیان خطیر منافع کی ادائیگی کی گئی تھی تیسری سابق فوجی جگہ پر پناہ کے متلاشی افرادکی رہائش کے حالات کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے کمپنیز ہاؤس میں جمع کرائے گئے اکاؤنٹس کے مطابق کمپنی کا آپریٹنگ منافع تیزی سے بڑھا دس سالہ معاہدے ممکنہ طو رپر 2029تک چلنے کی توقع کی جا رہی ہے ہلنگڈن کونسل نے 22 دسمبر کو اکسبرج فلیٹس کا فوری معائنہ کیا پناہ کے متلاشیوں نے ذرائع ابلاغ کے سامنے انکشاف کیا کہ مسائل کی نشاندہی کے بعد سرگرمی کی لہر شروع ہوئی، ٹھیکیداروں نے کچھ رہائش گاہوں کو گہری صفائی اور دوبارہ سجانے کے لیے بھیجا تھاباور کیا جارہا ہے کہ پناہ گزینوں کو کسی دوسری محفوظ جگہ پر منتقل کیا جائے گا۔علاوہ ازیںبرطانوی ہوم آفس نے دنیا کے مختلف تنازعات والےخطوں کے پناہ کے متلاشیوں کو متنبہ کیا ہے کہ ان کا وہاں واپس جانا غیر محفوظ نہیں ہے یمن سے تعلق رکھنے والے ایک 36 سالہ اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ دونوں کے سیاسی پناہ کے دعوے سرکاری اہلکاروں نے اس بنیاد پر مسترد کر دیے ہیں کہ انہیں اپنے آبائی ممالک میں خطرہ ہوگایہ انکشاف ایک 25 سالہ شامی پناہ گزین کے کیس کے بعد ہوا ہے جسے کہا گیا تھا کہ اس کے لیے شام واپس جانا محفوظ رہے گا ہوم آفس کی اپنی رہنمائی کے ساتھ ساتھ یو این ایچ سی آر کی طرف سے شام افغانستان اور یمن جیسے ممالک میں پناہ گزینوں کی واپسی کے خطرات سے خبردار کیا گیا ہے مذکورہ شامی شخص جس نے مئی 2020 میں برطانیہ میں پناہ گاہ کی تلاش کی تھی، کو ہوم آفس کے ایک اہلکار نے بتایا جس نے اس کے سیاسی پناہ کے دعوے کو مسترد کر دیا تھا کہ اس کے لیے واپس آنا محفوظ رہے گاوہ 2017 میں بشار الاسد کی فوج میں جبری بھرتی ہونے سے بھاگا تھا یہ کہتے ہوئے کہ اسے دوسرے شامیوں کو مارنے پر مجبور کیا جاتاہے انہوں نے کہا کہ اگر انہیں شام واپس جانے پر مجبور کیا گیا تو انہیں ڈرافٹ ایورڈر کے طور پر نشانہ بنایا جائے گا گرفتار کیا جائے گا حراست میں لیا جائے گا اور قتل کر دیا جائے گا۔ ہوم آفس نے قبول کیا ہے کہ وہ جبری بھرتی سے فرار ہوا تھا انکاری خط میں کہا گیا ہے یہ قبول نہیں کیا جاتا ہے کہ آپ کو شامی عرب جمہوریہ واپسی پر آپ کی بے بنیاد سیاسی رائے کی وجہ سے ظلم و ستم کے خطرے یا سنگین نقصان کے حقیقی خطرے کا سامنا کرنا پڑے گاتاہم اس شخص کے وکلاء کو فیصلہ واپس لینے کا ایک خط موصول ہوایہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ آپ کے کلائنٹ کے تحفظ کے دعوے کو مسترد کرنے کا فیصلہ ہوم آفس کی شائع شدہ ملکی پالیسی کی پوزیشن کے مطابق نہیں ہے اور اس لیے سیاسی پناہ دینے کے لیے اسے واپس لے لیا گیا ہے یمن سے تعلق رکھنے والے سیاسی پناہ کے متلاشی کے بارے میں سامنے آنیوالی معلومات کے مطابق ہوم آفس نے جون2021 میں اسکے سیاسی پناہ کے دعوے سے انکار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ اپنے ملک واپس جا سکتا ہے کیونکہ حکام یہ قبول کرنے کو تیار نہیں کہ یمن میں مسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ وہاں کے شہری برطانیہ میں پناہ لے سکیں سیاسی پناہ کے متلاشی اس 36سالہ اکاؤنٹنٹ جو شادی شدہ ہے اور اس کے دو بچے ہیں، کو مختلف جسمانی اور ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا ہے ایک اور معاملے میں 21سالہ افغان جو اپنے مدرسے میں طالبان کی طرف سے جبری بھرتی کے خوف سے فرار ہو کر برطانیہ پہنچا کو بھی ذرائع کے مطابق ہوم آفس حکام نے کہا کہ وہ پناہ گزین کی حیثیت منسوخ کرکے واپس افغانستان بھیجنا چاہتے ہیں کیونکہ اسے بھنگ کے کیس میں سزا ہو چکی تھی ۔

یورپ سے سے مزید