اسلام آباد (طاہر خلیل ) عمران خان حکومت کا یہ بڑا معرکہ تصور ہو گاکہ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد برطانیہ سے مجرموں کے تبادلے کا سمجھوتہ طے کرانے میں کامیاب ہو جائیں جیسا کہ پیر کو یہ اعلان کیا گیا کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرموں کے تبادلے کے معاہدے (Extradition Treaty)کے معاہدے کے مسودے کی منظوری دے دی گئی۔
اب یہ معاہدہ حتمی منظوری کیلئے وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا حکومت نے پاکستان اور برطانیہ سے مجرموں کے تبادلے کیلئے گزشتہ برس ایک وزارتی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں وزیر داخلہ شیخ رشید ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری ، مشیر احتساب شہزاد اکبر اور متعلقہ وزارتوں کے سیکرٹریز شامل تھے۔
معاہدے کا جو مسودہ سامنے آیا ہے اس کے مطابق دونوں ملک اپنے سزا یافتہ مجرموں کو ایک دوسرے کے ممالک واپس بھیج سکیں گے۔
معاہدے سے صرف ایسے شہریوں کو واپس لانے کی اجازت ہو گی جن کو متعلقہ عدالتیں سزا سنا چکی ہیں ، اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان نے جس مسودے کو منظور کیا ہے اس پر برطانیہ سے ابھی مشاورت کا عمل مکمل کرنا باقی ہے ، اگر برطانیہ نے سمجھوتے کے مسودے سے اتفاق کیا تو اس پر دستخط ہو جائیں گے ۔
عمران عہد حکومت میں برطانیہ کے ساتھ مجرموں کے تبادلے کے سمجھوتے پر ڈیڈ لاک کوئی نئی بات نہیں جون2019 میں ابھی نواز شریف لندن نہیں گئے تھے ، پاکستان نے الطاف حسین اور دیگر مطلوب مجرموں کی واپسی کیلئے برطانیہ سے ایکسٹراڈیشن ٹریٹی کی پیش کش کی ۔
برطانوی وزیرخارجہ جریمی نیٹ اوروزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی مشترکہ نیوز کانفرنس میں برطانوی وزیر خارجہ نے دو ٹوک کہہ دیا تھا ،برطانیہ ایسے ملکوں کے ساتھ مجرموں کے تبادلے کا سمجھوتہ نہیں کرتا جہاں طالع آزمائی سے بار بار جمہوری حکمرانی ختم کی جاتی رہی ہو ۔
ماہرین اور مبصرین اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ مشرف دور کے تین وزرائے داخلہ جنرل ( ر) معین الدین حیدر ، آفتاب احمد خان شیر پائو اور فیصل صالح حیات سر توڑ کوششیں کرتے رہے کہ ایم کیو ایم کے مفرور سابقہ سربراہ سمیت دیگر کو واپس لائیں تاکہ ان کے خلاف مقدمے انجام کو پہنج سکیں ۔
الطاف حسین کے خلاف پاکستانی عدالتوں میں 700 سے زیادہ سنگین جرائم کے مقدمے گزشتہ 25 سال سے پڑے ہوئے ہیں ، ان کے بعد پی پی پی حکومت آگئی تو اسکے سامنے بھی یہی ایجنڈا رکھ دیا گیا۔