جب سے ہم پیدا ہوئے ہیں ہر 365دن گذرنے کے بعد یہی مرحلہ آتا ہے کہ جب گئے سال کو الوداع کرنے اور نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے لئے لوگ اپنے اپنے طریقے سے خوشیاں منا رہے ہوتے ہیں ۔ جانے والا سال یادیں بن جاتا ہے اور آنے والے سال سے اُمیدیں وابستہ کرلی جاتی ہیں۔ عموماً ماہ وسال کی رخصتی کا یہ مرحلہ خوشی کا باعث بنتا ہے ۔ جانے والے سال کے ڈوبتے سورج کے ساتھ ہی کچھ چیزیں ماضی کا حصہ بن جاتی ہیں اور نئے سال کے اُبھرتے سورج کے ساتھ کچھ نئی امنگیں اور خواہشات جنم لیتی ہیں، اسی لئے نئے سال کا استقبال دعاؤں اور خوش گمانیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔
دنیا بھر میں لوگ اپنی اپنی معاشرتی روایات کے مطابق نیو ایئر نائٹ مناتے ہیں۔ کہیں چراغاں ہوتا ہے تو کہیں آتش بازی، کہیں ناچ گانے ہوتے ہیں تو کہیں اجتماعی دعائیں کی جاتی ہیں، شاید صرف ہمارے ملک میں نیا سال گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور سائیلینسر نکلی موٹر سائیکلوں کی گھڑگھڑاہٹ سے شروع ہوتا ہے اور کراچی میں تو اس رات ’’ سب راستے سب منزلیں ‘‘ سمندر کی طرف ہوتی ہیں ایک عجیب دیوانگی کا عالم ہوتا ہے اور اس میں زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں روز مرہ زندگی میں تاریخیں اور دن بھی یاد نہیں ہوتے نہ انہیں نئی سال سے کچھ لینا دینا ہوتا ہے ،بس بھیڑ چال کے تحت جو سب کو کرتے دیکھتے ہیں یہ نوجوان بھی وہی کر رہے ہوتے ہیں۔
’’ چار دناں دی دنیا اے کچھ کھالے، پی لے، موج اڑا ‘‘
پر یقین رکھنے والے یہ نوجوان عجیب وغریب انداز سے نئی سال کا استقبال کرتے ہیں اور پھر پورا سال اسی موج مستی میں، فضولیات و لغویات میں ڈوبے دوبارہ اگلے نئی سال کا انتظار شروع کر دیتے ہیں۔ خدا وہ وقت لائے جب انہیں احساس ہو کہ ہر نئے سال کے ساتھ عمل و جدوجہد کرنے کا وقت بھی نکلا جارہا ہے ، زندگی صرف مہنگے موبائل ، بائیک یا پھر باپ کے پیسے سے شاندار گاڑی حاصل کرنے کے لئے نہیں ملی ،ملک کی حالت دیکھیں ،اب تو ہر صورت ہوش کے ناخن لے لینے چاہیے اور جاگ جانا چاہیے ۔
بچپن سے لے کر اب تک ہر بجٹ کے ساتھ شور سنتے آئے ہیں کہ مہنگائی ہوگئی، مہنگائی ہوگئی ۔ جب ہم لڑکپن کی عمر میں تھے تو گھر کے بڑوں کی باتوں پر ہنستے تھے کہ یہ ہر سال جب بھی بجٹ آتا ہے ایک جیسی باتیں کرتے ہیں کہ مہنگائی ہوگئی، ٹیکس لگ گئے لیکن اب ہم بھی پچھلے دس بیس سال سے یہی بات کررہے ہوتے ہیں کہ مہنگائی ہوگئی۔
پہلے کہا جاتا تھا کہ، ’’مکھن لگاؤ بھیا !مکھن سے کام ہوگا‘‘۔
لیکن پھر مکھن اتنا مہنگا ہوگیا کہ لوگوں نے مکھن لگانا چھوڑ کر نمک مرچ لگانا شروع کردیا تھا لیکن اس بار نمک مرچ پر بھی ٹیکس لگاگیاہے۔ یعنی ’’ مکھن‘‘ لگانا تو مشکل ہوا ہی تھا اب ’’ نمک مرچ ‘‘ لگانا بھی عام آدمی کے بس کی بات نہیں رہی خصوصاً خواتین میں بہت سراسیمگی پائی جارہی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس منی بجٹ کو اگر ’’خواتین دشمن ‘‘ بجٹ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، کیوںکہ نمک مرچ سے سب سے زیادہ واسطہ خواتین کو ہی پڑتا ہے زیادہ تر پکاتی بھی وہی ہیں اور لگاتی بھی وہی ہیں، مرد تو اگر صحافی ہوں تب ہی انہیں اس کی ضرورت پڑتی ہے شاید اسی لیے صحافی حضرات نمک مرچ پر ٹیکس لگنے سے بہت زیادہ پریشان ہیں اور وہ اس منی بجٹ کو ’’صحافی دشمن ‘‘ کہہ رہے ہیں۔
خواتین اور صحافیوں کے لئے ہمارا مخلصانہ مشورہ تو یہی ہے کہ ’’ مکھن " بھی مہنگا ہے، اس لئے وہ لگانا بھی چھوڑیں اور اب چونکہ نمک مرچ بھی مہنگا ہوگیا اس لئے وہ لگانا بھی مجبوراً چھوڑ نا ہی پڑے گا اب تو صرف اور صرف ’’ چونا ‘‘ ٹیکس سے مبرا ہے ،وہ آپ جتنا چاہے لگا سکتے ہیں ویسے لگاتے تو پہلے بھی ہوں گے۔ ہماری قوم چونا لگانے میں بھی کسی سے کم نہیں لیکن اب دھڑلے سے لگائیں ،تاکہ حکومت کو کچھ احساس تو ہو کہ اس نے کیا کر دیا ہے ! بس یہ نہ ہو کہ اگلی بار چونے پر بھی ٹیکس لگ جائے اور سب ہاتھ ملتے رہ جائیں کہ اب کیا لگائیں؟؟ اس لئے اس بار نئی سال کی خوش گمانیوں میں یہ اضافہ بھی کرلیتے ہیں کہ اللہ کرے نئی سال میں ’’مکھن ‘‘ اور ’’ نمک مرچ ‘‘ دونوں لگانا آسان ترین ہوجائے اور ’’چونے ‘‘ پر اتنا ٹیکس لگ جائے کہ کوئی کسی کو ’’ چونا ‘‘ نہ لگا سکے۔
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی، شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئی سال کئی