• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرپشن، محاذ آرائی، شدید مہنگائی، غربت کی لکیر کے نیچے بڑھتی انسانی تعداد، انتہا پسندی، فرقہ پرستی، عدم برداشت کی خبروں کے ہجوم میں ایک ایسی خبر بھی آئی جس سے ہمیں قوم کی حیثیت سے آگے بڑھنے کا احساس ہوا کہ ایک خاتون نے پہلی بار سپریم کورٹ کی جسٹس کا حلف اٹھایا ہے۔

ایک مرد چیف جسٹس، ایک خاتون جسٹس سے حلف لے رہا ہے۔ ہمارے ارد گرد جو انتشار برپا ہے۔ ایک معاونِ خصوصی برائے وزیراعظم کے مستعفی ہونے پر جو ہا ہا کار مچی ہے۔ اس میں ظاہر ہے کہ ایک خاتون کے سپریم کورٹ کی جسٹس بننے کی خبر شہ سرخی نہیں بن سکتی۔

حالانکہ تاریخ، ثقافت، عدل اور عورت پر جبر کی طویل روایات کے تناظر میں یہ شہ سرخی بننے کی اہل تھی۔ تاریخ جب غیر جانبداری سے لکھی جائے گی تو یہی اس عہد کا بڑا واقعہ ہوگا۔یہ پاکستان کے مرد غالب معاشرے میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ پاکستان کے لیے باعث وقار اور پوری دنیا کے لیے ایک خوشگوار پیغام ہے۔

اسے آپ جنوبی ایشیا کی تاریخی ستم ظریفی کہیں کہ یہ دنیا کا سب سے گنجان آباد علاقہ جہاں غربت و افلاس نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ جہاں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ماحول قطعی نہیں ہے۔ جہاں خواندگی کی شرح بھی بہت کم ہے۔

جہاں معیار زندگی بہت پست ہے۔جہاں جاگیردار، سردار، سرمایہ دار، مافیا، ٹھیکیدار وغیرہ انسانوں کو اب بھی غلام بنائے ہوئے ہیں۔ وہ علاقہ خاتون کو ملک کی سربراہی سونپنے میں پوری دنیا سے آگے رہا ہے۔ سری لنکا میں بندرانائیکے۔ 1960 میں وزیر اعظم بن گئی تھیں۔ پھر 1970 میں اندرا گاندھی بھارت کی وزیر اعظم بنیں پھر 1988میں شہید بے نظیر بھٹو پاکستان میں منتخب وزیر اعظم۔

اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بھی۔ پھر بنگلہ دیش میں خالدہ ضیا اور آج کل حسینہ واجد شیخ۔ستم ظریفی اس لیے کہ عورت کے سربراہِ حکومت بننے سے جنوبی ایشیا میں عورت کی عمومی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ آج بھی عورت نا انصافی کا شکار ہے۔ بیٹی کی پیدائش پر آج بھی زچہ کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔ غیرت کے نام پر بہنیں، بیٹیاں ہلاک بھی کی جاتی ہیں۔ ایسے سماجوں میں ایک خاتون کا وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچنا سماجی شعور کی بلندی کہا جائے یا حادثاتی فیصلے۔

جنوبی ایشیا میں خیر و شر کے درمیان کشمکش جاری رہتی ہے۔ علم اورجہالت ایک دوسرے کے خلاف صف آرا۔ بیماریاں علاج کو ترستی رہتی ہیں۔ زمیندار اور ہاری کے درمیان ظلم و جبر کا رشتہ صدیوں سے اسی طرح قائم ہے۔ جمہوری نظام کے باوجود اقلیت اکثریت پر غالب رہتی ہے۔ بھارت میں اونچی ذات کے لوگوں کی نچلی ذات کے انسانوں پر بربریت کئی ہزار سال سے اب تک چل رہی ہے۔پاکستان میں بھی اعلیٰ اور ادنیٰ ذات کے مسائل ہیں۔

برادریاں قانون کے نفاذ میں حائل ہیں۔ فرقہ واریت نے ہلاکتوں کی فصلیں کاشت کی ہیں۔ ہم مجموعی طور پر پیچھے جارہے ہیں۔ کبھی کبھی آگے بڑھنے کی ایسی خوشبو آجاتی ہے جس سے ذہن معطر ہوجاتے ہیں۔اس صدی میں جہاں جہاں عورت کی حکمرانی ہے،وہاں زندگی میں عمدگی عروج پر ہے۔

اصل نکتہ تو یہ ہے کہ ان معاشروں میں بنیادی مسائل حل کرلیے گئے ہیں۔ وہاں حکمرانی کے نظام کی ساری سطحیں فعال اور متحرک ہیں۔ وہاں بلدیاتی اداروں کو با اختیار بنانے کے لیے اپوزیشن کو کپکپاتی سردی میں دھرنے نہیں دینے پڑتے۔ دنیا دانتوں میں انگلی دبالیتی ہے۔

وہ جب کراچی میں جماعت اسلامی کے کئی ہفتوں سے جاری مسلسل دھرنے کا سبب یہ جانتی ہے کہ یہاں میونسپل اداروں کے مالیاتی اختیارات منتخب صوبائی حکومت نے ضبط کر رکھے ہیں اور عوامی ہمدرد ہونے کی دعویدار ایک سیاسی پارٹی شہری حکمرانوں کو وہ طاقت نہیں دینا چاہتی جو سارے ملکوں میں دی جارہی ہے۔

جرمنی کی اینجلا مارکل کو تو پوری دنیا کی عورتیں ہی نہیں مرد بھی سلام پیش کررہے ہیں کہ اس نے اپنے دَور میں اپنے ملک کی کھوئی ہوئی عظمت واپس دلائی۔ اس کے خاوند نے اپنی بیوی کے اس عہدے سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ دونوں ایک فلیٹ میں رہتے رہے۔

جرمنی جیسے ترقی یافتہ طاقت ور یورپی ملک کی سربراہ صرف دفتری اوقات میں سرکاری رہائش گاہوں میں نظر آتی تھیں۔ ہمارے ہاں جب کوئی حکمران بنتا ہے تو وہ اور اس کے سارے رشتے دار ایوان صدر یا وزیر اعظم ہائوس میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ اپنی رہائش گاہوں کو کیمپ ایوان صدر یا کیمپ وزیر اعظم ہائوس بنادیا جاتا ہے۔ وہ اپنے سارے حکومتی سال غریب عوام کے خرچ پر گزارتے ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ کی جسٹس کے طور پر بلندی یقیناً ایک تاریخی موڑ ہے۔ فیصلہ کن صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ ذیلی عدالتوں میں ناداروں بالخصوص مائوں بیٹیوں اور بہنوں کو انصاف ملنے لگے۔ وہاں عدالتوں کے قاصد، پیش کار، ریڈر، مظلوموں سے حق الخدمت لینا بند کردیں۔ عورت کو انصاف سستا بھی ملے اور جلد بھی۔

مقامی کچہریوں میں عورتوں کو وقار ملے۔ ان کے لیے خصوصی انتظامات کیے جائیں۔ بھیڑ بکریوں کی طرح نہ ہانکا جائے۔ جیلوں میں انہیں آبرومندانہ طریقے سے رکھا جائے ان کی عصمت محفوظ رہے۔ہم جہاں جسٹس عائشہ ملک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پہلی سپریم کورٹ جسٹس بننے پر مبارک باد دیں گے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کو تاریخی مرحلہ مکمل ہونے پر لائق تحسین قرار دیں گے۔ وہاں تمام معزز فاضل منصفوں سے ایسا نظام وضع کرنے کی التجا کریں گے کہ ایک عام عدالت سے لے کر ہائی کورٹ، سپریم کورٹ تک فریادی عورتوں کے لیے خصوصی سہولتوں کا اعلان کیا جائے تاکہ پاکستان کی عورت کو یہ پیغام ملے کہ ایک خاتون کا اس عہدے تک پہنچ جانا ہر پاکستانی عورت کے لیے ایک خوشگوار پیغام ہے۔

پاکستانی معاشرہ بھی ہدیۂ تبریک کے لائق ہے کیونکہ ایک خاتون کا سپریم کورٹ کا جسٹس بننا اس معاشرے میں برداشت، تحملاور روشن خیالی کی علامت ہے۔ ورنہ اس مرحلے کی بھی مزاحمت ہوسکتی تھی۔ مرد غالب معاشرے کے حکمران طبقے کی طرف سے۔

مرد وکلاء کی جانب سے، جاگیرداروں، انتخابیوں کی طرف سے۔ اس روشن خیال اقدام کی اگر سماج کی جانب سے کوئی منظّم مزاحمت نہیں ہوئی، ہمارے مذہبی حلقوں نے اس پر کوئی مخالفانہ ردّ عمل ظاہر نہیں کیا تو کیا یہ تبدیلی کا اظہار نہیں ہے؟ جب تاریخ میں اس سماجی پیش رفت کا ذکر آئے گا تو یہ بھی لکھا جائے گا کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی اور عمران خان وزیر اعظم کے منصب پر فائز تھے۔

تازہ ترین