• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انجم قدوائی

ایک بادشاہ کی سات بیٹیاں تھیں۔ وہ ان سے بےحد محبّت کرتا اوران کے ہر آرام کا خیال رکھتا تھا۔

ایک بارجب دستر خوان سجا ہوا تھا سب ساتھ کھانے پر بیٹھے تھے کہ اچانک بادشاہ نے ا پنی بیٹیوں سے ایک سوال پوچھا کہ تم سب مجھے کتنا چاہتی ہو ۔

بڑی شہزادی نے کہا’’ با با! میں آپ کو گلاب جامن کی طرح چا ہتی ہوں‘‘ ۔بادشاہ نے خوش ہوکراس کو چار گاؤں دے دیئے ۔

دوسری نے کہا’’ میں آپ کو بر فی کی طرح چاہتی ہوں‘‘ ۔بادشاہ نےاس کو کافی بڑا علاقہ انعام میں دے دیا ۔ تیسری لڑکی نے کہا’’ میں آپ کو امر تی کی طرح چاہتی ہوں ۔۔اسے بھی بادشاہ نے بہت زمین جائیداد دی۔ اسی طرح وہ سب سے پوچھتا گیا اور سب کو مال ودولت ملتی رہی۔ ساتویں لڑکی سے جب بادشاہ نے پوچھا بیٹی تم مجھے کتنا چاہتی ہو تو اس نے بہت پیار سے کہا۔ ’’ با با میں آپ کو نمک کے برا بر چاہتی ہوں ۔یہ سن کر بادشاہ کو جلال میں آگیا‘۔ کہنے لگا ’’تمھاری بہنیں مجھ سے اتنا پیار کرتی ہیں اور تم نمک کے برا بر؟‘‘ 

وہ بہت نا راض ہوا اور چھوٹی بیٹی کو محل سے نکال دیا اور کہا اب کبھی یہاں قدم نہ رکھنا ۔ وہ جنگل کی طرف چلی گئی۔ پتّوں اور لکڑیوں سے ایک جھونپڑی بنا کر وہاں رہنے لگی۔ بھوک لگتی تو جنگل کے پھل کھا لیتی ۔ایک دن جب وہ سوکر اٹھی تو دیکھا کہ رنگ برنگی چڑیوں کے پر ہر طرف بکھرے پڑے ہیں اس نے ان پروں کو جمع کیا اور ایک چھوٹا سا ہاتھ کا پنکھا بنا لیا۔ دوسرے دن اس کومزید پر مل گئے اس نے بہت سارے پر اکٹھاکر کے کئی پنکھے بنا لیے اور جنگل کے کنارے سڑک کے پاس جاکر بیٹھ گئی، اپنا چہرہ چادر سے ڈھانپ لیا، جو وہاں سےگزرتا پنکھا ضرور خریدتا۔ 

اتنے خوب صورت پنکھے انھوں نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ ایک بار ایک شہزادے کا ادھر سے گزر ہوا اس نے خوبصورت پنکھے سارے خرید لیئے، پھر شہزادی سے پوچھا تم کون ہو ۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا اس کے خوبصورت ہاتھ بتا رہے تھے کہ اُس نے کبھی ایسا کام نہیں کیا تھا، پنکھے بنا نے کی وجہ سے اُس کی انگلیاں زخمی تھیں۔ شہزادی پنکھے بیچ کر اپنی چھونپڑی کی طرف جانے لگی تو شہزادہ اس کے پیچھے جنگل میں آگیا۔ وہ بضد تھاکہ شہزادی اپنے بارے میں بتائے کہ وہ تنہا اس جنگل میں کیوں رہتی ہے، مجبوراََ شہزادی کو سب کچھ بتانا پڑا۔ 

 شہزادے نے واپس جاکر اپنے والدین سے سارا ماجرا سنا یا ۔ان لوگوں کو بھی دکھ ہوا، انہوں نے اپنے بیٹے کی شادی شہزادی سے کرنے کا ارادہ کر لیا اور پھر بارات لے کر جنگل میں گئے، دونوں کی شادی ہوگئی، مگر شہزادی اپنے والد کو بہت یاد کر تی تھی وہ خوش نہیں رہتی تھی۔ ایک دن اُس نے شہزادے سے کہا کہ وہ اپنے والدین سے ملنا چاہتی ہے ۔ شہزادے نے اس کی خواہش پر زبر دست دعوت کا انتظام کیا اور بادشاہ کو دعوت دی۔ شہزادی نے کہا سارا انتظام آپ دیکھئے، مگر اپنے والدین اور بہنوں کے لیئے کھانا میں خود تیار کروں گی ۔ سارے مہمان آگئے کئی دستر خوان ایک ساتھ لگے اور بادشاہ ،شہزادیوں کےلیے اندر انتظام کیا گیا ۔

وہ جب کھا نا کھانے بیٹھے تو ان کی بیٹی سامنے آکر بیٹھ گئی ۔اس نے نقاب پہن رکھا تھا ۔ جب بادشاہ نے پہلا نوالہ لیا تو کھانے میں نمک نہیں تھا، دوسری ڈش نکالی، وہ بھی بغیر نمک کے تھی، تب ان کو بہت غصّہ آیا کہ مجھے بلا کر یوں بغیر نمک کا کھا نا کھلا یا گیا ۔تب چھوٹی شہزادی نے اپنی نقاب ہٹائی اور کہا ،’’با با ۔۔۔میں آپ کو نمک کے برا بر چاہتی ہوں ۔۔یہی کہا تھا ناں میں نے ۔نمک کے بغیر کسی چیز میں لذّت نہیں ہوتی ۔‘‘

بادشاہ چونک اٹھا ۔۔پھر اُس نے آگے بڑھ کر بیٹی کو گلے لگا لیا اور معافی مانگی۔ بہنوں نے بھی معافی مانگی اور اپنی بہن کو گلے لگایا ۔۔اور شہزادی نے سب کوکُھلے دل سے معاف کر دیا۔ مگر ان سب کو احساس دلا دیا کہ وہ غلطی پر تھے۔