مرزا عظیم بیگ چغتائی (رومانی )
اصل نام مرزا عظیم بیگ چغتائی ، تخلص شبنم اور قلمی نام شبنم رومانی تھا ۔وہ 30 دسمبر 1928 ء کو شاہ جہاں پور میں پیدا ہوئے ۔ بریلی کالج سے بی۔کام کا امتحان پاس کیا ۔ 1950 ء میں پاکستان آگئے اور پاکستان آکر کراچی میں سکونت اختیار کی ۔ یہاں آکر اسٹیٹ بنک میں ملازم ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد منسٹری آف ڈیفینس میں ملازمت کر لی ۔
ایک سہ ماہی رسالہ " اقدار " کے نام سے جاری کیا ۔ شعر و شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا ۔ شبنم رومانی کی شاعری موضو ع کے اعتبار سے الفاظ کو نہایت موثر انداز سے استعمال کرنے کا ایک بہترین نمونہ ہے ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آزاد نظموں کو مثالی بنانے کا سہرا شبنم رومانی کے سر ہے ۔ ان کی شاعری کی پہلی کتاب جو کہ طنز و مزاح پر مبنی ہے " مثنوی سیر کراچی " کے نام سے 1959 ء میں شائع ہوئی تھی ۔ دیگر تصانیف میں " جزیرہ " ، " تہمت " ، اور " دوسرا ہمالہ " شامل ہیں ۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ کریں۔
لمحوں کا پتھراؤ ہے مجھ پر، صدیوں کی یلغار
میں گھر جلتا چھوڑ آیا ہوں دریا کے اس پار
کس کی روح تعاقب میں ہے سائے کی مانند
آتی ہے نزدیک سے اکثر خوشبو کی جھنکار
جمیل الدین عالی
جمیل الدین عالی کا اصل نام جمیل الدین احمد خان تھا جبکہ جمیل الدین عالی قلمی نام تھا ۔ جمیل الدین عالی 20 جنوری 1925 ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ پاکستان آکر 1951 ء میں سی ایس ایس کا امتھان پاس کیا اور پاکستان ٹیکسیشن سروسز میں خدمات انجام دیں ۔ 1967 ء میں نیشنل بنک سے وابسطہ ہوئے۔ عالی جی نے شاعری میں گیت ، غزل، دوحے کہے ۔
ان کا لکھا ہوا گیت جیوے جیوے پاکستان مشہور اور مقبول ترین گیتوں میں شمار ہوتا ہے ۔ شاعری کے علاوہ انہوں روزنامہ جنگ میں بھی لمبے عرصہ تک کالم لکھے ۔ ان کے لکھے ہوئے ملی نغمے آج بھی ایک شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ انکی تصانیف میں " اے میرے دشت سخن " ،" باگاہ وطن " ، " بس اک کوش " ، " بساط" ، " شاعری دوہے "، " غزلیں " وغیرہ ہیں اس کے علاہ نثر میں بھی تصانیف موجود ہیں۔ نمونہ کلام:
ہم کو یورپ میں کراچی کی فضاء یاد رہی
وہی گرمی وہی مرطوب ہوا یاد رہی
ایک ہنگامہ ہے لندن مگر اس میں بھی ہمیں
تیرے ہی دل کے دھڑکنے کی صدا یاد رہی
حمایت علی شاعر
14 جولائی 1926 ء کو اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے ۔ تقسیم ہند کے بعد 1951میں پاکستان آکر ریڈیو پاکستان میں ملازمت اختیار کی ۔ حیدر آباد سے اردو میں ایم ۔اے کیا۔ ابتدا ء درس و تدریس کا پیشہ اختیا ر کیا ۔ابتدا ء میں افسانہ نگاری کی مگر پھر شعر و شاعری کا شوق ہوا اور بحیثیت شاعر اپنی پہچان بنائی ۔ ایک نامور شاعر بن کر ادبی دنیا میں سامنے آئے ۔
حکومت پاکستان نے انکی خدمات کے عوض انہیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا ، اس کے علاوہ نگار ایوارڈ ، رائٹر گلڈ آدم جی ایوارڈ ،عثمانیہ گولڈ میڈل بھی ملے ۔ شاعری میں بہت سے ایسے پیرائے وضع کئے جو پہلے موجود نہ تھے ۔ فلموں کے لئے بھی متعدد گیت لکھے ۔ تصانیف میں عقیدت کا سفر ، آئینہ در آئینہ ،ہارون کی آواز ،تجھ کو معلوم نہیں ،آگ میں پھول ،شکست آرزو،تشنگی کا سفر ، اور اس کے علاوہ بھی کئی تصانیف شامل ہیں۔ نمونہ کلام :
اب بتاؤ جائے گی زندگی کہاں یارو
پھر ہیں برق کی نظریں سوئے آشیاں یارو
پھول ہیں کہ لاشیں ہیں ، باغ ہے کہ مقتل ہے
شاخ شاخ ہوتا ہے دار کا گماں یارو
دلا ور فگار
دلاور حسین اصل نام ، فگا ر تخلص اور قلمی نام دلاور فگار ۔ 8جولائی 1929ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے ۔ ان کا تعلق شاعروں اور ادیبوں کے خاندان سے تھا ۔ لہذا یہ کیسے ممکن تھا کہ اس کا اثر ان پر نہ آتا شروع میں دلاور فگار نے سنجیدہ شاعری کی، مگر بعد میں وہ مزاح کی طرف مائل ہوگئے اور بحیثیت مزاح نگار شاعر بہت جلد مقبول ہو گئے ۔
دلاور فگار نے ایم اے معاشیات کے علاوہ ایم اے اردو میں گولڈ میڈل حا صل کیا۔ کچھ عرصہ کراچی کے ایک کالج میں اردو کی تدریس بھی کی ۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بھی بہت سے پروگراموں میں حصہ لیا اور بہت شہرت حاصل کی ۔ ان کی تصانیف میں ستم ظریفی ، شامت اعمال ،از سر نو ، انگلیاں فگار اپنی ، مطلع عرض ہے ، خدا جھوٹ نہ بلوائے ، فی سبیل اللہ شامل ہیں ۔ نمونہ کلام
حاکم رشوت ستاں فکر گرفتاری نہ کر
رہائی کی کوئی آسان صورت، چھوٹ جا
میں بتاؤں تجھ کو تدبیر رہائی ، مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیا ہے ، دے کے رشوت چھوٹ جا
اد ا جعفری
عزیز جہاں اصل نام ، ادا تخلص اور قلمی نام ادا جعفری ، 22 اگست 1924ء کو بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ ابتدا میں بدایوں کے نام سےشاعری کی لیکن شادی کے بعد ادا جعفری کے نام سے شعر کہنا شروع کئے اور اسی نام سے مشہور ہوئیں ۔ ان کی پہلی غزل 1945 ء میں اختر شیرانی کے رسالہ " رومان " میں شائع ہوئی ۔ شاعری کا آغاز دوسری جنگ عظیم اور تحریک آزادی کے دور میں کیا ۔ خاندانی پس منظر میں شاعری نہ تھی ، اس کے با وجود انہوں نے شاعری میں بڑی شہرت حا صل کی اور مستند شاعر ہ کے طور پر سامنے آئیں ۔
ادا جعفری نے آزاد شاعری میں بھی طبع آزمائی کی ۔ ادا جعفری کا پہلا مجموعہ 1950 ء میں " میں ساز ڈھونڈتی رہی " کے عنوان سے شائع ہوا، جب کہ دوسرا مجموعہ " شہر درد " کے نام سے منظر عام پر آیا ۔ " غزالاں تم تو واقف ہو " کے عنوان سے تیسرا مجموعہ شائع ہوا ۔ اس کے بعد " ساز سخن بہانہ " اور 2002 ء میں کلیات " موسم موسم " کے نام سے منظر عام پر آیا ۔ ان کا مشہور کلام :
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی، بر سر الزام ہی آئے
حیران ہے، لب بستہ ہیں، دل گیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی ترا پیغام ہی آئے
زہرا نگاہ
اصل نام فاطمہ زہرا ، قلمی نام زہرا نگاہ ، 1936میں بدایوں میں پیدا ہوئیں ۔ تقسیم ہند کے بعد حیدرآباد دکن سے ہجرت کر کے کراچی آئیں اور یہیں اپنی تعلیم مکمل کی ۔ شعر و سخن کا فن خاندانی ورثہ میں ملا ۔ شاعری کی ابتدا ء زمانہ ٔطالب علمی سے کی ۔ زہرا غزل اور نظم دونوں اصناف میں شاعری کرتی ہیں، جدید شاعری میں ان کا اپنا ایک منفرد مقام ہے ۔ ان کی شاعری کا ایک انفرادی پن ،سیاسی رنگ ہے۔ شاعری کے مجموعے ’’ شام کا پہلا تارا ‘‘ اور ’’ورق‘‘۔ چند اشعار ملاحظہ کریں:
جہاں پہ مہر خموشی لگی ہے ہونٹوں پر
جو ہو سکے تو اسی انجمن کی بات کرہ
کہاں کا عشق و محبت کہاں کا ہجر و وصال
یہاں تو لوگ ترستے ہیں زندگی کے لئے
پروین شاکر
24نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں ۔ خاندانی نام سیدہ پروین شاکر تھا ۔ پہلے اپنا تخلص بینا رکھا مگر بعد میں تبدیل کرکے پروین رکھ لیا ۔جامعہ کراچی سے انگریزی ادب اور لسانیات میں ایم ۔ اے کی ڈگری حا صل کی ۔ سرسید گرلز کالج اور عبداللہ کالج میں انگریزی کی استاد رہیں ۔ 1981 ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور کسٹم و ایکسائز کے محکمہ میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدہ پر فائز ہوئیں ۔ پروین شاکر کو زمانہ طالب علمی سے ہی ادب سے گہرا لگاؤ تھا، ادبی سر گرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں ۔
شہر میں ہونے والی ادبی سرگرمیوں اور مشاعروں میں باقائدگی سے حصہ لیتی تھیں، اس کے ساتھ ساتھ ریڈیو پاکستان کے پروگرام بزم طلبا کے پروگراموں میں بھی شرکت کرتی تھیں۔ جدید شاعری میں پروین شاکر کا نام ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے ۔پہلا مجموعہ کلام بیس سال سے کم عمر میں ہی شائع ہو گیا تھا جس کا عنوان تھا " خو شبو " مزید شعری مجموعوں میں " خود کلامی " ، " انکار " ، اور’’ صد برگ‘‘ شامل ہیں ۔ پروین شاکر کی شاعری کی خاص بات یہ ہے کہ روائتی شاعری کے ساتھ ساتھ انہوں نے عصر حا صل کے موضوعات کو بھی اپنی غزلوں میں جگہ دی۔
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پزیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
انور شعور
انور شعور 11 اپریل 1943 ء کو جیونی سی پی بھارت میں پیدا ہوئے ۔ ان کا اصل نام انور حسین خان جبکہ قلمی نام انور شعور ہے ۔ 1947ء میں ان کے خاندان نے پاکستان ہجرت کی، اس وقت انور شعور کی عمر 4 برس کی تھی ۔ انہوں نے کراچی میں مستقل رہائش اختیار کی ۔ انور شعور زیادہ تعلیم نہ حا صل کر سکے۔ انہوں نے اخبار جہاں ، سب رنگ ڈائجسٹ ، اور1998 ء سے روزنامہ جنگ کے لئے قطعہ بھی لکھ رہے ہیں۔
انور شعور نے 11سال کی عمر میں شاعری شروع کی ۔ اردو کے منفرد اور صاحب طرز شاعر مانے جاتے ہیں۔ ان کا پہلا مجمو عہ کلام " اندو ختہ " کے نام سے 1995 ء میں شائع ہوا ،جبکہ دوسرا مجموعہ کلام 1997 ء میں " مشق سخن " اور تیسرا مجموعہ 2014 ء میں "دل کا کیا رنگ کروں " کے نام سے شائع ہوا ۔ انورشعور ایک سادہ لوح اور بے ضرر انسان ہیں۔ نمونہ کلام :
گو مجھے احساس تنہائی رہا شدت کے ساتھ
کاٹ دی آدھی صدی ایک اجنبی عورت کے ساتھ
ایک نا مانوس ہستی کو بنا کر ہم سفر
میں نے دوری کا مزہ بھی چکھ لیا قربت کے ساتھ
افتخار عارف
افتخار عارف 21 مارچ 1943 ء کو لکھنو کے ایک اعلی تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ لکھنو یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویٹ کرنے کے بعد صحافت کا یک کورس کو لمبیا یو نیورسٹی سے کیا ۔ 1965ء میں ہجرت کر کے پاکستان کے شہر کراچی آگئے ۔ 1965ء سے 1977ء تک ریڈیو پاکستا ن سے منسلک رہے اور اس کے بعد پا کستان ٹیلی ویژن سے منسلک ہوگئے اور ٹیلی ویژن سے کئی پروگرام کئے جس میں ان کا سب سے مقبول پروگرام کسوٹی تھا۔
پاکستان ٹیلی ویژن کےبعد متعدد سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں خدمات انجام دیں ۔ شعر و شاعری کا اثر لکھنو سے ہی ان کے مزاج میں تھا کیوں کہ جس ماحول میں انھوں نے آنکھ کھولی اپنے اطراف شعر و سخن کا چرچا پایا۔
افتخار عارف کو ان کی ادبی اور علمی خدمات کے عوض کئی اعزازات سے نوازا جس میں 1984ء میں انہیں آدم جی ایوارڈ ، 1988 ء میں عالمی اردو کانفرنس دہلی کی جانب سے فیض انٹر نیشنل ایوارڈ برائے شاعری سے بھی نوازا گیا۔1989ء میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی 1994 ء میں بابائے اردو ایوارڈ برائے شاعری سے نوازا گیا ۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ " مہر و نیم " کے نام سے پہلے کراچی ، لندن اور پھر دہلی سے شائع ہوا ۔انہوں نے شاعری اور نثر دونوں اصناف میں طبع آزمائی کی اور کامیاب بھی رہے ۔ان کی تصانیف میں " مہر و نیم "، " کے علاوہ بارہواں کھلاڑی" ، " حرف باریاب " اور "جہان معلوم" شامل ہیں ۔ انکے کلام کا ایک نمونہ:
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کردے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے
یہ روشنی کے تعاقب میں بھاگتا ہوا دن
جو تھک گیا ہے تو اب اس کو مختصر کردے
حجاب عباسی
1946 ء میں امروہہ میں پیدا ہوئیں ، اصل نام حجاب بانو، حجاب تخلص اور حجاب عباسی قلمی نام ، امروہہ کے ایک ادبی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ پرائمری تعلیم کراچی سے اور گریجویشن کوئٹہ سے کیا ۔ کوئٹہ میں ہی ریڈیو اور ٹیلی ویژن سےسے اناؤنسر اور نیوز کاسٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ انہیں شعر و سخن سے شروع ہی سے لگاؤ تھا ۔ ان کی پہلی غزل روزنامہ "جنگ " کوئٹہ سے شائع ہوئی جب ان کی عمر صرف 13 سال کی تھی ۔حجاب عباسی نے غزل ، نظم ، حمد و نعت ، قطعات ،اور ہائیکو میں طبع آزمائی کی، مگر زیادہ رجحان غزل کی طرف رہا ۔ ان کے مجموعہ کلام جو اب تک شائع ہو چکے ہیں تجدید ہجر ، تحیر ہجر اور ثبات ہجر شامل ہیں ۔
اپنا لہجہ مری آواز سے کم رکھا کر
بات کرتے ہوئے سر کو زرا خم رکھا کر
اس طرح ہنس کے چھپانا نہیں اچھا غم کا
دل گرفتہ ہے تو آنکھوں کو بھی نم رکھا کر