• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قرۃ العین فاروق

جبران آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ وہ ہر وقت دوسروں کا مذاق اڑاتا ،کبھی کسی کے قد کے اوپر ،کبھی کسی کی رنگت کا،کبھی کسی کے بالوں اور چال پر، غرض یہ کہ وہ کبھی بھی کسی کا اصلی نام نہ لیتا بلکہ اپنی طرف سے بنائے گئے فرضی ناموں سے پکارتا۔ اگرچہ وہ نہ صرف پڑھائی میں بہت اچھا تھا ، کھیلوں میں بھی فرسٹ یا سیکنڈ آتا۔ مذاق اُڑانے اور نام بگاڑنے کی عادت کی وجہ سے اس کے ہم جماعت ،کزنز اور محلے والے اسے پسند نہیں کرتے تھے ، کون اور کب جبران کے نشانے پرآ جائے اور اس کا مذاق بن جائے کوئی کہہ نہیں سکتا تھا۔

ایک دن اسکول کے پاس گرائونڈ میں سالانہ کھیلوں کی پریکٹس جاری تھی ۔فنکشن سے ایک دن پہلے بچے اس گرائونڈ میں پریکٹس کےلئے پہنچے، گرائونڈ بہت بڑا تھا اور اس کے ایک کونے کی دیوار ٹوٹی ہوئی تھی جس پر مزدور کام کر رہے تھے ،فٹبال کا میچ شروع ہوا جبران گیند کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا، اس نے زور کی کک ماری، گیند اچھلتی ہوئی سیدھی مزدوروں کے پاس دیوار کے ساتھ آ کر رک گئی اس طرف لمبی لمبی گھاس اُگی ہوئی تھی اس وجہ سے دور سے جبران کو گیند نظر نہیں آ رہی تھی ۔

وہ اندازے سے بھاگتا ہوا گیند لینے گیا کہ اچانک گیند کے پاس پہنچنے سے ایک فٹ پہلے گڑھے میں پائوں پھسل گیا،وہاں اُگی گھاس کی وجہ سے جبران کو گڑھا نظر نہیں آیا۔ گڑھے میں گندا پانی بھرا ہوا تھا ،پہلے جبران کا پاؤں پھسل کر گڑھے میں گیا پھر وہ پورا ہی گڑھے میں گر پڑا ، پاس کھڑے کام کرتے مزدور جبران کے گرنے کی آواز سن کر اس کو اٹھانے آئے، اساتذہ اور کچھ طلباء بھی بھاگتے ہوئے آئے، مزدوروں نے جب جبران کو گڑھے سے نکالا تو اس پر کیچڑ چپک گئی، اس کی حالت دیکھ کر وہاں کھڑے طلباء اس کا مذاق اڑانے لگے اور اس کو الگ الگ ناموں سے پکارنے لگے، اپنے آپ کو اس حالت میں دیکھ کر جبران شرمندہ ہو گیا۔اساتذہ نے سب بچوں کو ڈانٹا پھر بھی طلباء باز نہیں آ رہے تھے ،مزدوروں نے پاس پڑی صاف پانی کی بالٹی سے پانی جبران پر ڈالا جس سے اس پر لگا کیچڑ تقریباً اتر گیا۔

جبران کی حالت ایسی نہ تھی، کہ وہ دوبارہ فٹبال کا میچ کھیلتا، اس کی ٹانگیں گڑھے میں گرنے کی وجہ سے درد بھی کررہی تھیں، وہ ایک طرف بیٹھ گیا اس کے استاد نے اس کے گھر فون کر کے اس کے والدین کو بلوا لیا وہ جتنی دیر ایک طرف بیٹھا رہا اس کے اسکول کے بچے آتے جاتے اسے الگ الگ ناموں سے پکارتے رہے وہ شرمندگی سے کچھ بول نہیں پا رہا تھا۔ بس دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ جلدی سے اس کے والدین آئیں۔

گھر پہنچ کر جبران اداس بیٹھا تھا اسے یوں بیٹھے دیکھ کر اس کے چاچو نے اس کی اداسی کی وجہ پوچھی تو جبران نےانہیں ساری بتادی۔

’’چاچو میں سوچ رہا تھا کہ میں جب سب کا مذاق اڑاتا تھا تو باقی سب کو کیسا لگتا ہو گا، یہ سوچ کر مجھے شرمندگی ہو رہی ہے‘‘۔

’’بیٹا آپ کو اس بات کا احساس ہو گیا یہ جان کرمجھے خوشی ہوئی، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ آپ کو دوسروں کا احساس ہے ۔آپ کو اُن سب لوگوں سے معافی مانگنی ہو گی جن جن کا آپ نے دل دکھایا ہے۔ آپ کو ہم سب مذاق اڑانے سے روکتے تھے، مگر آپ سنتے ہی نہ تھے… خیر وہ لوگ بہت بڑے دل کے ہوتے ہیں جو دوسروں کو سوری کرنے اور اپنی غلطی ماننے میں پہل کرتے ہیں ‘‘

’’چاچو میں کیسے سب سے معافی مانگوں، میں تو اسکول میں تقریباً سب کا نام بگاڑتا تھا اب ایک ایک سے جا کے کیسے معافی مانگوں۔‘‘

’’میرے ذہن میں ایک طریقہ آیا ہے۔چاچو نے کہا اور جبران کو ایک بات بتائی جسے سن کر وہ خوش ہو گیا۔

دوسرے دن اسکول اسمبلی میں بچے قومی ترانہ پڑھ رہے تھے جب ترانہ ختم ہوا تو جبران فوراً اسٹیج کی جانب گیا اور سر سے کچھ بولنے کی اجازت چاہی ،پہلے تو سر نے وجہ دریافت کی پھر جب جبران نے انہیں ساری بات بتائی تو سر نے فوراً اجازت دے دی۔

’’میں آج آپ سب سے جس جس کا میں نے دل دکھایا ہے، اُن سےمعافی مانگنا چاہتا ہوں، جنہیں میں مذاق میں مختلف ناموں سے پکارا کرتا تھا۔ آج کے بعد کسی کا بھی مذاق نہیں اڑایا کروں گا۔‘‘

اسکول کے پرنسپل نے جبران سے مائیک لے کر کہا،’’ْمجھے اندازہ ہے کہ جبران ایک اچھا بچہ ہے ،اس کی مثال آج اس کا سب سے معافی مانگنا ہے۔بچو!کیا آپ سب نے جبران کو معاف کر دیا ‘‘ ۔

پہلے تو سب بچے خاموش کھڑے رہے پھر آہستہ آہستہ بچوں نے ہاں کہنا شروع کیا اور کہا کہ انہوں نے جبران کو معاف کیا ،پھر سب بچوں اور اساتذہ نے تالیاں بجائیں اور اپنی اپنی کلاسوں میں چلے گئے۔