• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کالعدم ٹی ٹی پی کی شرائط قبول نہیں، وزیر داخلہ

اسلام آباد، راولپنڈی (ایجنسیاں) وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات ختم ، ہمارا وفد دوبارہ ٹی ٹی پی سے بات چیت کے لیے گیا ہے مگر کامیابی کا امکان نہیں، دہشت گرد ملک میں کہیں بھی کوئی واردات کرسکتے ہیں، فورسز کو الرٹ رہنے کی ہدایت ہے.

 دہشتگردوں کے رابطے بھارت اور افغانستان سے تھے،جمعہ کو سینیٹ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ دیتے ہوئے شیخ رشید نے بتایاکہ سیز فائر انہوں نے خود ختم کیا ہے، ٹی ٹی پی کی شرائط ہماری حکومت کو قبول نہیں۔

سینیٹر محسن عزیز کی زیرصدارت سینیٹ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ دیتے ہوئے شیخ رشید احمد نے کہا کہ ٹی ٹی پی سے شروع میں افغان طالبان نے بات چیت کی اور کوشش کی کہ ٹی ٹی پی کے لوگ پاکستان کے ساتھ معاملات طے کریں لیکن مذاکرات آگے نہیں چل سکے.

وزیر داخلہ نے کہا کہ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں ٹی ٹی پی کے لوگ موجود ہیں اور بہت سے گروپ شاید اکٹھے بھی ہوئے ہیں، گزشتہ دنوں ان کے 2 دہشتگرد اسلام آباد میں مارے گئے ہیں، ٹی ٹی پی نے پچھلے کچھ عرصے میں دس کوششیں کی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں گزشتہ روزکے واقعات میں جو کمیونیکیشن جو پکڑی گئی ہے اس میں یہ لوگ نہ صرف افغانستان اور انڈیا کے ساتھ رابطے میں تھے بلکہ کسی اور جگہ سے بھی رابطے میں تھے، حملے میں ایک میجر سمیت ہمارے 7 لوگ شہید ہوئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ دہشتگرد ملک میں کہیں بھی کوئی واردات کرسکتے ہیں، ہم نے تمام چیف سیکرٹریز کو ہدایت کی ہے کہ وہ فورسز کو الرٹ رکھیں۔سینیٹر سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان میں دہشتگرد حملوں میں انٹرینٹ کو استعمال کرتے ہیں ، گزشتہ روزکے واقعے میں بھی دہشتگرد وٹس ایپ کے ذریعے اپنے ماسٹرز کے ساتھ لائیو رابطے میں تھے، اس معاملے کو بھی دیکھیں۔

وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید نے جواب دیا کہ ہم تب تک کمیونیکیشن توڑ نہیں سکتے جب تک صوبہ خود نہ کہے، گزشتہ روز بھی جب ہمیں بتایا گیا تو ہم نے فوری طور پر انٹرنیٹ کو بند کیا، صوبائی حکومت کی جانب سے درخواست کی جائے تو ہم اس علاقے کا انٹرنیٹ بند کرسکتے ہیں، وزارت داخلہ اپنے طورپر کسی بھی علاقے کی کمیونیکیشن ختم نہیں کرسکتے۔

بعد ازاں میڈیا سے بات چیت میں شیخ رشید احمد نے کہاکہ سیاسی لوگوں سے سیاسی طریقے سے بات کرنی چاہیے،جو ہتھیار اٹھائے اس کے ساتھ طاقت سے نمٹا جائے گا۔جیسی مخالف قوت ہو اس سے ویسے ہی نمٹنا چاہیے۔ اگر کوئی ملکی سالمیت کیخلاف حملہ آور ہو تو جواب تو دینا ہوگا۔پاک فوج یا سول آرمڈ فورسز کیخلاف کوئی ہوگا تو جواب دینا ہوگا۔ افغان طالبان کے ساتھ ہماری بات چیت بہت اچھی ہے۔

اہم خبریں سے مزید