• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ نہیں کرسکتے کہ ججز کیلئے کوئی Extra قانون لے آئیں، علی ظفر

کراچی(ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں میزبان سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ جسٹس فائزعیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے، فیصلہ بالکل درست ہے.

 عدالت نے یہ نہیں کہا کہ ججز اور ان کے اہل خانہ کا احتساب نہیں ہوسکتا، اگر شواہد سے تعلق ثابت ہوجائے تو جج کیخلاف بھی کارروائی ہوسکتی ہےیہ نہیں کرسکتے کہ ان کے اوپر کوئی extra قانون لے آئیں، پارلیمنٹیرینز پر جو خاص قانون لاگو ہوتا ہے وہ ججز پر لاگو نہیں ہوتا، جو قانون پارلیمنٹیرینز پر لاگو ہوتا ہے وہ ججز پر بھی لاگو ہو تو اس کیلئے پارلیمنٹ قانون بنادے، حکومت کا عدالت یا کسی جج کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں، صدر پاکستان کسان اتحاد خالد کھوکھر نے کہا کہ آئندہ فرٹیلائزر پر 10 سالہ پالیسی بنائی جائے، فرٹیلائزر کمپنیوں کو گیس فوری فراہم کی جائے تاکہ اگلے سال یہ مسئلہ نہ پیدا ہو.

 شاہزیب خانزادہ: کیا یہ درست ہے جس طرح پراپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ اس فیصلے کے ذریعہ عدالت نے یہ کہہ دیا ہے کہ جو جج ہیں اس کے بیوی بچوں کا احتساب نہیں ہوسکتا اور جج ان کو جوابدہ نہیں ہے، یا آپ سمجھتے ہیں کہ فیصلے نے یہ کہا ہے کہ قانون کے مطابق جج کے بیوی بچوں کیخلاف بھی کارروائی ہوسکتی ہے اور جج بھی جوابدہ ہے اگر اس سے تعلق ثابت ہوجائے؟ پی ٹی آئی کے رہنما سینیٹر بیرسٹر علی ظفر: فیصلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے.

 فیصلے میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر، جس طرح آپ نے کہا کہ اگر آپ کو کوئی بھی ایسی شہادت یا evidence ملتا ہے جو جج کو directly link کرے کسی بھی غیرقانونی حرکت میں، چاہے وہ asset کو چھپانے کی حرکت ہو، چاہے وہ کوئی اور کرپشن کا عنصر ہو تو اس کیخلاف کارروائی قانون کی مطابق کی جاسکتی ہے، اب میں تھوڑا سا واضح کروں کہ جب آپ بات کرتے ہیں اپنی اہلیہ اور بچوں کے اثاثوں کی تو قانون دو قسم کے ہیں.

 ایک وہ قانون ہے جو ہر شہری پر لاگو ہوتا ہے اور ایک وہ قانون ہے جو پارلیمنٹرینز پر لاگو ہوتا ہے، پارلیمنٹرینز پر یہ قانون لاگو ہوتا ہے کہ جب وہ کاغذات نامزدگی داخل کریں تو اپنی اہلیہ اور اپنے dependent بچوں کے اثاثوں کی بھی مکمل تفصیل پیش کریں، قانون یہ بھی کہتا ہے الیکشن ایکٹ ہمارا 2017ء کہ اگر کسی قسم کی مس ڈیکلریشن کی ہوگی، آپ نے اپنی بیوی کی، اپنے بچوں کی یا اپنی کوئی جائیداد چھپائی ہو یا غلطی کی ہو تو آپ ایک طرح سے ڈس کوالیفائی بھی ہوسکتے ہیں.

آرٹیکل 62/1Fکے تحت آپ صادق اور امین نہیں رہتے اور اگر آپ نے یہ جان بوجھ کر کیا ہو تو عدالتی فیصلے یہ ہیں کہ آپ تاحیات ڈس کوالیفائی بھی ہوسکتے ہیں، یہ ہے پارلیمنٹرینز کیلئے، اب باقی جو لوگ ہیں جن میں جج بھی شامل ہیں ان کے اوپر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی جو خود اپنے ٹیکس ریٹرنز فائل کرتی ہو یا اپنے بچوں کے بارے میں بھی انہوں نے کوئی ڈیکلریشن دینی ہے یا ان کی کوئی ذمہ داری ہے ان کے اثاثوں کے بارے میں، ججمنٹ میں یہی لکھا ہے کہ اگر کسی نے قانون ایسا بنادیا عدالت ججز پر یہ پابندی آئی کہ انہوں نے اپنی اہلیہ اور اپنے بچوں کے اثاثے بھی ظاہر کرنے ہیں اور اس کے ذمہ دار بھی ہیں تب تو ان کیخلاف کارروائی ہوسکتی ہے لیکن اگر ایسی بات نہیں ہے اور ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی تو ججوں کو اسی طرح ٹریٹ کیا جائے گا جس طرح ایک عام شہری ہے، ان کیخلاف کوئی غیرقانونی حرکت نہیں ہوگی.

 جہاں تک ان کی اہلیہ کا تعلق ہے ان کو بھی اسی طرح ٹریٹ کیا جائے گا جس طرح ایک عام شہری ہے، میرا خیال ہے یہ ججمنٹ درست ہے اس میں مجھے کوئی ایسا معاملہ نظر نہیں آیا، اگر قانون کی نظر سے دیکھیں تو اس ججمنٹ میں آپ کو یہ تاثر نہیں لینا چاہئے کہ یہ کوئی ججز نے خود کو بچانے کیلئے کہا، انہوں نے کہا کہ جو بھی قانون ہے وہ ججوں پر بھی لاگو ہوتا ہے لیکن آپ یہ نہیں کرسکتے کہ ان کے اوپر کوئی extra قانون لے آئیں جس طرح پارلیمنٹرینز کے اوپر ہے.

 پارلیمنٹرینز کے اوپر خاص قانون ہے ججوں کے اوپر وہ قانون نہیں لاگو ہوا، اگر پارلیمنٹ سمجھتا ہے قانو ن بنادے گا تو پھر وہ قانون مستقبل میں ججوں پر بھی لاگو ہوگا۔ شاہزیب خانزادہ: یعنی اس فیصلے کے بعد آج بھی اگر ایف بی آر کو کسی جج کے اہل خانہ میں، بیوی میں، بچوں میں، چاہے وہ خود مختار ہوں یا نہ ہوں کوئی بھی نظر آتی ہو تو وہ ان کو نوٹس بھیج سکتا ہے، ان کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کرسکتا ہے، اگر کل جج کا اس کے ساتھ تعلق ثابت ہوجاتا ہے تو جج کیخلاف بھی کارروائی ہوسکتی ہے، آج بھی سرینا عیسیٰ کیخلاف ایف بی آر قانون کے مطابق کارروائی کرسکتا ہے اور اگر جسٹس فائز عیسیٰ سے تعلق ثابت ہوجاتا ہے تو ان کیخلاف کارروائی ہوسکتی ہے؟ سینیٹر بیرسٹر علی ظفر: یہ بالکل ہوسکتا ہے اگر وہ کنکشن نکل آئے جج صاحب کی طرف، لیکن اگر وہ independent کوئی ان کے خلاف کوئی ٹیکس کا معاملہ ہے جو ٹیکس کا قانون ہے اس کے مطابق ہی ان کی اہلیہ اور ان کے بچوں کیخلاف ایکشن لیا جاسکتا ہے۔

شاہزیب خانزادہ: آپ کے خیال میں حکومت کو اس معاملہ میں کیسے آگے بڑھنا چاہئے؟ سینیٹر بیرسٹر علی ظفر: میری نظر میں حکومت کا کسی جج کے ساتھ یا کسی جج کے خلاف کسی قسم کا مینڈیٹ نہیں ہے کہ ہم نے کوئی ریفرنس فائل کرنا ہی کرنا ہے، اپیل فائل کرنی ہی کرنی ہے، یہ تو معاملہ ایک فائل کیا ریفرنس اس کے بعد وہ ریفرنس جو تھا وہ کالعدم قرار دیدیا گیا.

 عدالت نے خود ہی ایف بی آر کو بھیجا کہ وہ انویسٹی گیٹ کرے، اس کے بعد عدالت نے اس کو ریویو کردیا، ہمارا مقصد تھا انفارمیشن دینا اور عدالت تک انفارمیشن پہنچانا، اس کے بعد یہ عدالت کا ہی اپنا فیصلہ ہوتا ہے اور جو عدالت کا فائنل فیصلہ ہو اسے ماننا چاہئے، میرے خیال سے یہ پوزیشن چاہتی ہے لیکن اگر یہ حکومت فیصلہ رکھتی ہے دیکھنے کے بعد اگر کوئی ایسی ججمنٹ آجاتی ہے تو جو … یا حکومت کے وکلاء کی نظر میں وہ ججمنٹ کوئی غلط ہو تو حکومت کا حق بھی ہوتا ہے کہ اس کی اپیل بھی کرے، اگر کوئی قانونی کارروائی ہو تو قانونی کارروائی کرے لیکن اس سچویشن میں میری نظر میں چونکہ وہ ایک اپیل کا وقت بھی گزر چکا ہے.

 اپیل ہوتی بھی نہیں ہے آرٹیکل 184/3کے تحت ریویو بھی فائنل ہوگیا ہے تو اب مزید کوئی کارروائی ہوسکتی ہے نہ کرنی چاہئے، یہ میرا پرسنل ویو ہے، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت کا جھگڑا عدالت کے ساتھ نہیں ہے، کسی جج کے ساتھ نہیں ہے ہم سب کی عزت کرتے ہیں، سب honest judges ہیں عدالت نے ایک بڑا فیصلہ دیا ہے.

 وہ فیصلہ آئین کے تحت پورا جو ملک ہے چاہے گورنمنٹ ہو چاہے نان گورنمنٹ ہو اس پر لاگو ہوتا ہے اور آئین کی respect رول آف لاء کی respect اس حکومت کا obligation بھی ہے، ذمہ داری بھی ہے اور ان کا مینی فیسٹو بھی ہے اور یہی ہم کوشش کررہے ہیں۔

اہم خبریں سے مزید