گزشتہ کئی ماہ سے صدارتی نظام کے نفاذ کے حوالے سے عوام میں خاصہ تجسس پایا جاتا ہے، وہ موجودہ ملکی صورتحال کے حوالے سے بےچینی کا شکار نظر آتے ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت تعلیم، صحت، روزگار کے حوالے سے کبھی بھی پاکستان میں ایسی زندگی نہیں گزار سکی جس کی آئینِ پاکستان ہر شہری کو ضمانت دیتا ہے لیکن 2018میں پی ٹی آئی کی حکومت آنے پر بہت سے بااثر طبقات، خاندان اور گروہ سخت بےچینی کا شکار دکھائی دے رہے ہیں اور شروع دن سے حکومت کے گرنے اور نااہلی کے حوالے سے افواہوں کا بازار گرم رکھا ہے۔
کورونا وائرس کی وبا نے پوری دنیا کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ اُس کے اثرات اب بھی پوری شدت سے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیاں اِس وبا کی وجہ سے اپنے کاروبار جاری نہ رکھ سکیں اور ابھی تک مختلف ممالک میں آنے جانے کے حوالے سے لوگوں کو سفری پابندیوں کا سامنا ہے نتیجتاً پاکستان میں بھی مہنگائی کی ایک لہر نے ملک کے طول و عرض میں عوام کی اکثریت کو شدید متاثر کیا، اس حوالے سے پٹرول، گیس، بجلی، خوردنی آئل اور درآمد شدہ مال جو کہ مقامی کارخانے استعمال کرتے ہیں، کی قیمتوں میں اضافے نے زندگی کے ہر شعبہ کو متاثر کیا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف جو بیانیہ سب سے زیادہ مضبوط کیا ہے وہ بھی مہنگائی ہے جب کہ کرپشن کے خلاف حکومتی بیانیے پر کوئی خاص عملدرآمد نہ ہونا بھی عوام میں بےچینی کا سبب ہے، اس حوالے سے حکومتی حلقوں کا موقف ہے کہ حکومت اپنے احتساب کے بیانیے پر مضبوطی سے کھڑی ہے لیکن کمزور جوڈیشل سسٹم کے ساتھ اور محکموں میں جدید اصلاحات کے بغیر حکومت مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکی اور اس حوالے سے نور مقدم کیس اور عثمان مرزا کیس کے حوالے سے جو خبریں میڈیا میں سامنے آئیں تو پورے ملک میں ہمارے نظامِ انصاف کے حوالے سے شدید ردِعمل سامنے آیا۔ لوگوں کو جب اس طرح کے کیسز میں انصاف ہوتا دکھائی نہیں دے گا تو ایسے کیسز جن میں لوگوں کو سیاسی جماعتوں، مختلف خاندانوں اور گروہوں کی پشت پناہی حاصل ہو، ان کو سزا ملنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اس طرح کے حالات سے نپٹنا موجودہ پارلیمانی جمہوریت کے ساتھ بہت مشکل دکھائی دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ صدارتی نظام کے حوالے سے آئے روز سوشل میڈیا پر اور مختلف ٹی وی چینلز پر دھواں دار دلائل اور بحث و مباحثہ جاری و ساری ہے۔ وزیراعظم عمران خان ایک ایماندار لیڈر ہیں اور کام کرنے کے حوالے سے بھی پُرعزم ہیں اور ان کی شخصیت کے حوالے سے لوگوں میں سوچ پائی جاتی ہے کہ اگر ان کو صدارتی نظام کے تحت کام کرنے کا موقع مل جائے تو پاکستان جن مسائل کا شکار ہے ان سے نہ صرف لڑا جا سکتا ہے بلکہ جلد ہی پاکستان ترقی کے راستے پر گامزن ہوگا۔ پاکستان کے آئین کے مطابق صدر پاکستان اگر ایمرجنسی لگاتے ہیں تو اس کے لیے ان کو اپنے اس فیصلے کی توثیق کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے اس کے حق میں قرارداد پاس کروانا ہوگی وگرنہ اس کو لمبے عرصے تک کے لیے قائم رکھنا آسان کام نہیں ہے اور اس طرح کی کسی بھی نظامِ حکومت میں تبدیلی کو عدالت میں بھی چیلنج کیا جا سکتا ہے اور اس وقت عدلیہ اس طرح کی صورت حال کے ساتھ کسی طرح سے پیش آتی ہے یہ کہنا قبل ازوقت ہے۔
صدارتی طرز حکومت کو اسلامی نظامِ حکومت سے مشابہ ہونے کے حوالے سے بھی لوگ اپنے دلائل پیش کر رہے ہیں اور صدارتی نظام کی اسلامی نظام سے مشابہت کی بنا پر پاکستان کے تابناک مستقبل کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ پاکستان میں اِس وقت پارلیمانی جمہوریت کا نظام رائج ہے اور یہاں یہ نظام کالونیل دور کے برٹش انڈیا راج سے کسی نہ کسی طرح مختلف انداز سے پاکستان میں حکومتوں کی تشکیل کے لیے مروج ہے، صدارتی نظامِ حکومت بھی پاکستان میں کافی عرصہ تک نافذ رہا، فیلڈ مارشل ایوب خان 60کی دہائی میں ایک لمبے عرصے تک بطور صدر، پاکستان پر حکومت کی۔ ضیاء الحق اپنے ہی لگائے ہوئے مارشل لا کے دوران صدر مملکت پاکستان رہے، اُن کے بعد چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان قائم مقام صدر بنے اور 1988کے الیکشن میں بےنظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے وفاق میں حکومت بنائی۔
پرویز مشرف کی قیادت میں ایک مرتبہ پھر ملک میں اکتوبر 1999کے طیارہ سازش کیس کے نتیجہ ایک نئی حکومت قائم ہوئی اور پہلے تو پرویز مشرف ملک کے چیف ایگزیکٹو کہلائے لیکن بعد میں لیگل فریم آرڈر کے تحت وہ پاکستان کے صدر کے طور پر پاکستان کے طاقتور ترین حکمران رہے اور آخر کار 2008میں ان کو اپنی صدارت سے دستبرداری اختیار کرنا پڑی اور الیکشن ہوئے اور مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی اور پنجاب میں مسلم لیگ نواز نے حکومت بنائی۔
تبدیلی کے نام پر آنے والی پی ٹی آئی کی حکومت گو کہ معاشی بحرانوں پر قابو پانے میں کسی حد تک کامیاب ہو چکی ہے لیکن عوام کی کثیر تعداد تبدیلی کے حقیقی ثمرات سے ابھی تک اس قدر مستفید نہیں ہو سکی جس کی لوگوں کو امیدیں تھیں۔ وزیراعظم عمران خان احساس کفالت کے پروگرامز، لنگر خانے، پناہ گاہیں اور صحت کارڈ کے منصوبے عوام میں ان کی مقبولیت کا سبب بنے ہیں لوگوں کا خیال ہے کہ اگر وزیراعظم ایمرجنسی کے نتیجہ میں ہونے والے ریفرنڈم کے ذریعے پاکستان کے صدر بن جائیں تو وہ سخت فیصلوں کے ساتھ عدلیہ، پولیس اور دوسرے محکموں میں ریفارمز لے کر آئیں گے اور جن مضبوط دھڑوں اور گروپس کا وہ مقابلہ کرنا چاہتے ہیں ان کو صدارتی نظام کے تحت یہ اختیار حاصل ہو گا کہ سسٹم میںان عناصر جن کی موجودگی میں پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا کے خلاف بھرپور کارروائی کر سکیں۔
اگرچہ صدارتی نظام کے حوالے سے جاری بحث کو روکنا اتنا آسان نہیں لیکن آئینی طور پر ایمرجنسی لگا کر ریفرنڈم کے ذریعہ صدارتی نظام کی ایک مرتبہ پھر داغ بیل ڈالنا آسان نہیں ہے کیونکہ لوگ اپنی زندگی میں آسانی چاہتے ہیں لیکن آسانی کے لیے جو قربانی چاہئے اس کے لیے فی الحال کوئی بھی تیار نہیں ہے۔