خدشات کے برعکس پاکستان سپر لیگ کاکراچی کا مرحلہ کامیابی سے ختم ہوا۔ ابتدا میں ایسا لگ رہا تھا کہ شائد یہ ٹورنامنٹ کورونا کینذر ہوجائے گا لیکن پی سی بی کی دانشمندانہ حکمت عملی سے پہلا مرحلہ ختم ہوا۔کورونا ایس او پیز کی وجہ سے صرف 25فیصد تماشائیوں کو نیشنل اسٹیڈیم آنے کی اجازت تھی لیکن تماشائیوں کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہی رہا کہ بارہ سال سے کم عمر بچوں کو گراونڈ میں آنے کی اجازت نہیں مل سکی جس کی وجہ سے فیملیز نے بھی اسٹیڈیم آنے سے گریز کیا۔ بچوں کے ساتھ ان کی اہل خانہ بھی آنا چاہتے ہیں۔ پھر باکس آفس پر اس بار بھی ٹکٹ دستیاب نہیں تھے۔
تماشائیوں کے لئے آن لائن ٹکٹ خریدنا آسان نہیں ۔اسی طرح تماشائیوں کو شٹل سروس بھی فراہم نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آٹھ ہزار تماشائی چند میچوں میں ہی آسکے جو اچھی روایت نہیں ۔پاکستان سپر لیگ پاکستان کرکٹ کا برانڈ ہے۔
اس میں کئی بڑے کھلاڑیوں کی عدم شرکت بھی حیران کن ہے۔دنیا کے کئی بڑے کھلاڑی ہمارے پڑوس میں بنگلہ دیش لیگ کھیل رہے ہیں۔پی سی بی کو اس جانب دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا وجہ ہے کہ بڑے کھلاڑی پی ایس ایل کے بجائے بی پی ایل کھیل رہے ہیں۔ پاکستان لیگ میں ہر سال باصلاحیت نوجوان کرکٹرز سامنے آئے ہیں جن میں رومان رئیس، حسن علی، حسین طلعت، حسان خان، شاداب خان، شاہین شاہ آفریدی، عمرخان، شاہنواز دھانی، محمد وسیم جونیئر اور ارشد اقبال قابل ذکر ہیں۔
پاکستان سپر لیگ صرف ایک ایونٹ ہی نہیں بلکہ نوجوان کرکٹرز کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں بھی مؤثر پلیٹ فارم ثابت ہوا ہے۔نجم سیٹھی نے جو درخت لگایا تھا وہ اب تناور درخت بن چکا ہے۔ میں بھی اس وقت بورڈ آف گورنرز کا رکن تھا جب پی ایس ایل شروع ہوئی ہے۔ کئی میٹنگ میں ہونے والی پلاننگ کے بعد 2016 میں پہلی بار لیگ کو متحدہ عرب امارات میں شروع کیا گیا اس وقت سے آج تک ان تمام تر نامساعد حالات کے باوجود نہ صرف یہ لیگ پاکستان کرکٹ کو جواں خون کا تحفہ دینے میں کامیاب رہی بلکہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی جیسا ناممکن کام بھی ممکن کر دکھایا۔
اس کا کریڈٹ پی سی بی کے ان سبھی جواں ذہنوں کو جاتا ہے جنھوں نے اس عمارت کی تعمیر میں اپنے اپنے حصے کی اینٹیں جوڑیں۔اور تحسین کے خصوصی مستحق نجم سیٹھی بھی ہیں جنھوں نے چہار سمت سے تنقید کے باوجود یہ داؤ کھیلنے کا خطرہ مول لیا۔ اب کی بار پی ایس ایل اپنے روایتی فروری کی ’ونڈو‘ سے ہٹ کر ہے اور کیلنڈر میں، متوقع دورہ آسٹریلیا کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے جنوری میں ہی شروع کی گئی ، اسی لئے اسے بنگلہ دیش پریمئر لیگ کے کیلنڈر سے بھی ٹکرانا پڑا، ماضی کے کچھ بڑے نام بھی اس بار شامل نہیں ۔پاکستان سپر لیگ کو اپنے سفر کے دوران مختلف نوعیت کی مشکلات اور چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔
اس دوران فرنچائز مالکان اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے درمیان مالی معاملات پر اختلافات عدالت تک بھی جا پہنچے تھے تاہم عدالت کے باہر ان معاملات کو نمٹایا گیا۔ فرنچائز مالکان کو اکثر پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمینوں کے سخت رویے کی شکایتیں بھی رہیں۔ گذشتہ سال جب پی ایس ایل ملتوی ہوئی تو اس کا الزام دونوں فریقین ایک دوسرے پر عائد کرتے رہے تھے۔ لیگ کے ملتوی ہونے پر فرنچائز مالکان کا کہنا تھا کہ ان کی ساری کمائی چلی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ پی ایس ایل سے پیسہ بنا رہا ہے جبکہ فرنچائزر نقصان پہ نقصان اٹھارہی ہیں۔
مالکان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس لیگ کے سات پارٹنرز ہیں۔ چھ رو رہے ہیں جبکہ ساتواں مزے کر رہا ہے۔ 2017 میں پاکستان سپر لیگ کا دوسرا ٹورنامنٹ شروع ہونے سے قبل پاکستان کرکٹ بورڈ کو یہ اطلاع ملی کہ دو کرکٹرز شرجیل خان اور خالد لطیف کے مبینہ بک میکر یوسف کے ساتھ روابط ہیں اور یہ دونوں کرکٹرز پہلے ہی میچ میں اس کے اشارے پر کام کرنے والے ہیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام کے لیے یہ صورتحال اس لیے بھی پریشان کن تھی کہ انہیں افتتاحی میچ ملتوی کرنے کا مشورہ دیا گیا تاہم میچ اپنے معمول کے مطابق ہوا اور پھر ان دونوں کرکٹرز کے گرد شکنجہ کسا گیا۔
خالد لطیف پر پانچ سال کی پابندی عائد کی گئی جبکہ شرجیل خان پر بھی پانچ سالہ پابندی عائد کی گئی تھی جن میں سے ڈھائی سال معطل سزا کے تھے۔ شرجیل خان سزا مکمل ہونے کے بعد دوبارہ کرکٹ میں آ چکے ہیں۔تنازعات اور چیلنجز کے باوجود پی ایس ایل کا ساتواں ایڈیشن جاری ہے کراچی کے بعد لاہور میں دوسرے مرحلے کے میچ ہوں گے۔
رمیز راجا نے پہلے سے بہتر انداز میں ٹورنامنٹ کرانے کا دعوی کیا ہے لیکن تماشائیوں کو جب تک سہولتیں فراہم نہیں کی جائیں گی وہ گراونڈ میں آنے سے گریز کریں گے۔ کورونا کی آفت کے باوجود تماشائیوں کو پی سی بی سے شکوے ہیں ان شکووں کو دور کرنے ضرورت ہے تاکہ تماشائی گراونڈ میں آئیں اور گراونڈ کی رونقیں بحال ہوں۔