لندن (مرتضیٰ علی شاہ) بانی متحدہ الطاف حسین کے وکیل روپرٹ بائورز نے کنگسٹن کرائون کورٹ کو بتایا ہے کہ مسٹر حسین دہشت گرد نہیں اور ان پر دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کے دو الزامات پر فرد جرمعائد نہ کی جائے۔ وکیل صفائی نے عدالت کو اپنے آخری دلائل میں بتایا کہ استغاثہ نے بتایا ہے کہ 22؍ اگست 2016ء کو لندن سے کراچی خطاب کرتے ہوئے بانی متحدہ پر دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے کا الزام ہے لیکن عدالت کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ واقعات برطانیہ نہیں بلکہ پاکستان میں ہوئے اور ان کی سیاست کا محور ترقی، خواتین کے حقوق اور پاکستان میں مہاجروں کو اختیارات دینے جیسے معاملات ہیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان کی زبان مختلف ہے، مختلف ثقافت ہے، سیاسی پس منظر بھی مختلف ہے جبکہ یہ دیکھنے کا طریقہ بھی مختلف ہے کہ ریاستی عناصر جیسا کہ حکومت، پولیس اور دیگر سرکاری ادارے برطانیہ سے مختلف انداز سے کام کرتے ہیں۔ وکیل نے کہا کہ حقوق کے حوالے سے بھی مختلف تصورات پائے جاتے ہیں، قانون اور امن عامہ اور انسانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک بھی مختلف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ استغاثہ نے عدالت سے کہا ہے کہ بانی متحدہ کے کیس کو ثقافتی پس منظر میں نہ دیکھا جائے لیکن برطانیہ میں قانون ویسا نہیں ہے جیسا پاکستان میں ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسٹرحسین نے لندن سے بیانات شائع کئے لیکن عدالت کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ایک ذی شعور آدمی ان کے بیانات کو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر دہشتگردی کی حوصلہ افزائی کرنے جیسا سمجھتا بھی ہے یا نہیں۔ انہوں نے عدالت کو دعوت دی کہ وہ یہ بیانات سن کر غور کرے کہ جو لوگ کراچی میں بیٹھ کر یہ خطاب سنتے ہیں، انہیں جنوب مغربی لندن میں رہنے، تمام آزادیوں سے لطف اندوز ہونے اور حقوق کے مزے لینے جیسی سہولتیں میسر ہیں یا نہیں۔ انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ دہشت گردی کیا ہوتی ہے اور یہ کس طرح کا کام ہے اور اس کے پیچھے کیا ڈیزائن اور مقصد ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عدالت کو یقین نہیں کہ بانی متحدہ نے تشدد کو فروغ دیا ہے تو وہ ان کو قصوروار قرار نہ دے۔ روپرٹ بائورز نے کہا کہ عدالت استغاثہ کے پیش کردہ گواہ ڈاکٹر نکولا خان پر توجہ دے، آپ کو ریاست کے ظلم اور کراچی میں ہونے والے جبر پر حیرانی ہوگی۔ یہاں رہنے والے کسی بھی شخص کیلئے دہائیوں تک روزانہ قتل، تشدد، گمشدگیاں، حراست میں ہلاکت اور ظلم کو برداشت کرنے جیسے واقعات کو سمجھنا سمجھ سے بالاتر محسوس ہوگا۔ روپرٹ بائورز نے کہا کہ استغاثہ کے گواہ نے عدالت کو کراچی میں طویل عرصہ سے جاری پرتشدد واقعات کا بتایا اور یہی وجہ ہے کہ عدالت کو چاہئے قانون کو کیس کے اصل حقائق کے تناظر میں دیکھے اور اس بات پر غور کرے کہ مسٹر حسین کیا سمجھے یا ان کی نیت کیا تھی اور لوگوں نے کیا سمجھا۔ وکیل صفائی نے کہا کہ کراچی میں ایم کیو ایم نے تشدد برداشت کیا اور 22؍ اگست 2016ء تک ریاست کی جانب سے ایم کیو ایم اور اس کے کارکنوں کیخلاف کارروائی کی گئی اور ا ن پر پابندی عائد کی گئی۔