تحریر : حافظ عبدالاعلیٰ درانی، بریڈفورڈ رزق میں اضافہ، غم روزگار میں کمی ، ذہنی و جسمانی پریشانیوں کا حل ، دینی و دنیوی نعمتوں کاحصول، اولادکی طرف سے مسائل میں کمی ، فارغ البالی اور صحت و تندرستی یہ وہ چیزیں ہیں جن کے حصول میں ہم زندگیاں داؤ پر لگا دیتے ہیں، ان کا حل ایک ہی چیز میں ملا، وہ ہے ’’تلاوت قرآن کی کثرت‘‘ماشاء اللہ تقریباًہر مسلمان قرآن پڑھنا جانتا ہے، اسے چاہئے کہ اس کی تلاوت کثرت سے کرنے کا ارادہ کرے اور دعاکرے کہ حق تعالی اس کے وقت میں برکت ڈال دے، اسے یہ سعادت اور توفیق مل جائے گی ۔ اس کی مصروفیات کم ہوجائیں گی کیونکہ قرآن کریم کی تلاوت سے بڑھ کر کوئی چیز لذت والی نہیں ہے، آزما کر دیکھ لیں۔ حضرت سفیان الثوریؒ نے فرمایا کاش میں خود کو صرف قرآن تک محدود رکھتا۔ حضرت سفیانؒ کایہ فرمان بالکل سچ ہے، بچپن ہی سے اہل ذکر سے گہرا تعلق و رابطہ رہنے کی وجہ سے اذکار پڑھنا شروع کردیئے حتیٰ کہ مدینہ یونیورسٹی میں دوران تعلیم جدید سعودیہ کے بانی شاہ عبدالعزیز کا مرتب کردہ دعاؤں کامجموعہ بنام ’’الورد المصطفی ‘‘ مکمل حفظ کیا، یہ چھوٹے 100 صفحات پر مشتمل ہے اور 40 سے 50منٹ اسے مکمل کرنے میں لگتے ہیں، اسے 27 برس روزانہ پڑھنا معمول رہا ،اس کی تمام دعاؤں کی تخریج کی تخریج کا مطلب ہے کہ ہر دعا کی سند تلاش کی، عربی میں اس کی تشریح 200 سے زائد صفحات میں لکھ کراسے خود ٹائپ کیا، امیر متعب بن عبدالعزیز ( وزیر تعمیرات) سے ریاض میں ملاقات طے ہوئی وغیرہ وغیرہ ، علاوہ ازیں قرآنی اذکار کے مختلف اوقات میں پڑھنے کے لیے مختلف سیٹ بنائے ،بعد میں پتہ چلا کہ اپنا حفظ تو محض ’’ رمضانی‘‘ ہے یعنی صرف تراویح میں سنانے کے لیے، تب اسے پختہ کرنےکے لیے تین جہری نمازوں میں سارا سال مسلسل قرأت شروع کی اور مسلسل یہ طریقہ جاری ہے پھرشرح صدر ہوا اور حفظ پختہ کرنے کے مختلف طریقے ذہن میں آنے لگے اور مسلسل آرہے ہیں بہرحال بنیادی بات یہ تھی کہ ایک وقت ایسا آگیا کہ ہم نے سارے وظائف ایک طرف رکھ دیئے، ضروری یومیہ وظائف کے علاوہ اور صرف قرآن یاد کرنا شروع کردیا اور مسلسل اسی راہ پر ہوں، میں نے محسوس کیاکہ قرآن کا جتنا میرا حصہ زیادہ ہوا اتنی ہی میرے وقت ، رزق، صحت اور فراغت میں برکت ہوئی اور میں مسلسل اسے بڑھاتا رہا یہاں تک کہ میرا حزب چھ پارے روزانہ تک چلا گیا اور اب یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ حضرت سفیان ثوریؒ نے یہ فرما کر کہ کاش میں نے خود کو صرف قرآن تک محدود رکھا ہوتا ، ہماری ترجمانی کی ہے یا ہمارے جذبے کو زبان دے دی ہے، یہ صرف ہماری ہی نہیں بڑے بڑےجلیل القدر اہل الذکر کی رائے ہے کیونکہ قرآن جیسی لذت و برکت کہیں بھی اور کسی وظیفے میں نہیں ہے ۔ اے مالک قرآن کو ہمارا اوڑھنا بچھونا بنا دے، دلوں کی بہار بنا دے ، آنکھوں کا نور بنا دے ،روح کا سرود بنا دے ، مسند احمد ترجمہ: اے میرے اللہ ، میں تیرا بندہ ، تیرے بندے کا بیٹا ، تیری بندی کا بیٹا ، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے،تیرا حکم مجھ پر جاری و ساری ہے ، میرے متعلق تیرا فیصلہ عدل و انصاف پر مبنی ہے، میں تجھ سےتیرے سب اسماءِ حسنیٰ (کے وسیلے) سے سوال کرتا ہوں جو تو نے اپنی ذات کے لئے رکھے ، یا کسی کتاب میں نازل کئے ، یا کسی مخلوق کو سکھائے یا اپنے پاس ہی رکھنے پسند کئے ، تو قرآن کو میرے دل کی بہار اور سینے کا نور بنا دے اور اسے میرے غم و اندوہ کا مداوا بنا دے،اب مزید اہل الذکر کے اقوال ملاحظہ فرمائیں ،سفیان ابن عینیہ کہتے ہیں یہ معاملہ اپنے اعلیٰ مقام کو اس وقت پہنچے گا جب اللہ تعالی تمہیں ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہوجائے تو جس نے قرآن سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی، خوب سمجھ لو جو تم سے کہا جارہا ہے ۔امام اعمش کہتے ہیں وہ چیز جس کے ساتھ اللہ نے مجھے بلند کیا وہ قرآن ہے۔امام حسن بصری کہتے ہیں اللہ کی قسم قرآن کے علاوہ کوئی غنا نہیں اور اس کے بعد کوئی محتاجی نہیں ہے۔محدث ضیا المقدسی نے شاگرد کو وصیت کی،قرآن کو بہت زیادہ پڑھو اس کو چھوڑو نہیں کیونکہ جس قدرتم اس کو پڑھو گے اسی کے مطابق تمہارے لیے آسانی کی جائے گی۔مزید کہا میں نے اس کا بہت زیادہ تجربہ کیا ہے کیونکہ جب میں نے قرآن کو زیادہ پڑھنا شروع کیا تو میرے لیے حدیث کا سننا اور اسے کثرت سےلکھنا آسان کردیا گیا اور جب نہیں پڑھا تو آسانی بھی نہیں ہوئی۔ہم بچپن میں کہا کرتے تھے کہ اسکول داخلہ لینے سے پہلے جو قرآن حفظ کرلیتا ہے وہ زندگی پھر کسی امتحان میں فیل نہیں ہوسکتا اور ہم نے اس کا تجربہ کیا ہے اور اسے حقیقت پر مبنی پایا ہے ۔جامع قرآن سیدناعثمان بن عفانؓ نے فرمایا: اگرتمہارے دل پاک ہوتے تو وہ قرآن کی قرأت سے کبھی سیر نہ ہوتے۔کعب احبارؓ نے کہا”السابقونالسابقون “ وہ اہل القرآن ہیں۔حضرت ذو النون مصری سے پوچھا گیا اللہ کے ساتھ انس کیسے ہوتاہے،کہا علم اور قرآن سے ۔ حسن بصری نے کہا حلاوت و لذت کو تین چیزوں میں تلاش کرو،نماز ،قرآن اورذکر میں ،جب تم اس کو پالوگے تو اس کے ساتھ زندگی گزارو اور خوش ہوجاؤ ، اگر تم یہ مٹھاس نہ پاؤ توجان لو کہ تمہارا دروازہ ابھی تک بند ہے۔قتادہ نے کہا اپنے دلوں اور اپنے گھروں کو قرآن کے ساتھ آبادکرو۔امام ابن القیم نے فرمایا، جب تم اس بات کا اراداہ کرو کہ تم یہ جانو کہ تمہارے پاس اور دوسروں کے پاس اللہ کی محبت میں سے کیا ہے تو اپنے دل میں قرآن سے محبت کو دیکھ لو، ایک ضروری انتباہ، اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ قرآن صرف تلاوت کے لیے ہے بلکہ قرآن عمل کے لیے ہی ہے ، تلاوت توقرآن کے حقوق میں ایک حق ہے ،عمل ان میں سب سے اہم ہے ، اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو قرآن پرعمل کی توفیق دے کیونکہ قرآن پر عمل چھوڑنے سے ہی ذلت و رسوائی ہمارا مقدر ہوگئی ہے ۔ حکیم الامت کے بقول قرآن پر عمل چھوڑ کر رسوائی حاصل ہوئی اور شکوہ کرنے لگے ہم زمانے کے ستم کا جب کہ زندہ کتاب قرآن موجود ہے لیکن جب یہ شبنم دلوں کی کھیتی کی بجائے پتھر پر گرے گی تو فائدہ خاک ہوگا۔