• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان دنیا کی کل آبادی میں 2.65 فیصد حصہ دار اور 881,913 مربع کلومیٹر رقبہ پر مشتمل ملک ہے۔ پاکستان کے مسائل کی طویل فہرست میں ماحولیاتی تبدیلی بنیادی اور سرِ فہرست مسئلہ ہے۔ ماحولیاتی پرفارمنس انڈیکس ( EPI ) کے مطابق، پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں آب وہوا کا معیار انتہائی خراب ہے ، اس کی اہم وجوہات جنگلات کی کٹائی ، گاڑیوں کے نقل وحمل سے کاربن کا خارج ہونا، آبادی میں ہونے والا اضافہ ، اور فیکٹریوں سے نکلنی والی زہریلی گیسز ہیں جو ناصرف انسانی زندگی اور صحت کو خطرات لاحق کرتی ہیں بلکہ قدرتی آفات کا بھی سبب بنتی ہیں۔

پانی قدرت کی وہ نعمت ہے، جس پر جاندار زندگیوں سے لے کر بے جان اشیاء انحصار کرتی ہیں ، روز مرہ زندگی میں پانی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی، بڑھتی آبادی، ذخائر میں کمی، بھارت کے ساتھ پانی کے مسائل ، اور آب پاشی کا پُرانا نظام پاکستان میں پانی کی قلت کی اہم وجوہات ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق وہ ممالک جو پانی کی کمی کا شکار ہیں پاکستان کا شمار اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہوتا ہے، اعدادوشمار کے لحاظ سے اندیشہ ہے کہ2025 میں پاکستان صاف پانی جیسی نعمت سے محروم ہوسکتا ہے، پانی کی تیزی سے گھٹتی ہوئی مقدار، زراعت میں کمی ، مختلف بیماریوں ، نفسیاتی اُلجھنوں، اور معاشی نقصان کی وجہ بن سکتی ہے۔

پلاسٹک بیگ کا استعمال ، کھلے کچرے کے ڈھیر ، بے ہنگم تعمیرات، گندے پانی کا بھاؤ ، بنجر زمینیں، ذخائر میں کمی، اور غیرذمہ دارانہ رویہ پاکستان میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کا کھلا ثبوت ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی اموات میں23 فیصد حصہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کا ہے، جس میں 36 فیصد کم عمر بچے شامل ہیں۔ ان اموات کی وجہ صرف قدرتی آفات نہیں بلکہ اس کی وجہ بے شمار کوتاہیاں ہیں، جن کے خلاف آواز اُٹھانے والوں کی تعداد کو اُنگلیوں پر گِنا جاسکتا ہے۔

آج ماحولیات سے متعلق اعداد و شمار قلم بند کرنے کا مقصد علم میں اضافہ کرنا نہیں، بلکہ اس نقطہ نظر کو تلاش کرنا ہے جو اِس سوال کا جواب دے سکے کہ ’’آخرماحولیات کے اِس ماحول کا ذمہ دار کون ؟‘‘ یوں تو ٹاک شوز میں ہونے والی گفتگو اور اخباروں میں چھپنے والی خبریں بے شمار وجوہات سامنے لے ہی آتی ہیں لیکن اصل زندگی میں ہر انسان دوسرے شخص، دوسری حکومت ، دوسرے مذہب، اور دوسری قوم کو ذمہ دار ٹہرا رہا ہوتا ہے، جہاں نئی حکومت، جانے والی حکومت کی کوتاہیوں کو پیش کر کے عوام کو اپنی طرف متوجہ کرتی دکھائی دیتی ہے وہاں پرانی حکومت کے حکمران نئی حکومت کو گرانے کے لیے عوام کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں، اورسب سے زیادہ عام عوام کو نقصان ہوتا ہے۔

ماحولیاتی مسائل کو سیاست کے جھنڈ سے نکال کر اول رکھنے والی پہلی حکومت تحریک انصاف جس نے سال 2014میں بلین ٹری سونامی پروجیکٹ کا آغاز کیا اور آج اِس کے نتائج میں خیبر پختونخوا کے وزیرِ ماحولیات سید محمد اشتیاق یہ دعویٰ پیش کرتے ہیں کہ صوبے میں6.3 فیصد جنگلات میں اضافہ کی بنیادی وجہ یہ منصوبہ ہے۔ وفاقی وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی کے وزیر ملک امین اسلم جو حال ہی میں موسمیاتی تبدیلی پر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی منتخب ہوئے ہیں، اپنے اختیارات کا بہترین استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ماحولیات کے تحفظ کے لیے بے شمار پالیسیز پیش کیں۔

8- اکتوبر 2018ء کو وزیر اعظم نے کلین گرین پاکستان موومنٹ کا آغاز کیا جس کا بنیادی اصول پاکستان میں صفائی اور آبپاشی کو ترجیح دینا ہے ، وزیر اعظم پاکستان کی تقریر کے یہ الفاظ، ’’ اللہ نے ہمیں بے شمار ماحولیاتی نعمتوں سے نوازا ہے لیکن ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کے آنے سے پہلے ہی ان کو ختم کر دیا ہے‘‘ماحولیات کے تحفظ کی اہمیت کی عکاسی کرتے ہیں۔

پاکستان کے شمالی علاقہ جات، سوئٹزرلینڈ سے زیادہ خوبصورت ہیں ، بے حساب معدنیاتی ذخائر اِس ملک کی اَساسی خصوصیات ہیں۔ ان سب قدرتی نعمتوں کے باوجود، پاکستان میں ماحولیاتی تنزلی کے اسباب قانون کی خلاف ورزی اور ماحولیاتی تعلیم سے لا علمی ہے۔ ماحولیات میں بہتری کے لیے ناصرف حکومتی اقدامات ناگزیر ہیں بلکہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا اور انہیں اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ پلاسٹک بیگ پر مکمل پابندی، پانی کا دانشمندانہ استعمال ، شجرکاری، ماحولیاتی تعلیم کی آگاہی، اور گرین ٹیکنالوجی کا استعمال وہ بنیادی اقدامات ہیں جن کو عمل میں لاکر ماحولیاتی مسائل سے نمٹا جاسکتا ہے۔

پاکستان کے موجودہ حالات پر نظر ثانی کرنے کے بعد یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے وقتوں میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے نا صرف حکومت بلکہ ہر شخص پیش پیش ہوگا تاکہ آنے والی نسلوں کو قدرتی خوبصورتی سے متعارف کروایا جا سکے۔

صحت سے مزید