بنت صغیر
سگریٹ نوشی عوامی صحت سے متعلق ایک اہم مسئلہ ہے جو دنیا بھر میں افراد، خاندانوں اور طبقات کو متاثر کرتا ہے۔ پاکستان میں سگریٹ نوشی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور بالخصوص خواتین میں سگریٹ نوشی کا بڑھتا ہوا رجحان باعث تشویش ہے۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق، پاکستان میں روزانہ سگرین نوشی کرنے والی خواتین کی شرح سات فیصد سے زائد ہے۔
یہ اعداد و شمار اس لحاظ سے بھی پریشان کن ہیں کہ معاشرتی تبدیلیوں اور دباؤ کے عوامل اس رجحان کو بڑھا رہے ہیں۔ دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین میں تمباکو نوشی کی شرح سب سے زیادہ ہے، جہاں تقریبا 10 فیصد خواتین روزانہ سگریٹ نوشی کرتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ ناخواندگی اور سماجی و اقتصادی حالات ان رجحانات کے پنپنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔
تمباکو نوشی سے خواتین کو صحت سے متعلق متعدد خطرات کا سامنا ہے، جن میں پھیپھڑوں کا کینسر، دل کی بیماریاں، سانس لینے میں رکاوٹ کی بیماریاں شامل ہیں۔ خواتین کی سگریٹ نوشی کی وجہ سے ان کے اپنے خاندان اور بچے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ خواتین میں تمباکو نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحان سے پاکستان کے پہلے ہی دباؤ کا شکارصحت کے نظام پر مزید بوجھ پڑ رہا ہے۔
پاکستان میں خواتین سگریٹ نوشوں کو درپیش چیلنجزسے نمٹنے کے لیے ٹوبیکو ہارم ریڈکشن (ٹی ایچ آر) کو فروغ دینا بہت ضروری ہے۔ ایسی ہی ایک حکمت عملی میں منہ میں رکھنے والے نیکوٹین پاؤچز شامل ہیں جو چھوٹے بیگ کی طرح ہوتے ہیں اور ہونٹ کے نیچے رکھے جاتے ہیں، یہ تمباکو نوشی کے مضر اثرات کے بغیر نیکوٹین کو خون میں منتقل کرتے ہیں۔ یہ پاؤچز دھویں اور تمباکو سے آزاد ہوتے ہیں، اس لیے یہ خواتین کے لیے ایک بہتر متبادل ثابت ہو سکتے ہیں، جو نیکوٹین کا استعمال جاری رکھنا چاہتی ہیں۔
اس حکمت عملی کو قومی سطح پر متعارف کرانا خواتین کی صحت پر سگریٹ نوشی کے اثرات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ محقق اور پالیسی مشیر ڈاکٹر محمد رضوان جنید نے نیکوٹین متبادل مصنوعات جیسا کہ نیکوٹین پاؤچز کی اہمیت پر زوردیتے ہوئے کہا کہ یہ تمباکو نوشی سے متعلق نقصان کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ان مصنوعات کا سگریٹ نوشی کے مقابلے میں خطرہ بہت کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ ان افراد کے لیے موثر مدد ثابت ہو سکتے ہیں جو تمباکو سے دور جانا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر جنید کا ماننا ہے کہ نیکوٹین پاؤچز جیسے متبادل تمباکو نوشی کو کم کرنے یا اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایک ذریعہ بن سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ، جدید نیکوٹین مصنوعات ان افراد کے لیے کم خطرے پر مبنی متبادل فراہم کرتی ہیں جو سگریٹ نوشی کو مکمل طور پر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں یا ایسا نہیں کر پاتے۔
ڈاکٹر رضوان نے کہا کہ سوئیڈن جیسے ممالک میں تمباکو کے ٹوبیکو ہارم ریڈکشن مصنوعات کے مؤثر ہونے کی مثال موجود ہے، جہاں نیکوٹین پاؤچز متعارف کروانے کے بعد خواتین میں تمباکو نوشی کی شرح 40فیصد تک کم ہو چکی ہے۔
یہ کمی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اس طرح کے متبادل تمباکو نوشی کی شرح کو کم کرنے میں بڑی حد تک موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ ٹی ایچ آر حکمت عملیوں کو کامیابی سے نافذ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مختلف طبقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آگاہی مہم چلائی جائیں، جن کی قیادت خواتین کے حقوق کی تنظیمیں اور صحت کے ماہرین کریں۔
یہ مہمات سگریٹ نوشی کرنے والی خواتین، ٹی ایچ آر متبادل کے کم خطرات کے بارے میں آگاہ کرنے اور ان کو تعلیم دینے کے لیے ڈیزائن کی جانی چاہئیں۔ ایک معاون ماحول پیدا کرنے اور دھوئیں سے آزاد مصنوعات کے بارے میں معلومات فراہم کر کے ہم خواتین کو اپنے فلاح و بہبود کے بارے میں باخبر فیصلے کرنے کے لیے بااختیار بنا سکتے ہیں۔