• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہیومن میٹانیومو وائرس: عالمی وَبا کے بعد ایک اور چیلنج

انسانی صحت کے شعبے میں ہر چند سال بعد ایسے وائرسز اور وبائیں منظرِ عام پر آتی ہیں جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔ کورونا وائرس (سارس-کوو-2) کی وبا کے بعد، اب ہیومن میٹانیومو وائرس (ایچ ایم پی وی) کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ 

یہ وائرس سانس کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے اور اس کی علامات سے لے کر اثرات تک بہت کچھ کورونا وائرس سے مشابہ ہے۔ تاہم، کچھ بنیادی فرق بھی موجود ہیں۔ اس مضمون میں ہم ایچ ایم پی وی کے بارے میں مکمل تفصیلات فراہم کریں گے، اس سے بچاؤ کے اقدامات اور پاکستان میں اس کی صورتحال پر بھی روشنی ڈالیں گے۔

ہیومن میٹانیومو وائرس کیا ہے؟

ہیومن میٹانیومو وائرس (ایچ ایم پی وی) ایک آر این اے وائرس ہے جو سانس کے نظام کو متاثر کرتا ہے۔ اس کی دریافت 2001 میں نیدرلینڈز میں ہوئی، لیکن سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ یہ وائرس کئی دہائیوں سے انسانوں میں گردش کر رہا ہے۔

یہ وائرس بچوں، بزرگوں، اور ایسے افراد کو زیادہ متاثر کرتا ہے جن کا مدافعتی نظام کمزور ہو۔ ایچ ایم پی وی عام نزلہ زکام، برونکائٹس، اور نمونیا جیسی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔ زیادہ شدید کیسز میں یہ پھیپھڑوں کو بھی متاثر کرتا ہے اور ہسپتال میں داخلے کی نوبت آسکتی ہے۔

ایچ ایم پی وی کی علامات

ایچ ایم پی وی کی علامات عام طور پر ہلکی یا درمیانی شدت کی ہوتی ہیں، مگر بعض اوقات سنگین پیچیدگیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس کی عمومی علامات میں نزلہ، زکام، ناک بند ہونا یا بہنا، گلے میں خراش، کھانسی اور سانس لینے میں دشواری، بخار،تھکن اور کمزوری شامل ہیں۔

شدید کیسز میں، خاص طور پر کمزور مدافعتی نظام والے افراد اور بزرگوں میں، یہ نمونیا اور برونکائٹس کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ بچوں میں یہ علامات زیادہ سنگین ہو سکتی ہیں۔

کورونا وائرس اور ایچ ایم پی وی میں فرق 

اگرچہ ایچ ایم پی وی اور کورونا وائرس دونوں سانس کی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں، مگر ان میں درج ذیل فرق موجود ہیں:

وبائی اثرات اور شدت: کورونا وائرس نے ایک عالمی وبا کی صورت اختیار کی جس میں شدید بیماری اور لاکھوں اموات ہوئیں۔ ایچ ایم پی وی عام طور پر ہلکی یا درمیانی شدت کی بیماری کا سبب بنتا ہے، اور اس کا پھیلاؤ کورونا کے مقابلے میں محدود ہے۔

مدافعتی نظام کا ردعمل: ماہرین کے مطابق، ایچ ایم پی وی کئی دہائیوں سے موجود ہے، جس کا مطلب ہے کہ انسانی آبادی میں اس کے خلاف کچھ حد تک قدرتی قوت مدافعت پیدا ہو چکی ہے۔

ویکسین کی دستیابی: کورونا وائرس کے لیے مختلف ویکسینز دستیاب ہیں، جبکہ ایچ ایم پی وی کے لیے فی الحال کوئی ویکسین موجود نہیں۔

بچاؤ اور احتیاطی تدابیر: چونکہ ایچ ایم پی وی کے لیے کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے، اس لیے اس سے بچاؤ کے لیے عام حفاظتی اقدامات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ درج ذیل تدابیر اپنانے سے وائرس کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے:

ہاتھ دھونا: ہاتھوں کو باقاعدگی سے صابن اور پانی سے دھونا یا الکحل بیسڈ ہینڈ سینیٹائزر کا استعمال کرنا نہایت ضروری ہے۔

ماسک پہننا: بند جگہوں یا بھیڑ بھاڑ میں ماسک پہننے کی عادت اپنائیں، خاص طور پر جب نزلہ یا زکام کی علامات ظاہر ہوں۔

سطحوں کی صفائی: عمومی طور پر چھوئی جانے والی چیزوں جیسے دروازے کے ہینڈلز، موبائل فون، اور کھانے کی میزوں کو صاف رکھیں۔

مدافعتی نظام کو مضبوط کرنا: صحت مند غذا، مناسب نیند، اور ورزش مدافعتی نظام کو مضبوط بناتی ہیں جو وائرس سے بچاؤ میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

بھیڑ سے پرہیز: غیر ضروری بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پر جانے سے گریز کریں اور بیمار افراد سے فاصلہ رکھیں۔

طبی مشورہ لینا: اگر سانس کی بیماری کی علامات ظاہر ہوں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

پاکستان میں صورتحال: پاکستان میں ایچ ایم پی وی کے کیسز منظر عام پر آرہے ہیں۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ وائرس پہلے سے موجود ہے اور عام سانس کی بیماریوں کا حصہ ہے۔

قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) نے اس وائرس کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے اور اس کی نگرانی جاری ہے۔ ایچ ایم پی وی کی شناخت کے لیے معیاری پی سی آر ٹیسٹ موجود ہیں، جو تشخیص میں مدد دیتے ہیں۔

عالمی تحقیق اور اقدامات

دنیا بھر میں ایچ ایم پی وی پر تحقیق جاری ہے تاکہ اس کے علاج اور ویکسین کی تیاری ممکن بنائی جا سکے۔ امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اس وائرس کی نگرانی کر رہے ہیں۔

متعدد ممالک میں صحت کے ادارے اس وائرس سے بچاؤ کے لیے آگاہی مہم چلا رہے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہر سال لاکھوں افراد اس وائرس سے متاثر ہوتے ہیں، لیکن زیادہ تر کیسز ہلکی علامات کے ساتھ ہی ختم ہو جاتے ہیں۔

نتیجہ

ایچ ایم پی وی ایک عام سانس کی بیماری کا باعث بننے والا وائرس ہے جو کئی دہائیوں سے موجود ہے۔ کورونا وائرس کے مقابلے میں یہ کم خطرناک ہے، لیکن حفاظتی اقدامات اپنانا اس سے بچنے کا بہترین طریقہ ہے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس وائرس پر نظر رکھی جا رہی ہے، اور طبی ماہرین عوام کو معمولی علامات کو بھی سنجیدگی سے لینے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ وقت پر طبی مشورہ اور احتیاطی تدابیر سے نہ صرف بیماری سے بچا جا سکتا ہے بلکہ دیگر افراد کو بھی محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

صحت سے مزید