چھوٹا سا مکان، جس میں جنت بھی ہے، دوزخ بھی، جہاں ایک غریب مجبور گھر میں قیدی ماں ’’زینو‘‘ کی جوانی اپنے شوہر اور بچوں کے لئے روٹی کا تعاقب کرتے گزری، لیکن اُن کی بھوک پھر بھی نہ مٹا سکی۔ غربت کی تنی ہوئی رسی پر چلتے چلتے کبھی کبھار وہ اپنا توازن کھو بیٹھتی۔ گرچہ اُسے معلوم تھا کہ میرے معصوم پھولوں کی قسمت میں صرف ظالم ہوا کے جھونکے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں سکّوں کی چھن چھن، چابی سے چلنے والے کھلونے، بجلی سے بھاگنے والی ریلیں اور گھنگرو بجاتے بھالو کبھی نہیں آئیں گے۔ گندے پانی کے جوہڑ سے پیاس بجھاتے اور دوسروں کی اُترن سے تن ڈھانپتے روتے دھوتے زندگی بتا دیں گے۔
سو ایک تاریک رات اُس نے دل پر جبر کرکے بچوں کو کھانا کھلانے کے بہانے گھر سے لے کر نکلی اور ایک یتیم خانے کے در پر اُنہیں چھوڑ کر ایسے بھاگی، جیسے وہ اُس کے کبھی تھے ہی نہیں، بچوں کی آوازیں، اماں اماں کی پکار بھی اُس کے بڑھتے قدم نہ روک سکی۔ گھر آکر اُس نے ٹوٹا پھوٹا دروازہ ایسے بند کیا، جیسے کبھی کھلے گا ہی نہیں۔
وہ رات صرف اس شہر پر ہی نہیں اُس ملک پر بھی بھاری گزری ہوگی۔ صبح ہونے سے قبل یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح چنگھاڑتی سرخیوں کے ساتھ ایسی پھیلی کہ اس کے گھر کے باہر جہاں سے کبھی کوئی کار نہ گزری وہاں میڈیا ، فلاحی اداروں کی گاڑیوں کا تانتا بندھ گیا ۔اہل محلہ ہی نہیں بستی کے کم و بیش سب افراد اُس کے گھر میں جھانک رہے تھے۔
ایک چھوٹے کمرے اور صحن پر مشتمل اس گھر میں نہ روشنی ہے اور نہ ہوا کا گزر، گھر کی چھت میں غربت و مفلسی کے پتھروں نے اس طرح چھید کر رہے ہیں کہ اس پر ایک چھوٹا سا پنکھا اور لائٹ بھی نہیں لگ سکتی۔ اس کے گھر کو دیکھتے ہوئے ہم سوچ رہے تھے کہ جو عورت اتنے مشکل حالات میں رہتی ہے، وہ مسکرا کسے سکتی ہے؟ لیکن اسی لمحے زینو کے چہرے پرنم ناک مسکراہٹ بکھری، اس نے اپنے اردگرد کھڑے لوگوں کو دیکھتے ہوئے کہا ، ’’جو ہوناتھا وہ ہو چکا ۔ میرےپانچ بچے ہیں تین بیٹیاں ، دو بیٹے چار بچے ایک یتیم خانے کے سپرد کر دیے، کبھی واپس نہ لانے کے لئے اورکیوں لائوں، کیاکروں گی انہیں اپنےگھر میں لا کر، جہاں انہیں کبھی پیٹ بھر کھانےکو نہیں ملا۔
کیا ایک ماں اپنے بچوں کو بھوک سے روتا بلکتا دیکھ سکتی ہے۔ بھوک تو بیماریوں کی جڑ ہے، جرائم کی دنیا ہے، وہ بیمار ہوتے تو میں کیسے ان کا علاج کراتی، وہ چور، ڈاکو بن جاتے تومیں کیا کرتی۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں میرے بچے روٹی کے لئے غلط راہ پر نہ چل پڑیں۔ اپنا پیٹ بھرنے کے لئے دوسروں کا پیٹ پھاڑنے سے کہیں بہتر یہی تھا، جو میں نے کیا۔ تین ماہ کی بیٹی میرے پاس ہے، اس کا پیٹ میں بھرسکتی ہوں۔ ‘‘ زینو نے صاف، مستحکم اور پرسکون لہجے میں کہا، چند منٹ خاموش رہنے کے بعد اس نے بھرائی آواز میں کہا۔
’’میرے حالات ایسے کبھی نہ تھے کہ تن کپڑوں کے لئے تر سے اور پیٹ اناج کے لئے، میں چار سال تک تنکوں کی ٹوکریاں بنا کر گلی گلی فروحت کرتی تھی۔ ماہانہ ہزار بارہ سو روپے ہاتھ میں آہی جاتے تھے۔ شوہر نکھٹو تھا، لیکن دو وقت پیٹ بھر روٹی اسے چاہیے ہوتی تھی۔ روزانہ کھانے کے لئے آدھا کلو آٹا بھی کم پڑتا تھا، سو عموماً میں ہی بھوکی سوتی تھی۔ ایک سال قبل شوہر مر گیا۔ بد قسمتی سے میرا کام بھی ٹھپ ہو گیا‘‘۔ ایسے میں بچوں کا پیٹ کیسے بھرتی، ان ہی کی خاطر میں نے اپنے آپ کو مار دیا۔ پتا نہیں وہ میرے بغیر اور میں ان کے بناء جی پائوں گی‘‘۔
زینو اپنا جملہ مکمل نہ کر سکی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ لیکن کسی نےاسے آگے بڑھ کر تسلی نہیں دی، شاید کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی ۔ لوگوں کی موجودگی کے باوجود اردگرد اتنا گہرا سناٹا تھا جیسے تمام آوازوں کی موت واقع ہو چکی ہو اور جیسے صرف اس کا اپنا گھر ہی نہیں ساری دنیا ایک وسیع و عریض قبرستان میں تبدیل ہو گئی ہو۔ زینو کے قریب کھڑی وہ عورتیں جنہیں دیکھ کر صاف لگ رہا تھا کہ ان سے بھی ان کی زندگی کی ساری خوشیاں چھین لی گئی ہیں۔ ایک دوسرےکے گلے لگ کر چیخ چیخ کر رو رہی تھیں، گرچہ آسمان ایسی چیخوں سے بھرا ہوا ہے، جو غریب گھروں کے آنگنوں اور کچی آبادیوں کی گلیوں سے آہستہ آہستہ اٹھتی ہیں اور بلند ہوتی آسمان میں سما جاتی ہیں، لیکن دھرتی کے دکھوں کا آئینہ ان دل خراش چیخوں سے بھی پاش پاش نہیں ہوا، جو زینو کے کچے صحن سے بلند ہو رہی تھیں۔
زینو کی ادھوری داستان پوری طرح سنی بھی نہیں گئی تھی، چیخیں ابھی سنائی دے رہی تھیں کہ ٹی وی چیلنجز سے ایک اور بریکنگ نیوز نے شور مچا دیا۔ اس شور میں ماتم تھا۔ خبر کے مطابق لاہور کی رہائشی 35سالہ منزہ نے غربت سے دل برداشتہ ہو کر اپنے چار معصوم بچوں کو زہر کا انجکشن لگا کر ابدی نیند سلا دیا، جب بچے تڑپ رہے تھے تو منزہ نے خود بھی زہر کے انجکشن سے اپنی زندگی کی ڈور کاٹ دی۔
منزہ کا شوہر کانسٹیبل ہے، جب کہ منزہ سوشل سیکورٹی اسپتال، فیروز پور روڈ میں ہیڈ نرس تھی۔ معاشی مسائل نے اس کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ جب اسے اندازہ ہو گیا کہ غربت نے میرے چاروں طرف اس طرح ڈیرا ڈال لیا ہے کہ نہ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر کھلا سکتی ہوں، نہ بیماری کی صورت میں علاج کرانے کی سکت ہے اور انہیں تعلیم سے بہرہ مند کرانا میرے بس میں ہے، تو اس نے اپنی اور بچوں کی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس فیصلے پر عمل در آمد کرتے ہوئے اس کے ہاتھ کتنی بار لرزے ہوں گے، دل کتنی بار کانپا ہو گا، یہ ہم صرف سوچ ہی سکتے ہیں۔
لیکن ٹی وی پر دکھائی جانے والی تصویروں میں معصوم چہروں پر دکھ اور کرب نقش دیکھ کر ناظرین ضرور کاپنے ہوں گے۔ ایک تصویر میں دم توڑتی ماں کا ہاتھ قریب المرگ بچے کے ہاتھ پر تھا۔ بچےکے چہرے پر چھائی اذیت بتا رہی تھی کہ بس اب جسم و جاں کا رشتہ ٹوٹنے کو ہے ۔ ماں کی ادھ کھلی آنکھیں بچوں کے چہروں پر مرکوز تھیں۔ چیخیں تو سنائی نہیں دے رہی تھیں لیکن ماں اور بچوں کو چیخیں ان تصویروں میں قید ضرور نظر آرہی تھی۔ آوازیں سماعت سے ٹکرا رہی تھیں کہ ایک ماں بچوں کو دودھ نہ پلا سکی لیکن زہر آسانی سے ان کے جسم میں اتار دیا، خود دو بوند صاف پانی کو ترستی رہی، مگر زہر خوب پی لیا۔
یہ ایک اور ناقابل یقین جیتی جاگتی ادھوری داستان جسے سن کر آنکھیں ہی نہیں دل بھی روتا ہے۔ دماغ ہی نہیں ہاتھ پیر بھی شل ہو جاتے ہیں۔ یہ داستان ہے، ماسی زینب دریا خاں بلوچ کی۔ اس کی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ اس کے آٹھ بچوں میں سے پانچ بچے نابینا ہیں ۔ مرے پہ سو درے ، شوہر لکڑیاں چھیل کر فروخت کرتا تھا، ایک دن لکڑیاں چھیلتے چھیلتے بھاری بھر کم لکڑی اس کےپیروں پر ایسی گری کہ وہ زندگی بھر کے لئےمعذور ہو گیا، اب زینب تن تنہا سیاہ زمین میں اپنے شوہر اور بچوں کے لئے جینے کا ساماں پیدا کر رہی ہے۔
زینب ماری پور ٹھنڈی سڑک کے قریب ایک جھونپڑی میں رہتی ہے۔ غربت نے اس کی کمر دہری کر دی ہے۔ زینب کہتی ہے کہ، ’’میں جتنے دکھوں سے گزری ہوں اور اب تک گزر رہی ہوں، کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ ایسا لگتا ہے۔ غربت اور پریشانیوں نے میرے گھر کی چوکھٹ پر قدم جما لیے ہیں۔ جو کماتی ہوں اس میں اس ایک پیسا اپنی ذات پر خرچ نہیں کرتی، سب پیٹ کی نذر ہو جاتا ہے۔ پھر بھی پیٹ بھوکا ہی رہتا ہے۔‘‘ کہتے ہیں غربت کا سفر طے کرنے والے زندگی کاسفر جلد طے کر لیتے ہیں اور پھر وقت کے ہاتھوں بوڑھے ہو جاتےہیں۔
یہ (غربت) حقیقت ہے جو انسان سے اس کا سب کچھ چھین لیتی ہے۔ زینو، منزہ اور زینب کی داستان اس تلخ حقیقت کی ایک ہلکی سی جھلک ہے، اس سے آگے بھی بہت کچھ ہے۔ بھوک ہی نہیں محرومی، بیماری، بے یقینی، مایوسی، جہالت، ناامیدی ، یہ سب بھی غربت کی مختلف جہتیں ہیں۔ دراصل غربت کے سمندر کی گہرائی کو کوئی نہیں جان سکتا ۔ اس کی کشتی میں ناانصافیوں کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ اس کا سمندر کی سطح پر تیرتے رہنا اور ساحل تک پہنچنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
درحقیقت ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں ، جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں، وہ فنا اور بقا کی قوتوں کے درمیاں ایک کش مکش سے دوچار ہے ایک جانب پر شکوہ بنگلے اور قلعے نما محل نظر آتے ہیں۔ جہاں ہیٹر بھی جلتے ہیں اور ائیر کنڈیشنڈ بھی چلتے ہیں۔ دوسری جانب خزاں رسیدہ پتوں کی طرح کچے مکانات اور جھونپڑیوں کی یلغار ہے، جہاں لالٹیں بھی جلتی ہیں اور دل و دماغ بھی۔ جہاں امیروں کا رعب و دبدبہ بھی ہے اور غریبوں کی بے بسی بھی۔ وہ علاقے بھی ہیں جہاں آسائشوں کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا اور وہ بستیاں بھی ہیں جہاں ضرورتوں کے چراغ مدہم مدہم جلتے ہیں۔ یہ کش مکش امیر و غریب کے درمیاں ایک ایسی سرد جنگ ہے جو عملی زندگی کے ریگ زاروں کے ساتھ ہم سب کے ذہنوں میں لڑی جا رہی ہے۔ جو بنیادی طور پر پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے ہے۔
امریکا کے سابق وزیر خارجہ، ہنری کسنجر نے ایک بار کہا تھا کہ ’’جو ملک خوراک کو کنٹرول کر لے، وہ پوری دنیا پر حکمرانی کر سکتا ہے، کیوں کہ کوئی بھی اپنے بچوں یا پیاروں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتا اور سر جھکا دیتا ہے۔ ’’آج سے تقریباً پچاس سال قبل امیر ممالک نے بھی تیسری دنیا سے وعدہ کیا تھا کہ وہ امیروں اورغریبوں کے درمیان سماجی اور معاشی فاصلوں کو کم کریں گے، جس سے خوراک زیادہ ہو گی اور ناانصافی کم لیکن اس کے لئے ہمیں خواتین کی حالت زار پر خصوصی توجہ دینا ہو گی، کیوں کہ خوراک کی کمی کا اثر ان پر زیادہ ہوتا ہے اور قدم قدم پر ناانصافیاں بھی انہیں جھیلنی پڑتی ہیں۔ لیکن جب امیر ممالک اپنا وعدہ پورا نہ کر سکے تو خواتین خود کھڑی ہو گئیں۔ آج تو صورت حال یہ ہے کہ خوراک کم اور ناانصافیاں زیادہ ہیں۔
غریب کے پاس نہ رہنے کو چھت ہے نہ کھانے کو روٹی اور نہ تن ڈھانپنے کو کپڑا، لاتعداد بچے غربت کی گود میں پروان چڑھ رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق، دنیا بھر کے تقریباً چالیس کروڑ بچے بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں، ایسے میں ماں کا دکھ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ عورت اور غربت کا تعلق بہت گہرا ہے۔ بھوک ، محرومی اور بیماری کا سب سے زیادہ شکار وہی ہوتی ہے۔
اگر گھر میں کسی ایک شخص کو بھوکا رہنا پڑے۔ کسی ایک بچے کو اسکول سے اٹھانا پڑے، تو وہ صنف نازک ہی ہوتی ہے۔ حیرت ہے کہ زندگی اور بقا جیسے بنیادی عوامل بھی صنفی خانوں میں بانٹ دیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے غریب خواتین کی حالت قابل رحم ہے، نہ انہیں صحت بخش غذا میسر ہے، نہ تعلیمی اور طبی سہولتیں۔ چینی کہاوت ہے کہ ’’خواتین نصف آسمان ڈھانپتی ہیں‘‘ لیکن ہمارے جیسے معاشروں میں آسمان کا یہ نصف انتہائی اذیت ناک زندگی گزار رہاہے لیکن کوئی ان کی اذیت کی گہرائی کو نہ جان سکا یا جان بوجھ کر جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔
اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو غربت بھی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک غربت وہ ہے جو ورلڈ بینک کی تعریفوں میں بیان کی گئی ہے اور دوسری غربت ٹوٹے پھوٹے گھروں کی دہلیز پر رقم ہے۔ جو بھوک سے بلکتے بچوں کی صدائوں میں سنائی دیتی ہے، سہمی ہوئی آنکھوں، میں جہالت کی تاریکیاں اور نحیف و نزار جسموں، پیلے مدقوق بیمار چہروں پر ناامیدی، مایوسی، محرومی نمایاں نظر آتی ہے۔
حال ہی میں امریکی جریدے ’’ٹائم میگزین‘‘ نے ان اقوام کی نشان دہی کی ہے جو اپنی آمدن کا زیاد حصہ دو وقت کی روٹی پر خرچ کرتی ہیں، پھر بھی ان کی عورتیں اور بچے بھوکے سوتے ہیں۔ ان اقوام میں پاکستان قوم کو پہلی پوزیشن دی گئی ہے، جو اپنی 46 فی صد آمدن دال روٹی، پر صرف کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں ہر روز 80 کروڑ بچے اور اس سے کہیں زیادہ عورتیں بھوکی سوتی ہیں۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ غربت کا شکار مرد سے زیادہ عورت ہوتی ہے اور غربت میں اضافہ کی اہم وجہ جنگل کی آگ کی مانند بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ اس اضافے سے زمین کے دست یاب وسائل بھی تیزی سے ناکافی ہوتے جا رہے ہیں۔ غربت، افلاس، مہنگائی، بھوک، روز مرہ ضروریات، رہائش، علاج معالجے کی سہولیات اور روزگار جیسے بحران شدید سے شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔
1798ء میں ، تھامس رابرٹ مالتھوس نے اپنے مقالہ، بہ عنوان اصول آبادی میں لکھا تھا کہ ’’انسانی آبادی جیومیٹری کے انداز میں بڑھتی ہے، اگر اس پر کنٹرول نہ کیا جائے گا تو ہر 25سال بعد یہ دگنی ہوتی جائے گی‘‘۔ آبادی بڑھنے کی طاقت اس پیداوار کے مقابلے میں لامحدود حد تک زیادہ ہے جو زمین انسانوں کے لئے پیدا کرتی ہے۔ مالتھوس نے سوائے انتہائی غریب افراد کو خوراک دینے کی مخالفت کی تھی، کیوں کہ اس کے نزدیک ایسا کرنے کی صورت میں یہ ہو گا کہ لوگ اور بچے پیدا کریں گے، جو غربت اور مصیبت کے ماحول میں جیئیں گے۔
اس وقت لوگوں نے اس کی بصیرت اور دانائی کو سنگ دلی سمجھا اور اس پر سخت تنقید کی تھی۔ لیکن وقت نے اس کا کہا صحیح ثابت کر دیا۔ اس وقت سے اب تک دنیا کی آبادی میں چھ ارب افراد کا اضافہ ہو چکا ہے اور غریب خاندانوں میں یہ سوچ بھی مستحکم ہونے لگی ہے کہ طبی سہولتیں میسر نہ ہونے کے باعث بچے مر جاتے ہیں ، پھر بھی کئی بچوں میں سے ایک دو بچے تو بڑے ہوں گے، جو بڑھاپے کا سہارا بنیں گے۔ لیکن اس سوچ میں عورت کہیں شامل نہیں ہے۔ وہ تو مجبور، بے بس ہے۔ اسے بچوں کی تعداد مقرر کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے۔ 1998ء میں ’’غربت اور خواتین کے معاشی مسائل سے متعلق ایک کانفرنس کا انعقاد، یونیورسٹی آف کیپ ٹائون (سائوتھ افریقا) میں ہوا تھا۔
کانفرنس میں یہ سوال زیر بحث آیا تھا کہ غربت کا شکار مرد بھی ہوتے ہیں، پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ غربت سے مردوں سے زیادہ خواتین متاثر ہوتی ہیں؟ اس سوال کا جواب امریکا کے معروف دانش ور،نوم چومکسی نے یہ دیا کہ، وہ اس وقت جب میں آپ سے مخاطب ہوں، دنیا میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد بچے ایسی بیماریوں سے مر رہے ہوں گے، جن کا علاج انتہائی سستا اور سادہ ہو گا۔ نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے ہزاروں غریب مائیں موت کو گلے لگا رہی ہوں گی۔ اگر دوران حمل انہیں متوازن صحت بخش غذا اور پیٹ بھر کھانے کو مل جاتا تو ان میں موت سے مقابلہ کرنے کی سکت ہوتی۔
غریب گھرانوں کے مردوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ماں بننے والی عورتوں کو پروٹین، فولاد، زنک اور آیوڈین سے بھر پور غذا فراہم کریں گے، ممکن ہی نہیں، جس دن سے کوئی غریب عورت نئے وجود کی پرورش کرنا شروع کرتی ہے، اسی دن سے وہ صحت کے اضافی مسائل کا شکار ہو جاتی ہے اور اسی دن سے وہ ہر لمحہ، ہر آن موت کے خطرے سے دو چار رہتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ غربت سے عورت جنگ لڑتے لڑتے زندگی ہار دیتی ہے‘‘۔
تلخ نوائی سچا گھونٹ ہے
ایک مرتبہ اردو زبان کے صوفی ادیب، اشفاق احمد نے دورۂ چین کے دوران مائوزے تنگ سے کہا تھا کہ ’’آپ عظیم رہنما ہیں، ہمیں کوئی نصیحت کریں‘‘ مائوزے تنگ نے جواباً کہا ’’اپنے ملک کی دیواریں اتنی بلند بنائو کہ مغربی ممالک تمہارے ملک میں اپنی سیاسی چالیں اور اپنی ثقافتی غلاظتیں داخل نہ کر پائیں‘‘۔ آج ماوزے تنگ کی اس نصیحت پر عمل پیرا ہونے کی سخت ضرورت ہے۔
کسی دوسرے ملک کے دروازے پر دستک دینے کے بجائے اپنے عوام کے دل پر دستک دینا ہوگی، کیوں کہ عوام سے زیادہ سیاسی اُستاد اور کوئی نہیں ہوتا‘‘ جو آج ایک آنکھ میں اُداسی اور ایک آنکھ میں اُمید لئے بے سمت سیاست کو دیکھ رہے ہیں، یہ دونوں آنکھیں اُن بے بس، غریب خواتین کی زیادہ ہیں جو ان آنکھوں سے اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتا، تڑپتا دیکھ کر بھی کچھ نہیں کرسکتیں۔
ماسوائے اس کے کہ کسی یتیم خانے کے در پر چھوڑ آئیں یا اُنہیں چند سکّوں کے عوض بیچ دیں۔ لیکن اقتدار کی چابی رکھنے والے عوام کے ہاتھ سے روٹی کا نوالہ ہی نہیں سر سے چھت بھی چھین رہے ہیں۔ یہ تلخ نوائی سچا گھونٹ ہے اگر ’’بھوک‘‘ کا مسئلہ حل نہ ہوا تو چھینا چھپٹی، لوٹ مار ہی نہیں اور بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے۔
روٹی بھی قرض کی کھاتے ہیں
یہ حقیقت ہے گرانی کے اس دور میں کم تن خواہ والےگھرانوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا صحیح اندازہ وہی خواتین کر سکتی ہیں، جو اس کرب سے گزر رہی ہیں، غریب شوہر کی بیوی کو قدم قدم پر اپنی اور اہلخانہ خصوصاً اپنے بچوں کی معمولی معمولی خواہشوں کا بے کسی کے عالم میں گلا گھونٹنا پڑتا ہے۔ اس کےباوجود وہ دو وقت کی پیٹ بھر روٹی کا انتظام نہیں کر پاتیں، شوہر کی تن خواہ ملتے ہی وہ قرض داروں کو دے دیتی ہیں اورپھر پورا مہینہ قرض پر گزاراکرنا پڑتا ہے۔
اقوام متحدہ کا ذیلی ادارے، عالمی ادارہ خوراک دنیا بھر میں خوراک کی صورت حال پر نظر رکھتا ہے۔ ادارے کے پاکستان میں تعینات ڈائریکٹر، وولن گینگ ہر بنجر نے جون 2011ء میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’پاکستان میں بے پناہ مہنگائی کی وجہ سے لوگ روٹی کے لئے بھی قرض لینے پر مجبور ہو گئےہیں، گرچہ کھانے پینے کی اشیاء وافر مقدار میں ہیں، لیکن مشکل یہ ہے کہ عوام کے پاس ان اشیاء کو خریدنے کے لئے پیسےنہیں ہیں۔ غذائی اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے پاکستان میں خوراک کا استعمال افریقا سے بھی کم ہو گیا ہے، اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ روٹی کے لئے قرض بھی خواتین لیتی ہیں اور بھوکی بھی وہی رہتی ہیں‘‘۔
یہ رپورٹ ایک آئینہ ہے، واشنگٹن ڈی سی میں قائم انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جنرل، جوشم وان پبرائون کی تحقیق رپورٹ(2010) بھی یہ کہتی ہے کہ پوری دنیا میں خوراک کا بحران ہے، لیکن اس سے سب سے زیادہ وہی لوگ متاثر ہو رہے ہیں، جو سب سے زیادہ غریب ہیں، خوراک کی پیداوار آبادی میں اضافے اور بڑھتی ہوئی طلب کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس بحران پر قابو پانے کے لئے پس ماندہ ممالک کی خواتین پر خصوصی توجہ دینی ہو گی۔ انہیں سمجھانا ہو گا کہ کم آمدنی میں کم بچے پیدا کریں، آخر وہ کب تک قرض کی روٹی کھائیں گی، آج عورتوں کی وجہ سے زمین پر آبادی کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔
آخر زمین اور کتنا بوجھ برداشت کرے گی؟ دنیا کی چھ ارب سے زائد آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے اور غریب ، پس ماندہ ممالک کی بیش تر آبادی کو بھوک اور فاقہ کشی سے بچانے کا مسئلہ عالمی سطح پر تشویش ناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ غذائی اجناس کی پیداوار میں مسلسل کمی اوران کی قیمتوں میں جتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اس سے کہیں زیادہ غریب خواتین قرضوں میں جکڑتی جا رہی ہیں۔
گلوبل فوڈ سیکورٹی کے لئے قائم ٹاسک فورس کی ماہانہ رپورٹ، جون 2011ء میں درج ہے کہ خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے براہ راست اثرات غریب طبقے پر پڑتے ہیں۔ جس سے متاثر اس طبقے کی خواتین ہوتی ہیں جن کے مرد قرض کی روٹی تو کھاتے ہیں ، لیکن قرض چکانے کے لئے اپنے گھر کی عورتوں کو تنہا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں یا عورت پر تشدد کرتےہیں، مگر ہر دو صورت میں قرض عورت ہی اتارتی ہے۔
عورت مارچ چھوڑو، بھوک مارچ کرو
وہ خواتین جو بدترین حالات میں بھی ہمت نہیں ہارتیں، وہ بھوک کے سخت ترین عذاب سے گزرتے ہوئے بچوں کو فروخت کرنے پر ہی نہیں اُن کی زندگی ختم کے بھی در پے ہوگئی ہیں۔ ان کے مدقوق وحشت زدہ چہرے غماز ہیں اس بات کے کہ بھوک ان سے کوسوں دور فاقے سے بغل گیر ہوگئی ہے۔ نام نہاد ترقی کے تیز ترین عمل میں مہنگائی نے ان کے ہاتھوں سے روٹی اور منہ سے نوالہ تک چھین لیا ہے۔
غریب کی تمام تر توجہ کا محور ’’روٹی‘‘ ہوتی ہے۔ سخت محنت کے بعد اُنہیں دو لقمے روٹی نصیب ہو ہی جاتی تھی۔ لیکن اب تو معصوم بچے ہی نہیں بوڑھے، نوجوان اور عورتیں بھی کوڑے دان میں روٹی کے ٹکڑے تلاش کرتی اپنے نصیبوں کو رو رہے ہیں۔ نظر ایسا آرہا ہے کہ عام آدمی زندگی کی سانسیں رواں رکھنے کے لئے دو وقت کی روٹی کے لئے مارا مارا پھرتا رہے گا جن میں غریب خواتین سرفہرست ہوں گی۔
گزشتہ دو سال سے ’’عورت مارچ‘‘ کے بہت چرچے ہو رہے ہیں، امسال تو اس پر پابندی لگانے کا بھی شور ہے۔ لیکن غریب عورت جو اپنے بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی کے لئے ماری ماری پھر رہی ہے، اب وہ پیٹ باندھ کر ’’بھوک مارچ‘‘ کرے، شاید کہ بات بن جائے اور کسی کو اس مارچ پر اعتراض بھی نہ ہو۔